Inquilab Logo Happiest Places to Work

آلودگی کی کہانی

Updated: June 21, 2025, 1:20 PM IST | Muhammad Khalil | Mumbai

آج ہم سب لوگ بہت خوش تھےکیونکہ چچا جان بہت کہنے پر تاج محل دکھانے کے لئے لے جا رہے تھے۔ ہماری کار جیسے ہی آگرہ شہر کی گھنی آبادی میں داخل ہوئی سڑکوں پر بازار میں بھیڑ تو تھی لیکن موٹر گاڑیوں کے چاروں طرف گرد و غبار اور گاڑیوں کا دھواں پھیلا ہوا تھا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

آج ہم سب لوگ بہت خوش تھےکیونکہ چچا جان بہت کہنے پر تاج محل دکھانے کے لئے لے جا رہے تھے۔ ہماری کار جیسے ہی آگرہ شہر کی گھنی آبادی میں داخل ہوئی سڑکوں پر بازار میں بھیڑ تو تھی لیکن موٹر گاڑیوں کے چاروں طرف گرد و غبار اور گاڑیوں کا دھواں پھیلا ہوا تھا۔ پھر اچانک آندھی کے آجانے سے پورا ماحول گرد اور دھوئیں سے گھرا ہوا ہو گیا۔ چچا جان نے اپنی ناک پر فوراً رومال رکھا اور ہمیں بھی ناک بند کرنے کیلئے کہا۔ چچا جان بڑبڑائےکس قدر آلودگی (گندگی) ہے چلنا پھرنا مشکل ہوگیا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد ہم تاج محل پہنچ گئے اور اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر کھو سے گئے۔ شاکر نے خوشی کے انداز میں کہا تاج محل کتنا خوبصورت ہے۔ ہم سب نے ہاں میں ہاں ملائی واقعی بہت خوبصورت ہے۔ لیکن چچا جان نے جواب میں یہ کہہ کر سب کو خاموش کر دیا کہ پہلے تاج محل اس سے بھی زیادہ خوبصورت تھا لیکن آلودگی کی وجہ سے اس کی خوبصورتی کم ہوگئی ہے۔ ہم سب کو بےحد تعجب ہوا۔ جب ہی عادل نے سوال کیا آخر چچا جان آلودگی کیا ہوتی ہے؟ چچا جان حکمانہ انداز میں بولے پہلے تاج محل گھوم لو پھر بتاؤں گا۔ ہم سب دیر تک تاج محل کو دیکھتے رہے۔ واپسی سے پہلے چچا جان نے تاج محل کی سنگ مرمر کی چوکی پر بیٹھ کر سب کی تصویر کھینچی۔ ابھی ہم سب وہیں رکنا چاہتے تھے کیونکہ اب بھی تاج محل کی خوبصورتی کو اور دیکھنے کا جی چاہ رہا تھا۔ پھر ہم سب لوگ ایک کونے میں ہری گھاس پر بیٹھ گئے۔ جب ہی عادل نے آلودگی کے بارے میں پھر پوچھا۔ چچا جان نے بتانا شروع کیا۔ ’’آلودگی کا مطلب ہے ہماری زمین، آسمان اور ماحول میں نقصاندہ چیزوں کا جمع ہونا اور پھر کام والی چیزوں کا جو ہمارے لئے استعمال کی ہیں کم ہوجانا ہے۔ اس طرح آلودگی نے ہماری زندگی میں بہت سی پریشانیاں پیدا کردی ہیں۔‘‘
 پھر شاکر نے کہا ’’چچا جان آخر آلودگی کون پھیلاتا ہے؟‘‘ چچا جان نے زور دیتے ہوئے کہا، ’’اس آلودگی کو انسان ہی پھیلاتا ہے۔ اور وہی اس کا ذمہ دار ہے۔ قدرت کبھی آلودگی نہیں پھیلاتی۔ اگر تم غور کرو تو سمجھ جاؤ گے کہ قدرتی صاف ہوا کو دھوئیں اور زہریلی گیسوں سے ندیوں، جھیلوں اور سمندروں کو انسان نے ہی نقصان دہ رقیق (کیمیکلز) سے گندہ کر رکھا ہے۔ اس طرح ہماری زمین انہی چیزوں کے استعمال سے گندی ہوگئی ہے اور گندگی کا ڈھیر بن گئی ہے۔‘‘ بچے چچا جان کی بات بڑے غور سے سن رہے تھے۔ چچا جان نے پھر کہنا شروع کیا، ’’ویسے تو آلودگی کی کئی وجوہات ہیں لیکن خاص وجہ دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی ہے اور دوسری وجہ جو تم خود یہاں اپنے شہر میں دیکھ رہے ہو کارخانوں اور صنعتوں کا بڑی تعداد میں بڑھنا ہے۔ لوگوں کو بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے رہنے کے لئے مکان چاہئے اس کمی کو پورا کرنے میں وقت کے ساتھ بہت سارے جنگل کاٹنے سے ختم ہوگئے ہیں۔ جس کی وجہ سے درختوں اور پودوں کی تعداد تیزی کے ساتھ کم ہوتی چلی گئی جو ہمیں آکسیجن دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے ماحول صحیح بنائے رکھنا مشکل ہوگیا۔ جس سے توازن بگڑتا گیا۔ صنعتوں اور کارخانوں کی ترقی ضرور ہوئی جس سے ان کی تعداد زیادہ ہوگئی اس طرح پورے ماحول کا ڈھانچہ بگڑ گیا اور وہ پہلے جیسا باقی نہ رہ سکا۔ موٹر گاڑی کے دھوئیں سے بھی ہوا آلودگی سے دوچار ہوئی اس سے تم بھی واقف ہو۔ یہ اب عام سی بات ہے۔ جس کو آدمی اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ وہ سامنے دیکھو ایک کارخانے سے کتنا زیادہ دھواں باہر نکل رہا ہے پھر اس جیسے کتنے ہی کارخانے ہیں۔ اس کارخانوں سے گیسیں بھی نکلتی ہیں جو ہمارے ماحول کو آلودہ (گندہ) کرتی ہیں۔ اسی طرح چھپائی اور رنگائی کے کارخانوں سے نکلنے والی کیمیکلز (کیمیا) بھی پانی کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ وہ سامنے جمنا ندی کو دیکھو، اس کا پانی کتنا گندہ ہوگیا ہے اور یہ گندگی کارخانوں سے نکل کر ندی میں پہنچتی ہے۔ دوسری طرف گاڑیوں کا دھواں بھی ہوا میں پہنچ کر اس کو آلودہ کر رہا ہے۔ کارخانوں کے انجن، لاؤڈ اسپیکر، اسکوٹر اور کار جو بڑی تعداد میں ہیں شور سے آلودگی پیدا کرتے ہیں۔ کاروں سے نکلنے والے دھوئیں میں کئی طرح کی گیسیں جیسے کاربن مانو آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن اور شیشا وغیرہ ہیں ان میں کچھ گیسیں تو زہریلی ہوتی ہیں جو ہمارے ماحول پر خراب اثر ڈالتی ہیں۔‘‘
 اس دوران عادل نے کہا، ’’اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسان نے اپنی زندگی خود ہی مصیبت میں ڈال دی ہے۔‘‘ چچا جان ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہنے لگے، ’’آلودگی کو پھیلانا یا پھر بہتر کرنا صرف انسان کے ہاتھ میں ہی ہے، قدرت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔‘‘ شاکر جو بڑی خاموشی سے چچاجان کی کہانی سن رہا تھا بول پڑا، ’’واقعی چچاجان آلودگی سے بچنے کے لئے ہم سب کو کچھ نہ کچھ کرنے کے لئے سرگرم ہونا ہوگا۔‘‘ چچا جان بولے، ’’تم لوگ ٹھیک کہہ رہے ہو۔ اگر اس بڑھتی آلودگی کو وقت پر نہ روکا گیا تو یہ ہم سب کی صحت کے لئے نقصاندہ ثابت ہوگا۔‘‘ چچا جان نے جیسے ہی اپنی بات ختم کی ہم سب ان کا شکریہ کہتے ہوئے واپس ہونے کے لئے کھڑے ہوگئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK