Inquilab Logo Happiest Places to Work

سچائی کا انعام

Updated: May 10, 2025, 1:38 PM IST | Mumbai

ایک بادشاہ تھا۔ اُسے شعر و شاعری سے بڑی دلچسپی تھی۔ ایک دن اُس نے کچھ شاعروں کو بلایا اور انہیں اپنے درباریوں میں شامل کر لیا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ایک بادشاہ تھا۔ اُسے شعر و شاعری سے بڑی دلچسپی تھی۔ ایک دن اُس نے کچھ شاعروں کو بلایا اور انہیں اپنے درباریوں میں شامل کر لیا۔ ان کی تنخواہیں بھی مقرر کر دیں۔ کچھ ہی دنوں میں بادشاہ نے دیکھا کہ سبھی شاعر آپس میں لڑتے ہیں، ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جب دربار میں آتے ہیں تو خوشامدی بن جاتے ہیں اور انعام پانے کے لئے بادشاہ کی تعریف کرتے ہیں۔
 ان شاعروں میں ایک شاعر ایسا بھی تھا جو بادشاہ کے بلائے بغیر دربار میں نہیں جاتا تھا۔ وہ نہ بادشاہ کی خوشامد کرتا اور نہ اُس کی تعریف میں شعر پڑھتا۔ اس کا نام فیروز تھا۔ ایک دن بادشاہ نے دربار میں اعلان کیا کہ جو میری سچی تعریف کریگا، اُسے ایک ہیرا انعام میں دیا جائیگا۔ یہ سن کر سب شاعروں نے تیاریاں شروع کر دیں۔ خوب اچھے اچھے شہر کہے۔ ہر ایک یہ سوچ کر خوش تھا کہ ہیرا مجھے ہی انعام میں ملے گا۔
 ایک خاص دن بادشاہ نے سبھی شاعروں کو دربار میں بلایا اور کہا، ’’میری تعریف میں جس نے جو کچھ لکھا ہے، سنائے۔‘‘ ایک شاعر اُٹھا اور آگے بڑھ کر اُس نے اپنی نظم سنائی۔ درباریوں نے اُس کی بڑی تعریف کی۔ بادشاہ نے اُسے ایک ہیرا انعام میں دیا۔ ہیرا پا کر اسے بڑی خوشی ہوئی۔ وہ سلام کرکے بیٹھ گیا۔ اس کے بعد دوسرے شاعر نے اپنی نظم سنائی۔ درباریوں نے اُس کی بھی تعریف کی۔ بادشاہ نے اُسے بھی ایک ہیرا انعام میں دیا۔ وہ بھی خوش ہو کر سلام کرکے بیٹھ گیا۔ اس طرح سارے شاعروں نے اپنی اپنی نظمیں سنائیں اور انعام میں ہیرا پا کر باغ باغ ہوگئے۔
 فیروز اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ اُس نے کچھ نہیں سنایا۔ بادشاہ نے ناراض ہوکر کہا، ’’تم نے کیا لکھا ہے؟ سناؤ۔‘‘ فیروز نے کہا، ’’اگر بادشاہ سلامت میری جان بخش دیں تو سناؤں۔‘‘ بادشاہ نے فوراً کہا، ’’جاؤ، تمہاری جان بخش دی، اب سناؤ۔‘‘ فیروز نے کہا، ’’اے بادشاہ! آپ عالم اور عقلمند ہیں، شاعروں کی عزت کرتے ہیں لیکن گھوڑے اور گدھے کو ایک ہی اصطبل میں باندھتے ہیں۔‘‘ اس طرح اُس نے اپنی نظم میں بادشاہ کی بہت سی کمزوریاں گنا دیں۔ درباریوں کو بڑی حیرت ہوئی اور انہوں نے سوچا کہ بس اب فیروز کی خیر نہیں، یہ ضرور مارا جائے گا۔ مگر درباریوں کو اُس وقت اور حیرت ہوئی جب نظم سننے کے بعد بادشاہ نے فیروز کو بھی ایک ہیرا انعام میں دیا۔
 دربار ختم ہوتے ہی سبھی شاعر ہیرے کی قیمت معلوم کرنے کیلئے خوشی خوشی جوہری کے پاس گئے۔ وہ فیروز کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ جوہری نے ہیروں کو دیکھ کر بتایا کہ سب کے ہیرے نقلی ہیں، صرف فیروز کا ہیرا اصلی ہے۔ دوسرے دن بادشاہ نے پھر سبھی شاعروں کو دربار میں بلایا اور پوچھا، ’’انعام پا کر کون خوش ہے اور کون رنجیدہ؟‘‘ شاعروں نے شکایت کی کہ فیروز کے ہیرے کے سوا سارے ہیرے نقلی ہیں۔ بادشاہ نے مسکرا کر جواب دیا، ’’اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ جس نے جھوٹی تعریف کی، اُسے جھوٹا ہیرا ملا اور جس نے سچی بات کہی اُسے سچا ہیرا ملا۔‘‘ بادشاہ کا جواب سن کر سارے شاعر شرمندہ ہوگئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK