Inquilab Logo Happiest Places to Work

مرغی نے سبق سکھایا

Updated: July 05, 2025, 12:25 PM IST | Salim Khan | Faizpur

رحمت خالہ کا مکان بستی سے دور کھیت کھلیانوں کے قریب تھا۔ وہاں آس پاس نیم، پیپل، املی وغیرہ کے لمبے گھنے درخت تھے۔ جن پر کئی طرح کے پرندوں کا بسیرا تھا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

رحمت خالہ کا مکان بستی سے دور کھیت کھلیانوں کے قریب تھا۔ وہاں آس پاس نیم، پیپل، املی وغیرہ کے لمبے گھنے درخت تھے۔ جن پر کئی طرح کے پرندوں کا بسیرا تھا۔ رحمت خالہ کی تھوڑی کھیتی باڑی تھی اور ان کے ہاں گائیں، بھینسیں اور بکریاں بھی تھیں مگر انہیں مرغیاں پالنے کا بڑا شوق تھا۔ انہوں نے اپنے گھر کے کشادہ آنگن میں دو چار ڈربے بنا رکھے تھے۔ جو تیس چالیس مرغیوں کے لئے کافی تھے۔ اگر کسی وجہ سے مرغیوں کی تعداد کم ہوجاتی تو وہ انڈے جمع کرکے مرغی بٹھا دیا کرتیں۔ اس طرح ان کے صحن میں ہمیشہ مرغیوں کی چہل پہل رہا کرتی۔
 ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ مرغیوں کے وبائی مرض میں خالہ کی دس پندرہ مرغیاں مر گئی تھیں۔ اس بھر پائی کیلئے انہوں نے ہمیشہ کی طرح اکیس انڈے جمع کئے اور اپنی پہاڑی مرغی کو بٹھا دیا۔ پہاڑی مرغی نے خوب محنت سے انڈے سینک کر بیس بچے نکالے تھے۔ مرغی اپنے ننھے منے، رنگ برنگے چوزوں کو کھاتے پیتے، بھاگتے دوڑتے دیکھ کر بہت خوش ہوتی۔ وہ ان کا بڑا خیال رکھتی اور انہیں زمین کرید کرید کر خوب کھلایا کرتی۔ مگر سامنے پیڑ پر رہنے والے کوّے اس کے بچوں کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ نرم نرم ملائم چوزوں کو دیکھ کر ان کے منہ میں پانی بھر آتا۔ وہ ہمیشہ تاک میں رہا کرتے اور جب کوئی چوزہ پیچھے رہ جاتا یا اکیلا دکھائی دیتا اسے فوراً اُچک لیا کرتے۔ چند ہی روز میں وہ مرغی کے چار پانچ چوزے کھا چکے تھے۔ مرغی اب بچوںکی سخت نگرانی کرنے لگی تھی۔ جب کبھی کوئی کوّا گھر کی چھت پر آبیٹھتا وہ شور مچا کر بچوں کو خطرے سے آگاہ کردیتی اور اگر کوّا جھپٹنے کی کوشش کرتا تو وہ پر تول کر دور تک پیچھا کرکے اسے بھگا دیتی۔ یوں تو کوّے بڑے شاطر اور چالاک تھے۔ ان سے مرغی کا مقابلہ بہت مشکل تھا۔ لیکن ماں ماں ہوتی ہے۔ انسان کی ماں ہو یا کسی جاندار کی۔ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے جان کی بازی لگا کر ہر آفت کا سامنا کرسکتی تھی۔ مرغی اپنے بچوں کی جان بچا کر کئی بار کوؤں کے دانت کھٹے کرچکی تھی۔ مگر کبھی کبھی ذرا سی غفلت سے بچے کوؤں کی چالاکی کا شکار ہوجاتے تھے۔
 کوؤں کی یہ دشمنی نسل در نسل چلی آرہی تھی۔ ان کے باپ دادا بھی اپنے زمانے کی مرغیوں کے کئی چوزے کھا چکے تھے۔ یہ بات مرغی نے بچپن میں اپنی نانی سے سن رکھی تھی۔ اس نے سوچا آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔ کب تک ہم خوف و ہراس کی زندگی جئیں گے۔ کب تک ہمارے بچے ان ظالم کوؤں کی خوراک بنتے رہیں گے۔ اب مرغی کے صبر کا پیمانہ بھر چکا تھا۔ اپنے بچوں کو کوؤں کے پنجوں میں تڑپتا دیکھ کر اس کی روح زخمی ہوگئی تھی اور وہ جب بھی کسی کوّے کو دیکھتی اس کی آنکھوں میں خون اُتر آتا۔ ہرچند کہ کوؤں کی پرواز مرغی کی اڑان سے بہت اونچی اور تیز تھی پھر بھی مرغی بڑی حد تک ان کا پیچھا کیا کرتی تھی۔ پچھلے دنوںایک کوّے پر جھپٹ کر وہ اپنے بچے کو چھڑانے میں کامیاب ہوگئی تھی اور اس کا حوصلہ بڑھ گیا تھا۔ ایسے واقعات اور نظارے دیکھ کر اس کے بچے بھی کافی ہوشیار ہوگئے تھے۔
 اب بچوں کے بال و پَر نکل آئے تھے۔ ان میں اپنی ماں کی ہمت وحوصلہ در آیا تھا اور وہ کوؤں سے اپنا بچاؤ بھی کرنے لگے تھے لیکن کوّے اپنی عادت کے مطابق موقع دیکھ کر حملے کرتے ہی رہتے تھے۔ مگر اب مرغی اپنے بچوں کی ہلاکت نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اس نے دل میں ٹھان لیا تھا کہ کوئی کوّا اس کے ہاتھ آجائے تو ایسا سبق سکھائے گی کہ زندگی بھر یاد رکھے گا۔
 ایک روز، پیٹ بھر جانے پرچوزے اپنے ڈربے کے پاس خوب اچھل کود کر رہے تھے۔ ان کی حفاظت کیلئے مرغی نے نظریں گھما کر اطراف کا جائزہ لیا اور اسے پیڑ پر پتّوں کی اوٹ میں چھپاکوّا نظر آگیا۔ مرغی کوّے کی چال سمجھ گئی۔ وہ فوراً ڈربے کی آڑ میں چھپ گئی اور دل میں پکا ارادہ کر لیا کہ آج وہ پوری قوت سے اڑان بھر کے کوّے پر زبردست حملہ کرے گی۔ اس کوّے نے ہمیشہ کی طرح موقع پا کر بچوں پر جھپٹا مارا۔ بچے تیزی سے اِدھر اُدھر چھپ گئے۔ مرغی نے فوراً اُڑان بھری اور کوّے پر پیچھے سے حملہ کر دیا۔ مرغی کے اس اچانک حملے سے کوّا بوکھلا گیااور سامنے کھڑی چار پائی سے ٹکرا کر پیٹھ کے بل گر گیا۔ اسکے زمین پر گرتے ہی مرغی اسکے پروں پر پنجے رکھ کر دیوانہ وار ٹوٹ پڑی۔ اس نے کوّے کو نہ اُٹھنے کا موقع دیااور نہ وہ اُڑ سکا۔ مرغی اسکے منہ پر مسلسل ٹھونگیں مارتی چلی گئیں۔ کوّے کا منہ اور آنکھیں لہولہان ہوگئیں۔ اس نے مرغی کے چنگل سے نکلنے کی بہت کوشش کی مگر مرغی نے اسے بالکل نہیں بخشا اور نوچ نوچ کر اس کا کام تمام کر دیا۔ مرغی کا یہ گھمسان دیکھ کر ماحول میں سناٹا چھا گیا تھا۔ دوسرے کوّے بھی خوف زدہ ہوگئے تھے اور بچے بھی اپنی ماں اور کوّے کی جنگ دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔ یہ شور سن کر جب رحمت خالہ گھر سے باہر آئیں تو انہیں آنگن میں مرا ہوا کوّا دکھائی دیا۔ کوّے کی درگت اور مرغی کے تیور دیکھ کر وہ سارا ماجرا سمجھ گئیں اور اپنی مرغی کو سر اٹھائے فاتحانہ انداز میں چوزوں کے درمیان کھڑی دیکھ کر ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
  اس واقعے کے بعد پھر کبھی کسی کوّے نے مرغی کے چوزوں پرحملہ کرنے کی ہمت نہیں کی!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK