جب اس اسکیم کی روح ہی باقی نہیں رہی، جب اس کی بنیادی دفعات ہی ختم کی جا رہی ہیں اور جب اسے پوری طرح سے بدلا جارہا ہے، تو پھر اس کا نام بچانے کا کیا فائدہ؟ ویسے بھی یہ نیا نام ’وکست بھارت روزگار اور ذریعۂ معاش گارنٹی مشن (دیہی) بل ‘ خاصا بھدا لگتا ہے۔ جس طرح سے ہندی انگریزی کے الفاظ ملا کرگھڑے گئے ہیں، اسے دیکھ کر میکالے کی بو آتی ہے۔
اپوزیشن کو اس بات پر اعتراض ہے کہ منریگا کا نام کیوں بدلا جا رہا ہے؟ جس تاریخی اسکیم کو ملک اب تک ’مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم‘ کے نام سے جانتا رہا ہے، اس کے نام سے مہاتما گاندھی کو کیوں ہٹایا جا رہا ہے؟ ابتدا میں مجھے بھی اس پر افسوس ہوا۔ ویسے بھی حکومت کی جانب سے تجویز کردہ نیا نام ’وکست بھارت روزگار اور ذریعۂ معاش گارنٹی مشن (دیہی) بل ‘ خاصا بھدا لگتا ہے۔ پہلے انگریزی کے’ ایکرونِم‘ کو ذہن میں رکھ کر ہندی کے الفاظ گڑھنے کے اس طریقے میں مجھے میکالے کی بو آتی ہےلیکن جب میں نے منریگا کی جگہ حکومت کی طرف سے لائے جا رہے نئے قانون کا مسودہ دیکھا تو مجھے لگا کہ حکومت نے اس نئی اسکیم سے مہاتما گاندھی کا نام مٹا کر اچھا ہی کیا ہے۔ جب اس اسکیم کی روح ہی باقی نہیں رہی، جب اس کی بنیادی دفعات ہی ختم کی جا رہی ہیں، تو پھر نام بچانے کا کیا فائدہ؟
پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’منریگا‘‘ نامی یہ قانون تاریخی کیوں تھا۔ آزادی کے تقریباً ساٹھ برس بعد، حکومتِ ہند نے اس قانون کے ذریعے پہلی بار اپنے آئینی فرض کی ادائیگی کی سمت ایک قدم اٹھایا تھا۔ دستورِ ہند کے رہنما اصولوں کے تحت آرٹیکل ۳۹(اے) اور۴۱؍ حکومت کو ہدایت دیتے ہیں کہ وہ ہر فرد کے لیے ذریعۂ معاش اور روزگار کا حق یقینی بنائے۔ چھ دہائیوں تک اس کو نظر انداز کرنے کے بعد، ۲۰۰۵ء میں یو پی اے حکومت نے پارلیمنٹ میں قومی دیہی روزگار گارنٹی ایکٹ منظور کیا اور پہلی بار ملک کے آخری فرد کو اس سلسلے میں ایک حق دیا۔ یہ قانون مکمل معانی کے لحاظ سے روزگار کی گارنٹی نہیں تھا، لیکن اس کی دفعات عام سرکاری روزگار اسکیموں سے بالکل مختلف تھیں۔ یہ قانون دیہی علاقوں میں ہر شخص کو یہ حق دیتا تھا کہ وہ حکومت سے روزگار کا مطالبہ کرے۔ اس میں سرکاری افسروں کے لیے ٹال مٹول یا بہانے بازی کی گنجائش بہت کم رکھی گئی تھی۔ اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی اہلیت شرط نہیں تھی۔ کوئی بھی دیہی فرد جاب کارڈ بنوا کر اس سے فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ روزگار مانگنے پر کوئی شرط نہیں تھی جب بھی روزگار مانگا جائے، حکومت کو دو ہفتوں کے اندر یا تو کام دینا ہوتا تھا یا معاوضہ۔
اس اسکیم کی ایک انوکھی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں بجٹ کی کوئی حد مقرر نہیں تھی۔ جتنے لوگ چاہیں، جب چاہیں کام مانگ سکتے تھےاور مرکزی حکومت کو اس کیلئے رقم کا انتظام کرنا ہوتا تھا۔ اس طرح اگرچہ نامکمل ہی سہی، لیکن پہلی بار روزگار کے حق کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ دنیا بھر میں اس اسکیم پر گفتگو ہوئی۔ عملی طور پر یہ قانون اپنی اصل روح کے مطابق صرف چند برس ہی نافذ رہ سکا۔ منریگا کی یومیہ مزدوری بہت کم تھی اور سرکاری پابندیاں بہت زیادہ۔ اس کے باوجود منموہن سنگھ کی حکومت نے اس کا دائرہ وسیع کیا۔ یو پی اے حکومت کے جانے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے تو اس قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسے یو پی اے کی خیالی سوچ کے میوزیم کے طور پر محفوظ رکھیں گے۔
ابتدائی برسوں میں مودی حکومت نے اس اسکیم کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی لیکن کووِڈ کی آفت کے دوران مودی حکومت کو بھی اسی اسکیم کا سہارا لینا پڑا۔ مجموعی طور پر، حکومتی کوتاہی، افسر شاہی کی بد نیتی اور مقامی بدعنوانی کے باوجود، منریگا دیہی ہندوستان کے آخری فرد کے لیے سہارا ثابت ہوئی۔
گزشتہ ۱۵؍ برسوں میں اس اسکیم کے ذریعے چار ہزار کروڑ یومیہ روزگار فراہم کیا گیا۔ دیہی ہندوستان میں اس کے تحت۵ء۶؍ کروڑ کام مکمل ہوئے۔ ہر سال تقریباً پانچ کروڑ خاندان اس اسکیم سے فائدہ اٹھاتے رہے۔ اس کے باعث دیہی علاقوں میں مزدوری میں اضافہ ہوا۔ کووِڈ جیسے قومی بحران یا قحط جیسی مقامی آفات کے دوران منریگا نے لاکھوں خاندانوں کو بھوک سے بچایا اور کروڑوں لوگوں کو ہجرت سے روکالیکن اب مودی حکومت نے اس تاریخی اسکیم کو دفن کرنے کا ارادہ بنا لیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی ایسی اسکیم کو رسمی طور پر ختم کرنے سے سیاسی نقصان کا خدشہ رہتا ہے۔ اسی لیے اعلان یہ کیا گیا ہے کہ اسکیم کو ’ترمیم‘ کیا جا رہا ہے۔ عوام کو بہلانے کے لیے یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ اب۱۰۰؍ دن کے بجائے ۱۲۵؍ دن روزگار کی گارنٹی دی جائے گی لیکن یہ گنتی تو تب شروع ہوگی جب اسکیم واقعی نافذ ہوگی اور اس کے تحت روزگار دیا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ’وکست بھارت روزگار اور ذریعۂ معاش گارنٹی مشن (دیہی) بل‘ دراصل روزگار گارنٹی کے تصور کو ہی ختم کر دیتا ہے۔ اب یہ ہر ہاتھ کو کام کا حق دینے کی بجائے چند منتخب فائدہ اٹھانے والوں کو مزدوری کے خیرات کی اسکیم بن کر رہ جائے گا۔ حکومت کے پیش کردہ مسودے کے مطابق اب اس اسکیم کی ہر اہم شق کو الٹ دیا جائے گا۔ اب مرکزی حکومت یہ طے کرے گی کہ کس ریاست میں اور اس کے کن علاقوں میں روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ مرکز ہر ریاست کیلئے بجٹ کی حد مقرر کرے گا۔ ریاستی حکومت یہ طے کرے گی کہ زرعی مزدوری کے موسم میں کن دو مہینوں کیلئے اس اسکیم کو معطل رکھا جائے گا۔ اب مقامی سطح پر کون سا کام ہوگا، اس کا فیصلہ بھی اوپر سے دی گئی ہدایات کے مطابق ہوگا۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اب اس اسکیم کے اخراجات کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں پر بھی ڈال دی گئی ہے۔ پہلے مرکز۹۰؍ فیصد خرچ برداشت کرتا تھا، اب صرف ۶۰؍ فیصد دے گا۔ جن غریب علاقوں میں روزگار گارنٹی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہاں کی غریب ریاستی حکومتوں کے پاس اتنا فنڈ ہی نہیں ہوگا اور مرکز حکومت ہاتھ جھاڑ لے گی۔ یعنی نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ ہاں اگر کسی ریاست میں الیکشن جیتنے کی مجبوری ہوئی تو وہاں اچانک روزگار گارنٹی کے فنڈ آ جائیں گے۔ جہاں اپوزیشن کی حکومت ہوگی، وہاں یا تو اس اسکیم کو نافذ ہی نہیں کیا جائے گا، یا اس پر سخت شرطیں لگا دی جائیں گی۔ اچھی بات ہے کہ ایسی اسکیم سے مہاتما گاندھی کا نام ہٹا دیا گیا۔ جن لوگوں کو گاندھی کے خیالات عزیز ہیں، انہیں پارلیمنٹ میں اس بل کے خلاف لڑائی لڑنی ہوگی، ملک کے اجتماعی شعور تک منریگا کے قتل کی خبر پہنچانی ہوگی اور کسانوں کی طرح سڑکوں پر اتر کر جدوجہد کرنی ہو گی۔