• Sat, 08 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اُلٹـا نگـر

Updated: November 08, 2025, 3:33 PM IST | Jabbar Tauqeer | Mumbai

ایک تھا اُلٹا نگر۔ کہتے ہیں کہ یہاں کے رہنے والوں کی ہر بات اُلٹی تھی۔ وہ بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے، بائیں طرف چلتے اور ہمیشہ بائیں کروٹ سوتے تھے۔ وہ لیٹ کر کھانا کھاتے اور بیٹھ کر سوتے تھے۔ لحاف بچھاتے اور گدّے اوڑھے تھے۔ مُنہ پہلے دھوتے اور ہاتھ بعد میں، روٹی پہلے کھاتے اور سالن بعد میں۔ 

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ایک تھا اُلٹا نگر۔ کہتے ہیں کہ یہاں کے رہنے والوں کی ہر بات اُلٹی تھی۔ وہ بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے، بائیں طرف چلتے اور ہمیشہ بائیں کروٹ سوتے تھے۔ وہ لیٹ کر کھانا کھاتے اور بیٹھ کر سوتے تھے۔ لحاف بچھاتے اور گدّے اوڑھے تھے۔ مُنہ پہلے دھوتے اور ہاتھ بعد میں، روٹی پہلے کھاتے اور سالن بعد میں۔ 
درزی اُلٹے کپڑے سیتے تھے۔ ہر شخص جُوتے خریدنا ضروری سمجھتا تھا مگر جب چلتا تو جُوتوں کو سر پر رکھ لیتا۔ حکیم زکام کے مریض کو قبض کی دَوا دیتے اور قبض کے مریض کو ایسی دَوا دیتے کہ اُسے زکام ہو جاتا۔ اگر اُنہیں کہیں جلدی جانا ہوتا تو بہت آہستہ چلتے اور جہاں جلدی نہ پہنچنا ہوتا وہاں اِتنی تیزی سے جاتے جیسے کہیں آگ لگی ہو۔ کسی کا بیاہ ہوتا تو سب مل کر اِس طرح روتے کہ دِل سہم جاتا اور جب کوئی مر جاتا تو اِتنا ہنستے اِتنا ہنستے کہ پیٹ میں بل پڑ جاتے۔ بچّے سارا دِن گلیوں میں آوارہ پھرتے رہتے اور بوڑھے پڑھنے کے لئے بلا ناغہ سکول جاتے تھے۔ 
غرض کہ اس شہر کا باوا آدم ہی نرالا تھا۔ لیکن اپنی اُلٹی پُلٹی باتوں کے باوجود بھی اُلٹے نگر کے لوگ بڑے سُکھ چین سے رہتے تھے۔ ان کے ہاں کبھی کوئی جھگڑا نہ ہوا تھا۔ کوتوالی کے سپاہی سارا دِن لمبی تان کر سوئے رہتے۔  
اُلٹے نگر میں کوئی اجنبی آتا تو ہر شخص اسے اپنے ہاں ٹھہرانے کی کوشش کرتا۔ اگر وُہ شخص کسی کے ہاں مہمان ٹھہرنا پسند نہ کرتا تو وہ اُسے غلط راستہ بتا دیتے اور وہ اجنبی سارے شہر میں پاگلوں کی طرح گھومتا پھرتا۔ 
اس شہر کی اُلٹی پُلٹی باتوں کی خبر بادشاہ کے کانوں تک پہنچیں تو اُسے بڑا غصّہ آیا۔ اس نے اپنے ایک وزیر کو حکم دیا کہ فوراً اُلٹا نگر جاؤ اور وہاں کے لوگوں کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو۔ وزیر دوسرے ہی دِن آٹھ دس افسروں کو لے کر اُلٹا نگر جا پہنچا۔ 
”خُدا ہی بہتر جانے یہ کس قسم کا شہر ہے۔ مجھے تو اِن لوگوں سے خوف آتا ہے۔“ وزیر نے اسٹیشن سے باہر نِکل کر چاروں طرف نگاہ دوڑا کر کہا۔ 
ایک سڑک پر بورڈ لگا تھا۔ ”یہ سڑک جنوب کی طرف جاتی ہے۔“  وزیر بولا۔ ”لا حول ولا قوۃ! ارے یہ حماقت تو دیکھو ذرا۔ صاف ظاہر ہے کہ اس طرف مغرب ہے۔ مگر اِن احمقوں نے اُلٹا بورڈ لگا رکھا ہے۔“ 
”جناب! یہ اُلٹا نگر یوں ہی تو مشہور نہیں ہو گیا۔“ ایک افسر نے کہا۔ 
وُہ آگے بڑھے تو ایک آدمی ملا۔ وزیر نے اُس سے کہا۔ ”بھئی! ہمیں کوتوالی جانا ہے۔ کون سا راستہ جاتا ہے اُدھر؟“ 
”کوتوالی جانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ میرے گھر مہمان کیوں نہیں رہ جاتے؟“ اُس نے جواب دیا۔  اِتنے میں اور بھی بہت سے لوگ اکٹھّے ہو گئے اور ہر شخص اصرار کر رہا تھا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہریں مگر جب وہ نہیں مانے تو انہوں نے کہا:
 ”اچھا! آپ کی مرضی! ایسا کیجئے کہ ناک کی سیدھ میں چلے جائیے۔ تھوڑے ہی فاصلے پر کوتوالی ہے۔“ 
وہ ان کا شکریہ ادا کر کے اُن کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے لگے۔ جب وہ سڑک کے آخر میں پُہنچے تو اُنہیں بھنگیوں کے گھر نظر آئے۔ 
”لا حول و لا قوۃ! بھئی یہ لوگ تو اوّل درجے کے شیطان ہیں۔ لو ہمیں بھنگیوں کے گھر بھیج دیا ہے۔ حد ہو گئی۔“ وزیر نے غصّے سے کہا۔ 
وہ لوگ سارا دِن شہر میں مارے مارے پھرے اور کہیں شام کے وقت بڑی مشکلوں سے کوتوالی پہنچے۔ یہ لوگ کئی دِن تک وہاں بیٹھے سر پٹختے رہے مگر اُلٹے نگر کے لوگوں نے اُن کی ایک نہ سُنی۔ ان کی ہر بات کا اُنہوں نے مذاق اُڑایا۔ اُن کے بنائے ہوئے کسی قانون کو اُنہوں نے نہیں مانا۔ ان کی تدبیریں سب اکارت گئیں۔ 
”ہم کس پاگل خانے میں آ گئے ہیں۔ اِن لوگوں کو تو گولی مار دینی چاہئے۔ ان کی کوئی بھی تو کل سیدھی نہیں ہے۔“ ایک افسر نے تنگ آ کر کہا۔ 
”چند دن اور کوشش کرتے ہیں۔ شاید یہ لوگ سیدھی راہ پر آ جائیں۔“ وزیر بولا۔ 
ایک دن دو ڈاکو سرکاری خزانہ لوٹ کر اُلٹا نگر چلے آئے۔ اُن کا خیال تھا کہ اس شہر کے لوگ بے وقوف ہیں اِس لئے وہ یہاں آرام سے بیٹھ کر مَوج اڑائیں گے۔ جونہی یہ شامت کے مارے اُلٹے نگر میں داخل ہوئے، لوگوں نے اُنہیں گھیر لیا اور ہر شخص اُنہیں اپنے ہاں مہمان ٹھہرانے کے لئے اِصرار کرنے لگا۔ 
”اجی صاحب! آپ میرے غریب خانے پر چلئے۔“ ایک شخص نے کہا۔ چُپ رہو تم اتنے بڑے آدمیوں کی میزبانی کے اہل نہیں ہو۔ حضور! آپ بندے کے گھر چلئے۔ وہاں آپ کو ہر طرح کا آرام ملے گا۔“ دوسرے نے کہا۔ 
”تم کیا کرایہ لو گے؟“ ایک ڈاکو نے پوچھا۔ 
”آپ ہماری توہین کر رہے ہیں صاحب۔ ہم مہمانوں سے کرایہ نہیں لیا کرتے۔“ اس آدمی نے کہا۔ 
”پھر تو بہت اچھّی بات ہے۔ ہم تمہارے ہی گھر چلیں گے۔“ ڈاکوؤں نے کہا۔ 
”نہیں نہیں۔ میں اتنی دُور سے آپ کے پیچھے آیا ہوں۔ آپ کو میرے گھر چلنا ہو گا۔“ ایک اور آدمی نے کہا۔ 
”بکواس بند کرو۔ یہ میرے مہمان ہیں۔ میں ان کے لئے درجنوں مُرغے ذبح کروا سکتا ہوں۔“ ایک دوسرے آدمی نے کہا اور دونوں ڈاکوؤں کو پکڑ کر اپنے گھر کی طرف گھسیٹنے لگا۔ 
جب دُوسروں نے دیکھا کہ یہ تو اُنہیں ہانک لے چلا ہے تو اُنہوں نے دوسروں کو بازوؤں اور ٹانگوں سے پکڑ کر اپنے اپنے گھر کی طرف گھسیٹنا شروع کر دیا۔ اس کھینچا تانی میں ڈاکوؤں کے کپڑے تار تار ہو گئے۔ 
اِتفاق سے کوتوال کا اُس طرف سے گزر ہوا۔ اس نے مجمع لگا دیکھا تو آگے آیا اور بڑی مُشکل سے ڈاکوؤں کو لوگوں کے پنجے سے چھڑایا۔ 
”کیا بات ہے۔ تُم اِنہیں کیوں مار رہے ہو؟“ کوتوال نے پُوچھا۔ 
”مار کون رہا ہے جناب! ہم تو اِنہیں اپنے ہاں مہمان ٹھہرانا چاہتے ہیں۔“ لوگوں نے کہا۔ 
”اوہو! تو یہ جھگڑا ہے۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ اِن دونوں کو میں اپنے ہاں مہمان رکھوں گا۔ تم سب اپنی اپنی راہ لگو۔“ کوتوال نے بڑے رُعب سے اُنہیں حُکم دیا اور خود اُن دونوں کو اپنے گھر لے آیا۔ لوگوں سے جب کُچھ اور نہ بن پڑا تو اُنہوں نے ڈاکوؤں کی موٹر کو خوب صاف کیا اور اُس کا پٹرول نکال کر اُس میں دُودھ بھر دیا۔ 
دوسرے دِن صبح کو ریڈیو پر سرکاری خزانہ لوٹے جانے کی خبر سنائی گئی اور ڈاکوؤں کا حُلیہ بھی بتایا گیا۔ اُلٹا نگر کے لوگوں نے چوروں کے حلیے پر غور کیا تو اُنہیں یقین ہو گیا کہ کوتوال کے مہمان ہی وہ ڈاکو ہیں۔ وُہ غصّے سے لال پیلے ہو کر کوتوال کے گھر کی طرف چلے۔ 
”میرے دروازے کے سامنے کیوں بھیڑ لگا رکھی ہے تم لوگوں  نے؟“ کوتوال نے دروازہ کھول کر پُوچھا۔ 
”جناب! آپ کے دونوں مہمان ڈاکو ہیں۔ سرکاری خزانہ لُوٹ کر یہاں لائے ہیں۔“ لوگوں نے کہا۔ 
”ایں! واقعی؟“ کوتوال نے حیران ہو کر کہا اور چوروں کو پکڑنے کے لئے اندر بھاگا مگر چور پہلے ہی پچھلے دروازے سے رفو چکر ہو چُکے تھے۔ 
”پکڑو پکڑو۔ جانے نہ پائیں۔ ابھی یہیں کہیں ہوں گے۔“ کوتوال نے کہا۔ 
لوگ بھاگتے ہوئے چوک میں پہنچے۔ یہاں ڈاکوؤں کی کار کھڑی تھی اور وہ کار میں بیٹھے انجن سٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر کار میں پڑول کی جگہ دُودھ بھرا ہوا تھا۔ وہ چلتی کیسے۔ ڈاکو لوگوں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر موٹر چھوڑ چھاڑ سر پٹ بھاگے مگر چند ہی منٹوں میں گرفتار کر لئے گئے۔ جب لوگ ڈاکوؤں کو لے کر کوتوالی پہنچے تو وزیر اپنے بنائے ہوئے قانون کوتوال کو سمجھا رہا تھا۔ 
”جناب! ہمیں آپ کے قانون کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم اپنے چوروں کو خود پکڑ سکتے ہیں۔“ ایک شخص نے کہا۔ 
”بھئی! تم اپنی اُلٹی پلٹی حرکتوں سے اپنا کام نکال ہی لیتے ہو۔“ وزیر نے ہنس کر کہا۔ 
”میرا خیال ہے کہ اُنہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔“ ایک افسر بولا ”یہ جانیں اور ان کا کام۔ اگر ہم کچھ دن اور یہاں رہے تو ہم بھی ان کی طرح اُلٹے پلٹے ہو جائیں گے۔“ اور وہ سب اُسی دن اُلٹا نگر سے چلے گئے۔
(مآخذ:  بہترین کہانیاں۔۱۹۷۶ء)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK