Inquilab Logo

میرے والد میرے رہنما

Updated: November 18, 2023, 12:46 PM IST | Zakia Sartaj | Maniklan, Jaunpur

شیرین ایک مڈل کلاس فیملی سے تھی۔ اس کے والد کی سلائی کی ایک چھوٹی سی دکان تھی جس سے ان کا خرچ بڑی مشکل سے چلتا تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

شیرین ایک مڈل کلاس فیملی سے تھی۔ اس کے والد کی سلائی کی ایک چھوٹی سی دکان تھی جس سے ان کا خرچ بڑی مشکل سے چلتا تھا۔ اس کے والد کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی خوب پڑھے اور ایک دن پڑھ لکھ کر اعلیٰ مقام حاصل کرے اور ان کا نام روشن کرے۔ اس لئے انہوں نے شیرین کا داخلہ ڈاکٹر ڈبلیو این گرلز انٹر کالج میں کرا دیا اور شیرین کو خود صبح سائیکل سے اسکول چھوڑنے جاتے اور چھٹی ہونے پر واپس لاتے۔ ان کا اپنا کام اپنی دکان ہونے کے باوجود یہ ان کا معمول تھا کہ وہ شیرین کو مقررہ وقت پر اسکول لے جاتے اور واپس لا تے۔ اُس کے پاپا اُس کی دنیا تھے۔ سب کو اسکول اور مدارس میں استاد ملتے ہیں مگر شیرین کا ماننا تھا میرے پاپا میری زندگی میں آنے والے پہلے استاد ہیں جنہوں نے مجھے زندگی کے ہر اچھے اور برے سبق سے آگاہ کیا اور میرا ساتھ دیا ہے۔ شیرین اپنی کلاس میں بھی زیادہ باتیں نہیں کرتی تھی۔ بس اسکول اور اسکول سے گھر۔ اسی طرح اس نے نویں کلاس پاس کرلیا اور اب وہ دسویں میں کلاس میں تھی۔ دھیرے دھیرے بورڈ ایگزامز نزدیک ا رہے تھے۔ شیرین پڑھائی میں جٹ گئی۔ خوب محنت کی اور جس دن پہلا پیپر تھا کرن میم سب کو نیک خواہشات کے ساتھ بس میں بیٹھنے کا حکم دے رہی تھیں ۔ شیرین کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جا رہی تھیں ۔ دعا پڑھتے پڑھتے وہ ایگزامز ہال میں پہنچی جہاں سارے اسٹوڈنٹ پہلے ہی سے موجود تھے۔ گھنٹی بجی، پیپر ملے اور سب کے ساتھ وہ بھی پیپر دے کر واپس اسکول کے لئے روانہ ہوئی جیسے ہی بس سے اتری پاپا پہلے ہی سے اپنی سائیکل لئے موجود تھے۔ وہ پاپا کے پاس اگئی۔
 پاپا نے بے چینی سے پوچھا، ’’کیسا پیپر گیا بیٹا؟‘‘ شیرین ’’بہت اچھا....‘‘ کہتے ہوئے سائیکل پر بیٹھ گئی۔ اس طرح سارے پیپر ہوگئے اور اب رزلٹ کا انتظار بڑی بے صبری سے ہونے لگا۔ اس کے کزنز تو اس کی حوصلہ افزائی کے بجائے ڈرانے لگے کہ، ’’ہم سیکنڈ پوزیشن سے پاس ہوئے تھے۔ شیرین تم تھرڈ آؤ گی۔‘‘
 شیرین اس طرح کی باتوں سے اور گھبرا جاتی تھی پھر وہ دن بھی اگیا جب نتیجہ نکلا۔ شیرین دعائیں پڑھ رہی تھیں ۔ اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوتے جا رہے تھے۔ دل اتھل پتھل ہو رہا تھا اور اس کے والد کی انکھیں نم اور چہرہ اداس تھا۔ پھر انہوں نے ہمت کرتے ہوئے مارکیٹ جا کر نتیجہ معلوم کیا۔ کچھ پل بعد اُن کی نم انکھیں چھلک پڑی اور چہرہ جو کب سے اداس تھا سرخ رنگت اختیار کرگیا۔ ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ یہ دیکھ کر کہ شیرین نمایاں کامیابی حاصل کی ہے وہ رزلٹ اور مٹھائی کا ڈبہ لے کر گھر میں داخل ہوئے تو شیرین خوشی سے اچھل پڑی۔
 کیونکہ پاپا کی اداسی دیکھ کر اسے بھی تھوڑی بہت بے چینی ہوگئی تھی مگر اُس کے پاپا کی دوڑ دھوپ اور شیرین کی محنت رنگ لائی اور اب سب بہتر تھا۔ اسکول میں اس کے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ اس کے ٹیچرز بھی حیرت میں مبتلا تھے کہ کلاس میں چپ چاپ اور سب سے دور رہنے والی شیرین بورڈ ایگزام میں اتنے اچھے مارکس سے پاس ہوئی تھی۔ اس کے کزنز اسے ڈرا رہے تھےاور اُس نے فرسٹ ڈویژن حاصل کرکےسب کو جواب دے دیا تھا۔
دوستو! اسی لئے کہتے ہیں محنت ہمیشہ خاموشی سے کرنی چاہئے تاکہ کامیابی لوگوں کو حیران کر دے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK