• Fri, 12 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: ہینسل اور گریٹل

Updated: December 12, 2025, 4:42 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

جرمنی کے معروف ادیب ’’بردرز گریم‘‘ (ولہیم گریم اور جیکب گریم) کی شہرہ آفاق کہانی ’’ہینسل اینڈ گریٹل‘‘ Hansel and Gretelکا اردو ترجمہ

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ایک چھوٹے سے گاؤں میں، جہاں موسم کبھی خوشگوار تو کبھی بے حد سخت ہو جاتا تھا، ایک غریب لکڑہارا اپنی بوسیدہ جھوپڑی میں رہتا تھا۔ اس کا گھر ٹوٹی پھوٹی کھڑکیوں، کچی دیواروں اور گھاس پھونس کی چھت کے سہارے کھڑا تھا۔ اسی جھوپڑی میں وہ اپنی دوسری بیوی اور دو بچوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا تھا۔ بڑے بیٹے کا نام ہینسل اور چھوٹی بیٹی کا نام گریٹل تھا۔ یہ دونوں اس کی پہلی بیوی سے پیدا ہوئے تھے، جو کئی برس پہلے ایک مہلک وبا کے دوران دم توڑ گئی تھی۔ لکڑہارا اپنی بیوی کی جدائی سے اندر ہی اندر ٹوٹ گیا تھا، لیکن بچوں کی خاطر وہ خود کو سنبھال کر جی رہا تھا۔ پہلی بیوی کی موت کے بعد آس پاس کے لوگوں نے اسے سمجھایا کہ بچوں کی پرورش کیلئے دوسری شادی کرنا ضروری ہے، لہٰذا اس نے بچوں کیلئے دوسری شادی کرلی۔ 
وقت گزرتا گیا، بچے بڑے ہو رہے تھے، وہ چاہتا تھا کہ دوسری بیوی ان کی دیکھ بھال کرے مگر قسمت نے جیسے ایک اور آزمائش اس کے راستے میں کھڑی کر دی۔ نئی بیوی سخت مزاج، تندخو اور بے حد خود غرض تھی۔ اسے نہ بچوں سے محبت تھی نہ اپنے شوہر سے۔ وہ صرف اپنا آرام چاہتی تھی، اور گھر میں روزانہ غصے، چڑچڑے پن اور طعنوں کا ماحول رہتا تھا۔ وہ بچوں کو ذرا ذرا سی باتوں پر ڈانٹتی تھی۔ اگر لکڑہارا کچھ کہتا تو اس سے لڑ پڑتی۔ ایسی صورتحال میں لکڑہارا، ہینسل اور گریٹل خاموشی سے ڈانٹ سننے ہی میں عافیت جانتے تھے۔ 
لکڑہارا ایک محنت کش انسان تھا۔ صبح ہونے سے پہلے ہی وہ جنگل کی طرف نکل جاتا، درختوں پر کلہاڑی چلاتا، لکڑیاں باندھ کر گھر لاتا، پھر اگلے دن شہر جا کر انہیں بیچتا۔ اس کی آمدنی نہ کے برابر تھی، جس سے صرف گزارا ہوتا تھا۔ اکثر کھانے کو کچھ نہ ہوتا اور بچے سوکھی روٹی یا پتلے سوپ پر گزارا کرتے۔ مگر اس قدر صابر اور شاکر تھے کہ اپنے باپ سے کبھی شکایت نہیں کرتے۔ غربت کا بوجھ ان سب کو تھکا چکا تھا مگر سب سے زیادہ تھکاوٹ نئی بیوی کے چہرے پر نظر آتی تھی۔ وہ ہر روز بچوں کو کوستی، کہتی کہ یہ دونوں اس کی بدقسمتی ہیں۔ وہ کب تک ان کو پالے۔ لکڑہارا خاموش رہنے پر مجبور تھا، مگر اس کا دل اندر ہی اندر خون کے آنسو روتا تھا۔ 
ایک رات جب گھر میں ایک نوالہ بھی موجود نہ تھا، درختوں کی ٹہنیوں سے بارش کا پانی تیز دھار کی صورت میں گر رہا تھا، بجلی کڑک رہی تھی، اور فاقے کی تکلیف سب کے چہروں پر عیاں تھی، تو سوتیلی ماں نے اپنے شوہر کو جھنجھوڑا۔ اس نے سخت لہجے میں کہا، ’’کیا تم دیکھ رہے ہو؟ ہم بھوک سے مرنے والے ہیں ! گھر میں دو وقت کی روٹی نہیں، اور یہ دونوں بچے ہم پر بوجھ بنے بیٹھے ہیں۔ اگر تم چاہتے ہو کہ ہم زندہ رہیں تو کل صبح انہیں جنگل میں چھوڑ آؤ۔ کم سے کم ہم دو تو پیٹ پال سکیں گے اور ان دو بچوں سے ہمیں چھٹکارا ملے گا۔ ‘‘
لکڑہارا یہ سن کر لرز اٹھا۔ وہ بولا’’میں ایسا ظلم کیسے کر سکتا ہوں ؟ یہ میرے اپنے بچے ہیں !‘‘
مگر عورت باز نہ آئی۔ اس نے اسے بزدل، کمزور اور ناکارہ کہا۔ اس نے کہا کہ اگر وہ بچوں کو جنگل میں نہیں چھوڑے گا تو وہ گھر چھوڑ کر چلی جائے گی۔ 
کافی بحث و تکرار کے بعد آخرکار اس نے بیوی کی بات مان لی مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور جاچکی تھی۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ 
اس رات ہینسل بھی سو نہ سکا۔ بھوک کے ساتھ ساتھ اسے اپنے والدین کی سرگوشیاں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ اس کے دل میں خوف نے گھر کرلیا مگر وہ ایک بہادر لڑکا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بہن کو ہرگز تنہا نہیں چھوڑے گا۔ جب ماں باپ سو گئے، تو وہ دبے قدموں باہر نکلا۔ بارش رک گئی تھی اور رات چاندنی میں نہائی ہوئی تھی۔ اس نے کنویں کے پاس پڑی سفید چمکدار کنکریاں چن کر اپنی جیب میں بھر لیں۔ اسے علم تھا کہ یہ کنکریاں اندھیرے میں راستہ دکھائیں گی۔ 
پھر وہ خاموشی سے آ کر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ 
صبح ہوئی تو سوتیلی ماں نے خوش اخلاقی کا مصنوعی نقاب چڑھا لیا۔ اس نے پیار بھرے مگر جھوٹے انداز میں کہا کہ وہ سب آج جنگل میں لکڑیاں جمع کرنے جائیں گے۔ اس نے بچوں کو روٹی کے معمولی ٹکڑے دیئے۔ ہینسل نے اپنی بہن کو دیکھا اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے تسلی دی۔ وہ سب گھر سے نکلے اور جنگل کی طرف بڑھنے لگے۔ 
راستے میں جیسے جیسے وہ آگے جاتے، درخت گھنے ہوتے جاتے۔ ہینسل چپکے سے اپنی جیب سے کنکریاں نکالتا اور ایک ایک کر کے راستے میں گراتا جاتا۔ اسے معلوم تھا کہ ڈر اور بھوک سے پریشان گریٹل کو واپس لانے کیلئے یہی سہارا ہو گا۔ 
کچھ دیر بعد وہ جنگل کے بیچوں بیچ پہنچے۔ 
سوتیلی ماں نے مصنوعی نرمی سے کہا، ’’تم دونوں یہیں بیٹھو، ہم لکڑیاں کاٹ کر ابھی واپس آتے ہیں۔ ‘‘
دونوں خاموشی سے بیٹھ گئے۔ 
مگر شام ہو گئی، رات ہونے لگی، اور وہ واپس نہ آئے۔ گریٹل خوف سے کانپنے لگی، مگر ہینسل نے اس کا ہاتھ تھاما اور کہا، ’’پریشان نہ ہو، جب چاند نکلے گا تو ہم واپس گھر پہنچ جائیں گے۔ ‘‘
چاند نکلا تو سفید کنکریاں چمکنے لگیں۔ دونوں بچے ان نشانیوں کا پیچھا کرتے ہوئے رات بھر چلتے رہے۔ جب صبح کی روشنی پھیلی تو وہ تھکے ہارے گھر پہنچ چکے تھے۔ باپ انہیں دیکھ کر حیران اور خوش ہوا لیکن سوتیلی ماں کے چہرے پر غصہ صاف جھلک رہا تھا۔ کچھ دن گزرے اور قحط نے گھر کی حالت دوبارہ خراب کر دی۔ 
 ایک رات عورت نے پہلے سے زیادہ سختی اور سفاکی سے کہا، ’’اب کی بار انہیں جنگل میں مزید اندر چھوڑ کر آئیں گے۔ اتنا اندر کہ وہ کبھی واپس نہ آسکیں۔ ‘‘ 
لکڑہارا بہت رویامگر بیوی کے طعنے اور دھمکیاں اسے پھر شکست دے گئیں۔ 
اس بار ہینسل کنکریاں جمع کرنے کیلئےنکلنا چاہامگر دروازہ اندر سے بند تھا۔ صبح جب سوتیلی ماں نے انہیں جگایا تو اسے کچھ بھی کرنے کا وقت نہ ملا۔ ہینسل نے اپنی جیب میں خشک روٹی کے چھوٹے ٹکڑے ڈال لئے اور سوچا کہ وہ انہی سے راستہ بنائے گا۔ 
راستے میں وہ روٹی کے ٹکڑے پھینکتا گیا، مگر تقدیر کو کچھ اور منظور تھا۔ جب شام کو وہ راستہ ڈھونڈنے لگے، تو دیکھا کہ پرندے سارے ٹکڑے کھا چکے تھے۔ اب کوئی نشان باقی نہ تھا۔ دونوں بچے جنگل میں بھٹکتے رہے۔ رات بھر وہ کبھی آرام کرتے، کبھی روتے، کبھی ایک دوسرے کو ہمت دیتے۔ تین دن گزر گئے۔ بھوک انہیں توڑ رہی تھی، اور امید کم ہو رہی تھی۔ 
تیسرے دن سورج ڈھلنے کے قریب انہیں ایک عجیب جھوپڑی نظر آئی۔ یہ جھوپڑی کسی خواب کی طرح رنگین تھی۔ دیواریں مٹھائی کی تھیں، چھت چاکلیٹ کی، اور کھڑکیاں شکر کے شیشوں سے بنی تھیں۔ بچے حیرت سے کھڑے رہ گئے مگر بھوک نے انہیں بے اختیار جھوپڑی کی طرف بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ وہ لپک لپک کر ٹافیاں اور مٹھائیاں توڑنے لگے۔ 
اسی لمحے جھوپڑی کا دروازہ کھلا اور ایک بوڑھی عورت نمودار ہوئی۔ اس نے فوراً کہا ’’آؤ بچو، اندر آؤ۔ میں تمہیں مزید لذیذ کھانے دوں گی۔ ‘‘
اس کا لہجہ میٹھا تھا، مگر آنکھوں میں عجیب چمک تھی۔ بچے اس کے پیچھے اندر گئے مگر وہ عورت دراصل ایک بدنام زمانہ جادوگرنی تھی۔ اس نے ہینسل کو لوہے کے مضبوط پنجرے میں قید کر دیا اور گریٹل کو نوکرانی بنا لیا۔ 
اس کا ارادہ تھا کہ ہینسل کو موٹا تازہ کر کے کھا جائے۔ روزانہ وہ اس کی انگلی پکڑ کر دیکھتی کہ وہ کتنا موٹا ہوا ہے۔ دراصل جادوگرنی کی نظر کمزور تھی۔ ہینسل نے اس کی کمزوری بھانپ لی تھی لہٰذا اس نے جادوگرنی کو چکمہ دینے کا منصوبہ بنایا۔ اس نے گریٹل سے ایک ہڈی منگوائی اور اپنے پاس رکھ لی۔ جب بھی جادوگرنی اس کی انگلی پکڑنے آتی، وہ اسے ہڈی پکڑا دیتا۔ جادوگرنی کو لگتا کہ لڑکا اب بھی بہت کمزور ہے۔ اس طرح طویل عرصے تک ہینسل جادوگرنی کا شکار بننے سے بچا رہا لیکن جادوگرنی گریٹل سے خوب کام کرواتی تھی۔ 
کئی ہفتے بیت گئے۔ اب جادوگرنی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ انتظار ختم ہو گیا۔ اس نے گریٹل کو حکم دیا، ’’تنور دہکاؤ! آج میں ہینسل کو پکا کر کھاؤں گی!‘‘ 
گریٹل نے گھبرا کر کہا، ’’مجھے نہیں معلوم کہ تنور کا دروازہ اندر سے کیسے بند ہوتا ہے۔ کیا آپ میری مدد کرسکتی ہیں ؟‘‘ جادوگرنی کو گریٹل پر بڑا غصے آیا لیکن وہ غرور سے آگے بڑھی۔ جیسے ہی وہ دروازے بند کرنے کیلئے جھکی، گریٹل نے اسے ایک زور دار دھکا دیا۔ 
بدصورت جادوگرنی چیختی ہوئی گرم تنور میں جا گری۔ گریٹل نے جلدی سے دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی۔ جادوگرنی کی چیخ دور دور تک سنائی دے رہی تھی، اور پھر ہر طرف خاموشی طاری ہوگئی۔ گریٹل دوڑتی ہوئی ہینسل کے پنجرے کی جانب بھاگی اور اسے آزاد کیا۔ دونوں خوشی سے ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ پھر انہوں نے جھوپڑی کی تلاشی لی۔ اندر قیمتی جواہرات، سونا اور موتی کے ڈھیر لگے تھے۔ انہوں نے سب کچھ ایک چادر میں باندھا اور گھر کی طرف سفر شروع کیا۔ 
جنگل سے نکلتے ہوئے انہیں کئی درختوں پر پڑتی دھوپ، پرندوں کی چہچہاہٹ اور ہوا کی ٹھنڈک نئی امید دیتی رہی۔ کئی دنوں کے سفر کے بعد وہ اپنی بستی کے قریب پہنچے۔ گھر پہنچ کر دیکھا کہ سوتیلی ماں مر چکی تھی۔ اور باپ کو پچھتاوا تھا۔ جب اس نے بچوں کو دیکھا تو خوشی اور شرمندگی کے آنسو بہہ نکلے۔ بچوں نے اسے خزانہ دیا جس سے اس نے نئی زمین خریدی، کھیتی باڑی شروع کی، اور ایک مضبوط مکان بنوایا۔ پھر وہ تینوں امن، محبت اور آسودگی سے رہنے لگے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK