آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں پیش آئے دہشت گردانہ حملے نے جہاں عالمی اخبارات کے اداریوں کو لرزا دیا وہیں ایک عام شہری احمد الاحمد کی بے مثال جرأت اور انسانیت نوازی نے اندھیرے میں امید کی کرن روشن کی جسے بالخصوص انگریزی اخبارات نے خراج تحسین پیش کیا۔
EPAPER
Updated: December 21, 2025, 9:46 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں پیش آئے دہشت گردانہ حملے نے جہاں عالمی اخبارات کے اداریوں کو لرزا دیا وہیں ایک عام شہری احمد الاحمد کی بے مثال جرأت اور انسانیت نوازی نے اندھیرے میں امید کی کرن روشن کی جسے بالخصوص انگریزی اخبارات نے خراج تحسین پیش کیا۔
رواں ہفتہ ملکی و عالمی سطح پر ایسے واقعات سے عبارت رہا جنہوں نے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں پیش آئے دہشت گردانہ حملے نے جہاں عالمی اخبارات کے اداریوں کو لرزا دیا وہیں ایک عام شہری احمد الاحمد کی بے مثال جرأت اور انسانیت نوازی نے اندھیرے میں امید کی کرن روشن کی جسے بالخصوص انگریزی اخبارات نے خراج تحسین پیش کیا۔ اِدھر مہاراشٹر میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی درجۂ حرارت بڑھتا دکھائی دیاجس پر مراٹھی اخبارات نے تفصیلی تجزیے اور اداریے شائع کئے۔ اسی دوران منریگا اسکیم کا نام تبدیل کرنے کے حکومتی فیصلے نے ایک نئی سیاسی بحث کو جنم دیا جس پر نہ صرف اپوزیشن بلکہ غیر تمام اخبارات نے بھی حکومت کی نیت اور ترجیحات پر سوالات اٹھائے۔ اسی دوران چندر پور کا ایک دلخراش واقعہ بھی سامنے آیا جہاں ایک مجبور کسان کو ساہوکار کے ظلم سے تنگ آکر اپنا گردہ فروخت کر نا پڑا۔
سڈنی حادثہ انسانیت کی پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے
دی فری پریس جنرل( انگریزی، ۱۶؍ دسمبر)
’’سڈنی میں پیش آنے والا واقعہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ انسانیت کی پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے۔ وہ مقام جہاں لوگ مذہبی تہوار کی مناسبت سے خوشیاں منانے اور روشنیوں کا جشن منانے جمع ہوئے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے سیاہ لباس میں ملبوس ایک باپ اور بیٹے کی درندگی کا نشانہ بن گیا۔ اس بزدلانہ حملے میں ۱۵؍ معصوم جانیں لقمہ اجل بن گئیں۔ اس تاریک منظر نامے میں احمد الاحمد نامی ایک عام شہری کی بہادری امید کی ایک کرن بن کر ابھری۔ اپنی جان کی پروا کئے بغیر حملہ آور پر جھپٹ پڑنا اور اس سے اسلحہ چھین لینا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ احمد کے اس جرأت مندانہ اقدام نے نہ صرف کئی قیمتی جانیں بچائیں بلکہ ان لوگوں کے منہ بھی بند کر دیے جو دہشت گردی کو کسی خاص مذہب یا عقیدے سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آسٹریلیا کی مسلم تنظیموں کی جانب سے اس حملے کی شدید مذمت اور انصاف کا مطالبہ اس بات کی گواہی ہے کہ دہشت گردی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک طرف آسٹریلیا میں اسلحہ کے قوانین پر نظرثانی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے تو دوسری طرف ایرانی سفارتکاروں کی مبینہ مداخلت جیسے معاملات سفارتی تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ سڈنی کا یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انتہا پسندی اور نفرت کسی بھی بھیس میں ہوں وہ پوری انسانیت کیلئے خطرہ ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ایسے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے بغیر کسی تفریق کے متحد ہو کر مزاحمت کی جائے کیونکہ امن کی بقا صرف اور صرف مشترکہ اخلاقی اقدار اور باہمی احترام میں پوشیدہ ہے۔‘‘
مہاراشٹر کے بلدیاتی انتخابات قومی اہمیت کے حامل ہیں
لوک مت( مراٹھی، ۱۷؍ دسمبر)
’’مہاراشٹر میں طویل عرصے سے جاری سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہو چکا ہے اور ریاست کی ۲۹؍ میونسپل کارپوریشنوں میں انتخابی معرکے کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے۔ نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی ۱۵؍ جنوری کو ریاست کے تقریباً ساڑھے تین کروڑ رائے دہندگان اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے جبکہ ۱۶؍ جنوری کو آنے والے نتائج یہ واضح کر دیں گے کہ شہروں کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہوگی۔ یہ انتخابات محض مقامی سطح کے نہیں بلکہ قومی اہمیت کے حامل ہیں۔ خاص طور پر ملک کے معاشی دارالحکومت ممبئی، صنعتی مرکز پونے، تھانے اور نظریاتی لحاظ سے اہم شہر ناگپور پر سب کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ حکمراں اتحاد (بی جے پی، شندے سینا اور اجیت پوار کی این سی پی) کیلئے یہ الیکشن اس لحاظ سے اہم ہے کہ انہیں یہ ثابت کرنا ہے کہ اسمبلی انتخابات میں ان کی کامیابی محض اتفاق نہیں تھی۔ بی ایم سی کا معرکہ سب سے زیادہ دلچسپ ہونے والا ہے۔ سیاسی تقسیم کے بعد پیدا ہونے والی تلخیوں کے درمیان ادھو اور راج کا متحد ہونا ایک بڑی تبدیلی ہے۔ ایک طرف وہ ’مراٹھی مانوس‘ کے حقوق کی بات کر رہے ہیں لیکن ممبئی کی جیت کیلئے اب غیر مراٹھی رائے دہندگان کا اعتماد حاصل کرنا بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔ دوسری طرف ایکناتھ شندے اور بی جے پی کا اتحاد ٹھاکرے خاندان کی سیاسی اجارہ داری کو ختم کرنے کیلئے پوری طاقت لگا رہا ہے۔ ‘‘
نام ہٹادینے سے گاندھی کی وارثت ختم نہیں کی جاسکتی
مہاراشٹر ٹائمز( ۱۷۔ دسمبر )
تقریبا دو دہائیوں سے دیہی ہندوستان کے کروڑوں محروم شہریوں کو روزگار کی ضمانت اور معاشی سہارا فراہم کرنے والی مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار ضمانت اسکیم (منریگا) کو بند کر کے اس کی جگہ ایک نیا دیہی ترقیاتی قانون لانے کی مرکزی حکومت کی تجویز نے سیاسی اور سماجی حلقوں میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ اس تنازع کی سب سے نمایاں وجہ نہ صرف اسکیم کے خدوخال میں بنیادی تبدیلیاں ہیں بلکہ مہاتما گاندھی جیسے عالمی سطح پر تسلیم شدہ رہنما کے نام کو اس اسکیم سے الگ کرنے کی کوشش بھی ہے۔ مرکزی حکومت کی مجوزہ اسکیم کو’وکست بھارت:جی رام جی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ پرانی اسکیموں کے نام بدل کر انہیں نئے عنوانات دینا موجودہ حکمرانوں کی ایک مستقل حکمت عملی بن چکی ہے جس کا مقصد نہ تو پالیسی میں بہتری ہے، نہ ہی عوامی مفاد بلکہ سیاسی شناخت کی ازسرنو تشکیل ہے۔ مہاتما گاندھی کا نام ہٹانا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی محسوس ہوتا ہے۔ یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ گاندھی جی کا فلسفہ اور نظریہ محض ایک نام نہیں بلکہ ایک عالمی وراثت ہے۔ ان کے افکار نے دنیا بھر میں آزادی اور انسانی وقار کی تحریکوں کو مہمیز دی۔ ایسے میں یہ سمجھنا کہ صرف نام ہٹا دینے سے اس وراثت کو مٹایا جا سکتا ہےایک خام خیالی کے سواکچھ نہیں۔ نام کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نئی اسکیم کی بعض دفعات بھی تشویش ناک ہیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق یہ اسکیم صرف دیہی علاقوں تک محدود رہے گی، جس سےاس کے بنیادی تصور کو عملاً کمزور کر دیا گیا ہے۔ وہیں جہاں منریگا کے تحت مرکزی حکومت ۹۰؍ فیصد تک مالی ذمہ داری اٹھاتی تھی، اب نئی اسکیم میں شمال مشرقی اور ہمالیائی ریاستوں کو چھوڑ کر باقی ریاستوں کو۴۰؍ فیصد اخراجات خود برداشت کرنے ہوں گے۔ ‘‘
بے رحم اور ظالم ساہوکاروں کا دور ایک بار پھر آگیا
نوبھارت( ہندی، ۱۸؍ دسمبر )
’’آزادی کو ۷۸؍ برس گزر جانے کے باوجود ملک کا کسان آج بھی حقیقی آزادی سے محروم ہے۔ اس کی تقدیر اب تک بے رحم اور لالچی ساہوکاروں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے جو اس کی زمین پر گدھ کی طرح نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ کسان کی محنت اور پسینہ ان کیلئے محض منافع کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ اسی غیر انسانی استحصال کی ایک دل دہلا دینے والی مثال مہاراشٹر کے ضلع چندرپور میں سامنے آئی ہے جہاں ایک ساہوکار نے کسان روشن کنڈے کو ایک لاکھ روپے قرض دینے کے بعد اس پر یومیہ دس ہزار روپے کا من مانا سود عائد کردیا۔ سود در سود کا یہ ظالمانہ سلسلہ اس حد تک بڑھا کہ اصل رقم سمیت قرض کی رقم ۷۴؍ لاکھ روپے تک جا پہنچی۔ قرض کی ادائیگی کے دباؤ میں آ کر کسان نے اپنی ۲؍ ایکڑ زرعی زمین، ٹریکٹر اور دو موٹر سائیکلیں فروخت کر دیں مگر اس کے باوجود قرض کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی گیا۔ ساہوکار کے مزید دباؤ پر روشن کنڈے کو کمبوڈیا بھیجا گیا جہاں اس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر گردہ فروخت کیا۔ یہی نہیں ساہوکار اور اس کے ساتھیوں نے کسان کے ساتھ مارپیٹ بھی کی جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ بری طرح خوفزدہ کسان نے بالآخر پولیس کی یقین دہانی پر پورے معاملے کی شکایت درج کرائی جس کے بعد ساہوکار اور اس کے ساتھی گرفتار تو کر لئے گئے مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی انہیں ان جرائم کی کڑی سزا مل پائے گی؟‘‘