Inquilab Logo

ایک طبع زاد کہانی: نشوبا اور چاند

Updated: April 20, 2024, 3:48 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

ایک طبع زاد اور غیر مطبوعہ کہانی: سمندر کا پانی نمکین کیوں ہے؟ چاند مکمل ہوتا ہے تو سمندر کی لہریں زیادہ طاقت سے کیوں اٹھتی ہیں؟ بھیڑیا پونم کی رات چاند کو دیکھ کر بلند آواز میں درد سے کیوں چیختا ہے؟

Photo: INN
تصویر : آئی این این

وہ انتہائی خوبصورت تھا۔ جہاں سے گزرتا، پرندے اور جانور اچانک خاموش ہوجاتے اور اسے دیکھنے لگتے۔ مور ہو، شیر ہو، یا کوئی اور جانور یا پرندہ، سبھی کی خوبصورتی اس کے آگے پھیکی معلوم ہوتی۔ پیڑ پودے، دریا تالاب بھی اس کے حسن کے گرویدہ تھے۔ درخت چاہتے کہ وہ صرف ان کی چھاؤں میں آرام کرے، چٹانوں کی خواہش ہوتی کہ وہ ان پر بسیرا کرے، اور دریا اور تالاب چاہتے تھے کہ وہ صرف ان کا پانی پئے۔ بھوک کی شدت سے اگر وہ کسی جانور پر چھلانگ لگاتا تو وہ بغیر مزاحمت کئے اپنی جان اس کے نام کردیتا تھا۔ قربان ہونے والے جانور کے نزدیک یہ سعادت کی بات تھی کہ وہ جنگل کی سب سے خوبصورت اور طاقتور مخلوق کی غذا بن رہا ہے۔ 
اسے اپنی طاقت اور خوبصورتی کا اندازہ تھا اس لئے ہمہ وقت فخریہ اپنا سر بلند رکھتا تھا۔ من موجی تھا، جب جی میں آتا کسی پر رحم کرتا، جب جی چاہتا چیر پھاڑ کر رکھ دیتا۔ اپنی لمبی دُم ہلاتا ہوا جب شکاریوں کے سامنے آتا تو وہ گھبرا کر وہاں سے بھاگ جاتے۔ اس کے سفید بال چاند سے زیادہ روشن محسوس ہوتے۔ چمکتی آنکھیں جس پر پڑتیں، وہ معمول بن جاتا۔ جب چٹانوں پر چھلانگیں لگاتا تو سبھی کی نگاہیں اس پر مرکوز ہوتیں۔ قبیلے کے دیگر جانور اس کا مقابلہ کرنے سے کتراتے تھے۔ سارے جنگل میں کسی بادشاہ کی طرح گھومتا تھا۔ بادشاہت شیر کی تھی مگر راج اُس کا تھا۔ 
وہ بھیڑیا تھا۔ انتہائی خونخوار، خوبصورت اور طاقتور۔ ماں باپ نے اسے نازوں سے پالا تھا۔ جب وہ چھوٹا تھا، تب کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ بڑا ہونے کے بعد وہ اس قدر خطرناک ہوجائے گا کہ جنگل کا بادشاہ بھی اس سے دشمنی مول لینے سے گھبرائے گا۔ اس نے کئی مرتبہ جنگل کو بیرونی حملوں سے بچایا تھا۔ جنگل کی مخلوقات کے دلوں میں اس کیلئے حسد سے زیادہ رشک تھا کہ کاش! وہ اس جیسا بن سکتے۔ 
اس بھیڑیئے کا نام ’’نشوبا‘‘ تھا۔ اس کے ماں باپ دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ بہن بھائی تھے نہیں۔ اپنی علاحدہ کچھار میں تنہا رہتا تھا جو قدرے الگ تھلگ مقام پر تھی۔ ایک مرتبہ رات کے کھانے کے بعد وہ پرندوں کے پروں سے بنے نرم اور مخملی بستر پر لیٹا تھا کہ اس کی نظر چاند پر پڑی جو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سیاہ آسمان پر چمک رہا تھا۔ اپنی خوبصورتی کے زعم میں نشوبا نے کبھی کسی دوسری خوبصورت چیز کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ اس نے ہمیشہ دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھا تھا۔ مگر آج جب چاند پر اس کی نظر پڑی تو وہ مبہوت رہ گیا۔ نشوبا کو پہلی بار احساس ہوا کہ اس نے اپنے سے زیادہ خوبصورت کوئی شے دیکھی ہے۔ وہ چاند کو جتنا تکتا، وہ اسے اتنا زیادہ پرکشش محسوس ہوتا۔ چاند کو دیکھتے دیکھتے کب صبح ہوئی، اسے سمجھ ہی نہیں آیا۔ 

سورج کی روشنی میں جب چاند غائب ہوگیا تو نشوبا مضطرب ہوگیا۔ سارا دن اسی ادھیڑ بن میں گزرا کہ چاند یوں غائب کیسے ہوگیا۔ رات ہوئی، چاند پھر نکل آیا اور نشوبا کے بے چین دل کو جیسے قرار آگیا۔ سارے کام نمٹانے کے بعد وہ بستر پر لیٹ کر چاند دیکھنے لگا۔ اس کی خوبصورتی کو اپنی آنکھوں میں جذب کرنے لگا۔ اب اس کا معمول بن گیا تھا۔ دن بھر سارے کام جلدی جلدی نمٹاتا اور سورج ڈھلتے ہی اپنی کچھار کے دہانے پر بیٹھ کر چاند کو دیکھنے لگتا۔ اسے احساس ہورہا تھا کہ چاند آہستہ آہستہ ختم ہورہا ہے، پہلے دن کی طرح مکمل طور پر گول نہیں ہے۔ مضطرب بھی تھا کہ نجانے کیا ہورہا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جب چاند غائب ہوگیا۔ اماوس کی رات تھی۔ کچھار کے دہانے پر نشوبا دیوانہ وار چکر لگا رہا تھا۔ وہ خدا کے حضور جھک کر چاند نکلنے کی دعائیں مانگنے لگا مگر چاند نہیں نکلا۔ جنگل میں یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ نشوبا رات بھر چاند کو دیکھتا رہتا ہے۔ وہ اب پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ اپنے آپ میں مگن رہتا۔ اتنا رحمدل ہوگیا تھا کہ صرف ضرورت پڑنے ہی پر شکار کرتا تھا۔ اب اسے خود کا ہوش نہ رہا تھا۔ ہر وقت یہی سوچتا کہ چاند نکلے تو وہ اسے دیکھے۔ چاند سے اس کی محبت گہری ہوتی جارہی تھی۔ اماوس کی رات جب چاند نہیں نکلا تو نشوبا اگلے دن سارے جنگل میں پریشان پریشان سا پھرتا رہا۔ اسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آرہا تھا۔ کئی جانوروں کے شکار کر ڈالے اور درختوں کے پتے نوچ لئے۔ وہ غراتا پھر رہا تھا۔ سبھی گھبرا گئے کہ نشوباکو کیا ہوگیا۔ 
سورج ڈھلتے ہی نشوبا کچھار کے پاس آگیا مگر چاند آج بھی نہیں نکلا۔ پوری رات گزر گئی۔ طلوع آفتاب کے وقت وہ مایوسی اور غصے کے عالم میں کچھ کرنا ہی چاہتا تھا کہ ایک بوڑھا بھیڑیا اس کے پاس آکر کہنے لگا، ’’بیٹا! ہم جانتے ہیں کہ تم چاند کیلئے بے تاب ہو۔ ایک کام کرو تم جنگل کے سب سے اونچے پہاڑ پر جاکر دیکھو۔ شاید وہاں سے تمہیں چاند نظر آجائے۔ ‘‘ بوڑھے بھیڑیئے کی بات نشوبا کو سمجھ میں آگئی لہٰذا اس نے جنگل کے بلند ترین پہاڑ پر جانے کا منصوبہ بنایا۔ وہاں تک ایک دن میں پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ اور دوسرے حصے میں خونخوار جانوروں اور بھالوؤں کی بڑی تعداد تھی۔ تاہم، نشوبا کو اپنی طاقت بھروسہ تھا لہٰذا وہ سفر کیلئے نکل کھڑا ہوا۔ 

یہ بھی پڑھئے: عظیم فنکار (ایک طبع زاد کہانی)

جنگل کے دوسرے حصے میں ایک خونخوار پہاڑی شیر کی حکمرانی تھی۔ اس کی سرحد میں قدم رکھتے ہی نشوبا کو ایک لومڑی نظر آئی جو کافی لاغر اور کمزور تھی۔ سامنے بیٹھے شکار پر حملہ کرنے سے بھی قاصر تھی۔ نشوبا کو اس پر رحم آگیا۔ اس نے ایک جھٹکے میں شکار مار گرایا اور اسے لومڑی کے سامنے رکھ دیا۔ لومڑی نے تشکر بھری نگاہوں سے اسے دیکھا اور کھانے میں مصروف ہوگئی۔ نشوبا تھوڑی ہی آگے گیا ہوگا کہ پیچھے سے لومڑی کی آواز آئی۔ 
’’جنگل کے اس حصے سے زندہ باہر نکلنے کیلئے تمہیں میری ضرورت پڑیگی۔ ‘‘ لومڑی نے عیاری سے کہا۔ نشوبا نے سوچا کہ وہ اس جگہ نیا ہے اسلئے دوستی کرلینا دانشمندی ہوگی۔ اس نے لومڑی کو ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔ لومڑی عیار تھی۔ محنت کرکے کھانا نہیں چاہتی تھی۔ کچھ عرصہ قبل اس جنگل کی وزیر اعظم تھی لیکن کسی وجہ سے پہاڑی شیر اس سے ناراض ہوگیا تھا اور اسے جنگل سے نکال دیا تھا۔ تب سے وہ سرحدوں پر رہ رہی تھی۔ اس کیلئے موقع اچھا تھا کہ پڑوس والے جنگل کے سب سے مشہور بھیڑیئے کو راجہ کے سامنے پیش کر دیا جائے اور وزیر اعظم کا عہدہ پھر سے حاصل کرلیا جائے۔ وہ خوشی خوشی نشوبا کے ساتھ چلنے لگی۔ باتوں باتوں میں یہ بھی پوچھ لیا کہ وہ جنگل کے اس حصے میں کیوں آیا ہے۔ جب نشوبا نے اسے مقصد بتایا تو وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی کہ چاند کی محبت میں گرفتار یہ خوبصورت اور طاقتور بھیڑیا اپنی جان کی پروا کئے بغیر یہاں آگیا۔ 
کچھ دن سفر میں گزرگئے۔ ابھی سب سے اونچے پہاڑ پر پہنچنے میں چند دن اور درکار تھے۔ لومڑی اور نشوبا جنگل کے سب سے گھنے حصے میں تھے۔ یہاں سے آسمان نظر نہیں آتا تھا۔ نشوبا شکار کرتا اور لومڑی مفت شکار اڑاتی۔ اس کی زندگی آرام سے بسر ہورہی تھی۔ ’’نشوبا! تمہیں ایک بات بتانا چاہتی ہوں۔ ‘‘ ایک صبح لومڑی نے اداس نشوبا کو دیکھتے ہوئے کہا۔ نشوبا کا مثبت اشارہ ملنے کے بعد لومڑی نے اسے ایک کہانی سنائی:
ہزاروں برسوں پہلے جب کرۂ ارض پر صرف پانی ہی پانی تھا، خدا نے چاند اور سورج نیز کائنات کی دیگر چیزیں تخلیق کیں۔ سورج اور چاند کی تخلیق کے بعد کائنات روشن ہوگئی۔ جب چاند کو کرہ ارض کیلئے مختص کیا گیا تو اس نے پہلی بار زمین کی طرف دیکھا۔ ہر طرف ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ صرف پانی ہی پانی۔ سیاہ آسمان میں موجود سفید چاند کی آنکھوں کو نیلی دنیا بڑی دلفریب لگی۔ اسی طرح سمندر کی لہریں ہمہ وقت سورج اور چاند کو دیکھتی رہتی تھیں۔ سورج سے انہیں ڈر لگتا تھا کیونکہ اپنی تپش سے وہ انہیں آبی بخارات میں تبدیل کرکے اپنی جانب کھینچ لیتا تھا۔ اس لئے دن میں لہریں اس کے غضب سے بچنے کی کوشش کرتی تھیں۔ تاہم، انہیں چاند بہت پسند تھا۔ وہ اپنی ٹھنڈی ٹھنڈی کرنوں سے انہیں راحت بخشتا تھا اس لئے لہریں رات بھر اس کی کرنوں اور چاندنی سے کھیلا کرتی تھیں۔ سرور کی کیفیت میں لہریں اٹھتی تھیں۔ چاند بھی جب ہزاروں میل کے فاصلے سے لہروں کو یوں کھیلتا دیکھتا تو اسے بھی لطف آتا۔ یوں کئی صدیاں گزر گئیں۔ سمندر کی لہریں اور چاند ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے۔ سورج کے جاتے ہی چاند اپنی کرنیں لہروں پر ڈالتا اور وہ خوشی سے رقص میں مصروف ہوجاتیں۔ سورج کو ان کی دوستی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی چنانچہ اس نے ایک خطرناک منصوبہ بنایا۔ 

یہ بھی پڑھئے: عظیم تباہی (ایک طبع زاد کہانی)

ایک صبح لہروں نے ضرورت سے زیادہ حدت محسوس کی، جب غور کیا تو انہیں احساس ہوا کہ سورج ہر دن سے زیادہ گرم ہے اور انہیں تیزی سے اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔ وہ بھاپ بن کر اس کی طرف جارہی تھیں۔ سمندر میں بھونچال آگیا، لہریں یہاں وہاں بھاگنے لگیں، دعا کرنے لگیں کہ جلد ہی چاند نکل آئے اور سورج سے انہیں چھٹکارا ملے۔ خدا خدا کرکے سورج کا قہر ختم ہوا اور سیاہ آسمان پر سفید چاند نکل آیا۔ لہروں نے راحت کا سانس لیا مگر ان کے آنسوؤں نے سمندر کے پانی کو نمکین کردیا تھا۔ چاند نے جب لہروں کی یہ حالت دیکھی تو تڑپ اٹھا۔ وہ سورج جتنا طاقتور نہیں تھا مگر آج اس نے تہیہ کرلیا کہ انہیں سورج سے بچانے کیلئے پوری طاقت لگا دے گا۔ لہریں چاہتی تھیں کہ وہ چاند پر چلی جائیں تاکہ انہیں سورج میں بھاپ نہ بننا پڑے۔ چاند نے اپنی پوری طاقت لگادی اور انہیں اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کرنے لگا۔ دوسری طرف لہریں بھی پوری طاقت سے چھلانگ لگا رہی تھیں تاکہ چاند پر پہنچ سکیں۔ اب حال یہ تھا کہ سمندروں میں طغیانی آئی ہوئی تھی۔ لہریں پوری طاقت سے اوپر اٹھتیں جبکہ چاند اپنی کشش سے انہیں کھینچنے کی کوشش کرتا۔ جب خدا نے لہروں اور چاند کا یہ حال دیکھا تو فرشتوں کو حکم دیا کہ سمندر کو پرسکون کرنے کیلئے کرہ ارض پر زمین بچھادی جائے، اس طرح زمین بچھائی گئی تاکہ سمندر کی طاقت کو کم کیا جاسکے۔ چاند کو کرہ ارض سے ہزاروں میل مزید دور کردیا گیا تاکہ وہ اپنی کشش سے لہروں کو اپنی جانب نہ کھینچ لے۔ سورج کو اپنی تپش کم کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس طرح لہریں اور چاند تو پرسکون ہوگئے مگر آج بھی جب چاند مکمل ہوتا ہے تو لہروں کو اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ لہریں دیوانہ وار اٹھتی ہیں اور ساحلوں پر اپنا سر پٹخ کر رہ جاتی ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے مل نہیں پاتے لیکن پانے کی کوششیں ضرور کرتے ہیں۔ 
لومڑی نے کہانی ختم کی تو نشوبا نے پوچھا ’’تم نے مجھے یہ کہانی کیوں سنائی؟‘‘
’’اس لئے کہ تم اپنا وقت ضائع نہ کرو۔ تمہیں چاند سے محبت ہے مگر چاند کو لہروں سے محبت ہے۔ وہ تمہاری محبت کبھی قبول نہیں کرے گا۔ ‘‘ آج نجانے لومڑی کے عیاری کے جذبات کیونکر غائب ہوگئے تھے۔ 
’’اس بارے میں مَیں نے چاند سے اب تک بات نہیں کی ہے۔ وہ یقیناً مجھے ہی دیکھتا ہے۔ مَیں سب سے اونچے پہاڑ پر پہنچ کر اس سے بات کروں گا۔ وہ میری محبت ضرور قبول کرے گا۔ ‘‘ نشوبا پُرعزم تھا۔ 
دوسرے دن نشوبا سو کر اٹھا تو لومڑی نہیں تھی۔ اسے لگا لومڑی نے ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اب تک نشوبا پر کوئی حملہ نہیں ہوا تھا اس لئے وہ بے فکر تھا۔ وہ شام تک بلند و بالا پہاڑ کے قریب پہنچ گیا۔ سورج غروب ہونے والا تھا۔ اس نے سوچا یہ فاصلہ ابھی طے کرلیا جائے تو اچھا ہے، رات ہونے کو ہے، چاند سے ملاقات بھی ہوجائے گی اور اس سے حالِ دل بھی بیان کردوں گا۔ 
ابھی چند کلومیٹر کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ سامنے جنگل کا راجہ ...... یعنی پہاڑی شیر، بھالوؤں کی فوج اور عیار لومڑی راہ میں حائل نظر آئے۔ نشوبا کی بھنویں اور جسم کمان کی طرح تن گیا۔ تبھی اسے پیچھے آہٹ سنائی دی۔ پلٹ کر دیکھا تو پیچھے لکڑ بگھوں کی فوج نظر آئی۔ اسے چاروں طرف سے گھیر لیا گیا تھا۔ تبھی نشوبا کی نظر سیاہ آسمان پر پڑی۔ تاروں کے جھرمٹ میں مکمل چاند آسمان پر چمک رہا تھا۔ کئی دنوں بعد اس نے چاند کو دیکھا تھا جو پہلے سے زیادہ حسین نظر آرہا تھا۔ اس تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ تھا کہ ان جانوروں سے جنگ کی جائے لہٰذا وہ تیار ہوگیا۔ اس نے غراتے ہوئے پہاڑی شیر پر چھلانگ لگادی اور اسے رگیدتا ہوا دور تک لے گیا۔ تبھی اس پر بھالو پل پڑے۔ وہ تیزی سے پینترے بدل کر سبھی جانوروں کا مردانہ وار مقابلہ کررہا تھا۔ آج نشوبا پہلے سے زیادہ طاقتور اور بہادر نظر آرہا تھا۔ بھالوؤں کو پہاڑ سے نیچے دھکیل رہا تھا اور پہاڑی شیر پر جھپٹ جھپٹ کر حملے کررہا تھا۔ لومڑی کونے میں کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی۔ 

یہ بھی پڑھئے: یونانی موسیقار (ایک طبع زاد کہانی)

پھر ایک وقت ایسا آیا کہ نشوبا کمزور پڑنے لگا۔ وہ تھک گیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جنگل کے سارے جانور آج اسے ختم کرنے کیلئے جمع ہوگئے ہیں۔ ان کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ اسے یقین ہوگیا کہ وہ آج زندہ نہیں بچ سکے گا۔ لہٰذا اس نے چاند کی طرف دوڑ لگانے کا فیصلہ کیا، اور پہاڑی شیر پر ایک آخری حملہ کیا۔ شیر اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور پہاڑ سے نیچے لڑھک گیا۔ راستہ صاف ہوگیا۔ سارے جانور پیچھے تھے۔ نشوبا پوری رفتار سے دوڑنے لگا کہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جائے۔ تبھی اس کی نظر عیار لومڑی پر پڑی۔ نشوبا اس قدر غصے میں تھا کہ اس نے اپنے دائیں پنجے سے لومڑی کی گردن دبوچ لی اور اسے گھسیٹتا ہوا چوٹی کی جانب بڑھنے لگا۔ نشوبا کے خون کے پیاسے جانور اس کے پیچھے دوڑ لگا رہے تھے۔ نشوبا کے خوبصورت سفید بال خون اور مٹی میں اَٹے تھے۔ اس کے جسم پر درجنوں گہرے زخم تھے۔ اس کی ہمت جواب دے رہی تھی۔ مگر چاند تک پہنچنے کا عزم اسے رواں دواں رکھے ہوئے تھا۔ اور پھر وہ چوٹی پر پہنچ گیا۔ اگر ایک قدم بھی آگے بڑھاتا تو نیچے گرجاتا۔ وہ پہاڑ کے سب سے بلند مقام پر تھا۔ 
’’دیکھو! آج مکمل چاند ہے، جو صرف میرے لئے نکلا ہے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ہزاروں فٹ بلند چوٹی سے لومڑی کو نیچے پھینک دیا۔ سامنے سمندر تھا جس کی لہریں پوری طاقت سے اٹھ رہی تھیں، جیسے چاند تک پہنچنے کی کوشش کررہی ہوں مگر ساحل پر سر پٹخ کر لوٹ جاتیں۔ نشوبا نے سوچا کہ شاید لومڑی صحیح تھی کہ چاند لہروں سے محبت کرتا ہے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھا تو خونخوار جانور تیزی سے اس کی جانب آرہے تھے۔ 
نشوبا تھک گیا تھا۔ اس کا بدن زخموں سے چور تھا۔ اب اس کیلئے بچنا ممکن نہیں تھا لہٰذا اس نے اپنی پوری طاقت یکجا کی، چاند کی طرف محبت بھری نگاہ ڈالی، اپنی گردن اونچی کی اور اس کی حلق سے درد میں ڈوبی فلک شگاف چیخ بلند ہوئی۔ درد میں ڈوبی یہ چیخ اس قدر تیز تھی کہ جنگل کے دوسرے حصے تک سنی گئی۔ پیچھے آنے والے جانور اچانک اپنی جگہ پر جم گئے۔ اور پھر ان سبھی نے دیکھا کہ نشوبا اپنی جگہ پر بیٹھ گیا ہے اور اس کی گردن چاند کی جانب ڈھلک گئی ہے۔ پھر اس کی چمکتی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہوگئیں۔ چاند کی کرنیں، زخموں سے بھرے اس کے خوبصورت اور مضبوط جسم کو سہلا رہی تھیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK