اُترپردیش کےگونڈہ ضلع کے بلیسر گنج سے تعلق رکھنےوالے ۱۰۲؍سالہ حاجی محمد شفیع شیخ کی زندگی کھیتی باڑی میں گزری۔ کبڈی، کشتی اور لاٹھی چلانا محبوب مشغلہ رہا، یہی وجہ ہے کہ اِس عمرمیں بھی صحت مند اورچاق و چوبندہیں، کوئی بیماری نہیں ہے، حافظہ بھی خوب اچھا ہے۔
حاجی محمد شفیع شیخ۔ تصویر: آئی این این
حاجی محمد شفیع شیخ کا تعلق اُترپردیش کےگونڈہ ضلع کے بلیسر گنج سے ہے۔ انہوں نے پڑھائی توزیادہ نہیں کی لیکن ان کے پاس تجربہ کا خزانہ ہے۔ زندگی کا بیشتر حصہ گائوں میں گزرا۔ ان کے فرزند محمد مجید شیخ سورتی محلہ، ناگپاڑہ میں مقیم ہیں۔ ان سے اور ان کےبچوں سے ملاقات کیلئے حاجی محمد شفیع سال میں ایک دو مرتبہ کچھ دنوں کیلئے ممبئی آتے ہیں پھر گائوں لوٹ جاتےہیں۔ ان کی پوری زندگی کھیتی باڑی میں گزری۔ عمر کے اس مرحلے پر بھی پوری طرح سے صحت مند اور چاق و چوبندہیں۔ کوئی بیماری نہیں ہے۔ قوت گویائی اورسماعت بحال ہے اور حافظہ بھی خوب ہے۔ نوجوانی کے دنوں میں کبڈی، کشتی اور لاٹھی چلانا ان کامحبوب مشغلہ تھا۔
محمدشفیع کی عمر جب ۱۴۔ ۱۵؍سال تھی، اس دورمیں میوا اور سن چیت نامی ڈاکوئوں کی دہشت سے گائوں والے دن کے اوقات میں بھی گھروں کادروازہ بندرکھتے تھے۔ ایک روز رات کوتقریباً ۱۲؍بجے ان ڈاکوئوں نے اچانک گائوں میں ہوائی فائرنگ کی جس سے لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ محمد شفیع کے والدین، بھائی بہن اور دیگر گھروالوں نے نقدی، زیورات اور قیمتی کپڑے وغیرہ لے کرقریب کے مکئی کے کھیت میں جاکر پناہ لی۔ محمد شفیع گہری نیند میں تھے، اسلئے ان کی ایک خالہ انہیں اُٹھانےکی کوشش میں گھر میں ہی رہ گئی تھیں۔ اتنےمیں میوا اور سنچیت گھر میں داخل ہوگئے اوران پر گرجنے لگے۔ خالہ سے ڈاکوئوں نے کہاکہ بچے کو لے کر ایک طرف کھڑی ہوجا۔ ان کے کہنےپر وہ محمد شفیع کو لے کر ایک طرف کھڑی ہوگئیں۔ کچھ دیر بعد میوا ڈاکونے کہا کہ بتاسارا مال کہاں چھپا رکھا ہے، جس پر خالہ نے کہا کہ میں دوسرے گاؤں میں رہتی ہوں، میں اس بچے کی خالہ ہوں۔ اپنی بہن سے ملاقات کرنے کیلئے آج ہی آئی ہوں، مجھے نہیں معلوم ہےکہ ان لوگوں نے پیسے اور زیورات کہاں رکھے ہیں ۔ وہ لوگ ہوائی فائرنگ کی آوازسن کر بھاگ گئے، میں نہیں بھاگ سکی۔ اس پر ڈاکوئوں نے کہا کہ تُو جھوٹ بول رہی۔ اتنا کہتے ہوئے محمد شفیع پر بندوق تان کر میوا نے کہاکہ سچ بتا ورنہ اسے گولی ما ر دوں گا۔ اس دوران گائوں کی پہرےداری پر مامور پنڈت جی کوبھی ڈاکوئوں نے اٹھا لیاتھا۔ وہ بھی محمداسیگھر میں موجود تھے۔ انہوں نے مداخلت کرتے ہوئے ڈاکوئوں سے کہا کہ آپ اس بچے کو گولی مارناہے ماردیں ، لیکن یہ عورت جو کہہ رہی وہ سچ ہے۔ بعدازیں ان ڈاکوئوں نےپورے گھر کی تلاشی لی لیکن انہیں کچھ خاص نہیں ملا۔ کافی تلاش بسیار کے بعد دونوں ڈاکوئوں نے ایک دوسرے سےکہا کہ ارے چل یہاں سے، یہ تو بھیک منگوں کاگھر ہے، یہ کہہ کر وہ محمد شفیع کے گھر سے نکل کر گائوں ہی کے ایک دوسرے گھر چلے گئےجہاں انہیں خوب مال ملا۔ محمد شفیع کو وہ سارے واقعات بہت اچھی طرح سے یاد ہیں۔
محمد شفیع نے انگریزوں کےدورمیں، گائوں میں قحط سالی اور کالرا کی وباء کےایک ساتھ پھیلنے سے ہونےوالی تباہ کاریوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ لوگ دست اور قے کی شدید شکایت میں مبتلاہوکرڈیڑھ سے ۲؍ گھنٹےمیں دم توڑ دے رہے تھے۔ پورا پانی خارج ہوجانے سے جسم لاغر ہو جارہاتھا۔ ایک گھر میں ایک دن میں کئی کئی اموات ہونے سے پورے گائوں میں کہرام سا مچا ہواتھا۔ ہر کوئی خوف ودہشت میں مبتلاتھا۔ سب کو ایسا لگ رہا تھا کہ اب ہماری باری ہے۔ علاج کےنام پر کوئی دوا نہیں تھی۔ دیسی دواکے طورپر لوگ پیاز اور پودینہ کاعرق مریضوں کو پلاتے تھے لیکن اس سے بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوتاتھا۔ اُس وقت محمد شفیع کےگھر کے بھی ۲؍بچے کالرا کاشکار ہوئےتھے۔
محمد شفیع کےبچپن میں گائوں میں بارش بہت ہوتی تھی۔ جون کے مہینے سےمانسون شروع ہوتا تھا۔ موسلادھار بارش سے زمین دلدل میں تبدیل ہوجاتی تھی۔ زمین میں پانی کی سطح اوپر آجانے سے پانی زمین سےاُبلنے لگتا تھا۔ اُن دنوں بارش کےپانی سے کھیتی باڑی کی جاتی تھی۔ اسی دوران ایک سال بارش نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے پورے گونڈہ اور اطراف کےدیگر اضلاع میں قحط سالی پڑگئی۔ کھیتی نہ ہونے سے اناج کی قلت ہوگئی جس کی وجہ سے لوگوں کو بھوکے رہنےکی نوبت آگئی۔ لوگ فاقہ کشی پرمجبورہوگئے۔ ان دنوں محمدشفیع بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ کئی دنوں تک بھوکے رہے۔ ایسےمیں انگریز حکومت کی طرف سے راشن کی دکانوں سے باجرہ اور جوار کی تقسیم کاسلسلہ شروع کیاگیا تھا۔ باجرہ اورجوار لینےکیلئے لوگوں میں لڑائی جھگڑے ہونے لگے۔ کسی کو ملتاکسی کو نہیں ملتا۔ جواراورباجرہ کےآٹے کی روٹی، مرچ اور نمک سے بنائی جانےوالی چٹنی سے لوگ پیٹ کی آگ بجھاتےتھے۔
محمد شفیع نے مہاتماگاندھی، پنڈت جواہر لال نہرواور اندراگاندھی کو کئی مرتبہ دیکھا اور سنا ہے۔ تحریک آزادی سے متعلق گونڈہ کے کچہری (عدالت ) کےقریب واقع میدان میں منعقدہونےوالے ۳؍ جلسوں میں وہ گاندھی جی کی تقریر سن چکےہیں۔ وہ اپنی تقریرمیں کہتے تھے کہ یہ ملک ہمارا ہے، ہمارے ملک پر ان انگریزوں کا کوئی حق نہیں ہے، انہیں ملک سے باہر نکالناہے، اسلئے ہم سب کو متحد ہوکران کا مقابلہ کرناہوگا۔ پنڈت نہرواور اندراگاندھی کو بھی متعدد مرتبہ اسی میدان میں تقریر کرتے ہوئے سن چکےہیں۔ تحریک آزادی کے دوران یہ اعلان کیاگیاتھاکہ جو ملک کی آزادی چاہتےہیں اور گاندھی جی کے ہم خیال ہیں وہ گاندھی ٹوپی پہنیں ، جس پر ہزاروں لوگوں نے گاندھی ٹوپی پہننا شروع کردیاتھا، جس سے انگریزی حکومت خوب چڑتی تھی، نتیجے میں گاندھی ٹوپی پہننےوالوں کو جیل میں ڈالنا شروع کردیاتھا۔
جب گاؤں چھوٹے تھے تومحمد شفیع کے گھرکے قریب خوب جھاڑیاں تھیں۔ اس کی وجہ سے آئے دن موذی جانوروں سے سابقہ پڑتا تھا۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ان کے گھر کی ایک بکری کو بھیڑیا اُٹھا لے گیا۔ اس کے دوسرے تیسرے دن ایک بار پھر بھیڑیا اپنا شکار کرنے میں کامیاب رہا۔ اس طرح یکے بعد دیگرے وہ پانچ مرتبہ بکریوں پر حملہ آور ہوا۔ تین بار بھیڑیا کامیاب رہا مگر دو مرتبہ محمد شفیع نے بھیڑے کے منہ سے اپنی بکری بچانے میں کامیابی حاصل کی۔
محمد شفیع اپنی اہلیہ کے ہمراہ ۱۹۹۰ءمیں حج بیت اللہ پر گئے تھے۔ منیٰ سے پیدل ہی وہ مکہ کیلئےروانہ ہوئے۔ راستےمیں ایک سرنگ میں پہنچنےپر اچانک بجلی گل ہوگئی۔ اندھیراہونے سے بھگدڑ مچ گئی۔ لوگ ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ محمد شفیع نے سمجھداری سے اپنی اہلیہ کے ساتھ سرنگ کی دیوار سے لگ کر کھڑے ہوگئے۔ چند منٹوں بعد بجلی بحال ہوئی لیکن اس دوران تقریباً ۱۵۔ ۲۰؍ حاجی جاں بحق ہوچکےتھے۔
ملک کی تقسیم کے بعد کچھ لوگ پاکستان جا رہےتھے۔ محمد شفیع کے گائوں کے مسلمان بھی جانےکی تیاری کررہےتھے۔ گائوں کے برادران وطن کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نےمسلمانوں سے کہا کہ آپ کو کہیں جانےکی ضرورت نہیں ہے۔ ہم آپ لوگوں کویہاں سےکہیں جانے نہیں دیں گے۔ دیکھتےہیں کون آپ کو یہاں سے پاکستان لے جانےکیلئے آتاہے۔ ہم سب ان کا مقابلہ کریں گے۔ برادران وطن کی یہ محبت اور ان کا خلوص دیکھ کر لوگوں نے پاکستان جانے کا اپنا ارادہ تبدیل کردیا۔