Inquilab Logo

فلسفی چوہا

Updated: September 02, 2023, 12:29 PM IST | Malik Shakeel | Mumbai

ایک ایسے چوہے کی کہانی جو دنیا کو قریب سے دیکھنا چاہتا ہے۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

 موسم بہار کا ایک خوبصورت دن تھا۔ درخت، پھولوں اور پھلوں سے لد گئے تھے۔ پیڑوں پر پرندے چہچہارے تھے۔ تتلیاں ایک پھول پر آجا رہی تھیں۔ ہر ایک اپنی جگہ پُرخوش اور مطمئن تھا اور زندگی کا پورا لطف اٹھا رہا تھا۔  جنگل کے قریب ہی ایک چراگاہ تھی، جہاں پر بہت سارے چوہے رہتے تھے۔ ان میں سے ایک چوہے کا نام نیمو تھا۔ کہنے کو تو یہ بھی دوسرے چوہوں جیسا ہی تھا، لیکن اس کا مزاج دوسروں سے ذرا مختلف تھا۔ اس کے دوست دیکھتے تھے کہ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا رہتا ہے۔ وہ اس سے حسد کرنے لگے کہ وہ ان سے منفرد کیوں ہے؟ دوسرے چوہے اپنی زندگی سے مطمئن تھے لیکن نیمو کی بے چین طبیعت اسے چین نہیں لینے دیتی تھی۔ وہ دریا کو اندر سے دیکھنا چاہتا تھا۔ کبھی کبھی وہ سوچنے لگتا کہ دریا میں رہنے والی بڑی مچھلی کے اوپر بیٹھ جائے گا اور پورے دریا کی سیر کرے گا۔ کبھی کبھی وہ آسمان کی طرف منہ کرتا اور سوچنے لگتا کہ دنیا تو بہت بڑی ہے اتنی بڑی کہ اس چراگاہ سے بھی بڑی اور کبھی کبھی تو اسے یوں محسوس ہونے لگتا کہ آسمان کے ستارے اسے اپنی جانب بلارہے ہیں۔ اس کے ماں باپ اس کی بے چین طبیعت کی وجہ سے بہت پریشان رہتے تھے، کیونکہ وہ دوسرے چوہوں والا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ بس بیٹھا رہتا اور گھنٹوں سوچا کرتا۔  ’’نیمو کہاں ہے؟‘‘ اس کے باپ نے ایک دن گھر میں داخل ہوتے ہی کہا۔ ’’وہ دریا کی طرف گیا ہے، مچھلی سے باتیں کرنے۔‘‘ اس کی ماں نے جواب دیا۔ ’’وہ ایک سست اور نکما چوہا ہے۔ مَیں اس کی عجیب و غریب حرکتوں سے تنگ آگیا ہوں۔ اب اگر وہ گھر آئے تو اسے کہہ دینا کہ وہ تین دن تک گھر سے باہر نہیں نکلے گا۔‘‘ اس کے باپ نے سخت لہجے میں کہا۔ ماں ہمیشہ اپنے بیٹے کا دفاع کرتی تھی، لیکن آج وہ خاموش رہی، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ نیمو کے باپ کا غصہ بہت تیز ہے اور وہ آج کچھ نہیں سنے گا۔  پورا دن گزر گیا، لیکن نیمو گھر واپس نہیں آیا۔ اس کے ماں اور باپ اسے جنگل میں ڈھونڈتے رہے اور تھک ہار کر گھر واپس آگئے۔ اس کے کچھ دیر بعد نیمو واپس آگیا۔ اسے جنگل کا عقلمند پرندہ اُلّو اپنے ساتھ لایا تھا۔ سب نے بوڑھے اُلّو کا شکریہ ادا کیا۔ اُلّو نے جاتے ہوئے نیمو کے ماں باپ سے کہا کہ، ’’وہ اپنے بیٹے کا خاص خیال رکھا کریں، کیونکہ وہ ہر وقت خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے۔‘‘ ’’لیکن خواب تو ہم سب چوہے دیکھتے ہیں۔‘‘ نیمو کے باپ نے غصے سے کہا۔ ’’تم لوگوں کی بات اور ہے۔ تم دریا میں جانے کا خواب نہیں دیکھتے۔ تم ستاروں تک پہنچنے کی تمنا نہیں کرتے، جبکہ تمہارا بیٹا یہ سب کرنا چاہتا ہے۔‘‘ ’’لیکن وہ ایسے خواب کیوں دیکھتا ہے؟‘‘ نیمو کے باپ نے پوچھا۔ ’’کیونکہ وہ تم لوگوں سے مختلف ہے۔ اسے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کا خیال رکھو ورنہ ایک دن پچھتاؤ گے۔‘‘ بوڑھے اُلّو نے یہ کہا اور اجازت لے کر بلندیوں کی جانب پرواز کر گیا۔ اب نیمو کا باپ اور اس کا خاندان پریشان ہوگیا۔ آخرکار سب نے مل کر اسے اسکول بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ نیمو نے اس اسکول کے بارے میں بہت سی کہانیاں سن رکھی تھیں۔ وہاں کا استاد بہت سخت تھا۔ چنانچہ جب نیمو کو یہ فیصلہ سنایا گیا کہ اسے صبح اسکول بھیج دیا جائے گا تو وہ بہت پریشان ہوا۔ رات جب وہ سونے کے لئے لیٹا تو اس کے ذہن میں ایک ہی خیال بار بار آ رہا تھا کہ میرے خوابوں کا کیا ہوگا؟ کیا میں ستاروں سے باتیں کرسکوں گا؟ کیا مَیں مچھلی کو دوبارہ دیکھ سکوں گا؟ یہ سوالات اُسے بار بار تنگ کر رہے تھے۔ اب اس کے سامنے دو ہی راستے تھے کہ یا تو وہ اسکول چلا جائے جہاں اس کے خوابوں کو پورا ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے گا یا پھر وہ یہ چراگاہ چھوڑ دے۔  کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے ایک اہم فیصلہ کیا۔ وہ اپنے خوابوں کی قربانی نہیں دے سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے یہ چراگاہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اور آدھی رات کے قریب سب کو سوتا چھوڑ کر وہ ایک نئے سفر پر چل پڑا۔  وہ ساری رات چلتا رہا۔ صبح کے قریب اس نے دیکھا کہ وہ ایک بالکل نئی جگہ پر پہنچ گیا ہے۔ چراگاہ بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ اب وہ کچھ پریشان بھی تھا۔ چلتے چلتے ایک درخت کے نیچے رکا کہ اب اُسے کیا کرنا چاہئے۔ ابھی وہ درخت کے نیچے کھڑا ہی ہوا تھا کہ اچانک کسی نے اُس پر حملہ کر دیا۔ اس نے سنبھلنے کی کوشش کی لیکن کچھ نہ کرسکا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ کسی بلی کے منہ میں آچکا ہے اور وہ اُسے لے کر دوڑ رہی ہے۔ بے بسی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بلی ایک ایسی جگہ پہنچی جہاں پہلے ہی سے ایک موٹی تازی بلی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس بلی نے نیمو کو اس بلی کے سامنے ڈال دیا لیکن اپنی ایک ٹانگ اس کے اوپر رکھ دی تاکہ وہ بھاگنے نہ پائے۔  ’’دیکھو، پنکی! مَیں تمہاری لئے کیسا شکار لائی ہوں؟‘‘ اس بلی نےہنستے ہوئے موٹی بلی کو مخاطب کیا۔  نیمو نے بے بسی سے پنکی کی طرف دیکھا، جو خونخوار نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔  ’’ارے یہ تو ایک نوالہ بھی نہیں چلو خیر، کچھ نہ کھانے سے کچھ کھا لینا ہی بہتر ہے۔‘‘ یہ کہہ کر پنکی نے نیمو کی طرف منہ بڑھایا تو اسے ایک سسکتی ہوئی آواز سنائی دی، ’’اب میرے خوابوں کا کیا ہوگا۔‘‘ پنکی یہ سن کر پیچھے ہٹ گئی۔ اب اس کی آنکھوں میں درندگی کے بجائے حیرت تھی۔  ’’کون سے خواب ہیں تمہارے؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔ ’’اب کیا فائدہ؟‘‘ نیمو پھیکی ہنسی سے بولا۔ تاہم، اُسے حیرت ہوئی کہ بلی نے اُسے زندہ کیوں چھوڑ دیا۔ پنکی نے دوسری بلی کو وہاں سے جانے کو کہا پھر وہ نیمو سے مخاطب ہوئی۔ ’’کیا نام ہے تمہارا؟‘‘ ’’نیمو۔‘‘ جواب ملا۔ ’’کہاں سے آئے ہو؟‘‘ ’’جنگل کی دوسری طرف والی چراگاہ سے۔‘‘ ’’یہاں کیا کرنے آئے ہو؟‘‘ پنکی نے پوچھا۔ ’’کون سے خواب ہیں تمہارے؟‘‘ پنکی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’مَیں اس دنیا کو قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’کوئی فائدہ نہیں۔ اچھا تھا تم وہیں رہتے۔ جو چیزیں دور سے خوشنما نظر آتی ہیں، نزدیک آنے پر وہ ایک ڈراؤنا خواب بن جاتی ہیں۔‘‘ پنکی نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔  ’’تمہارے کہنے پر مَیں اپنا ارادہ نہیں بدلوں گا۔‘‘ نیمو نے ایک عزم سے کہا۔ ’’ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔‘‘ لیکن یاد رکھو اس دنیا میں تمہیں ہر طرف نفرت ملے گی۔ دھوکے باز ملیں گے۔ قدم قدم پر ظالم لوگوں سے تمہارا سامنا ہوگا۔ اگرچہ اچھے لوگ بھی ہیں لیکن برے لوگ بہت زیادہ ہیں۔ ان کے مقابلے میں یہ اچھے لوگ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔‘‘ یہ کہہ کر بلی نے کہا، ’’رات ہوگئی ہے۔ تم سو جاؤ۔ مَیں تمہیں نہیں کھاؤں گی۔‘‘  نیمو نے رات وہاں گزاری۔ صبح اٹھ کر جب وہ جانے لگا تو پنکی نے اُس سے پوچھا، ’’کیا تم اب بھی اس دنیا کو دیکھنا چاہتے ہو؟‘‘ ’’ہاں!‘‘ نیمو کے لہجے میں اعتماد اب بھی جھلک رہا تھا۔ ’’ٹھیک ہے تو پھر میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔ تم ابھی چھوٹے ہو۔ کوئی تمہیں نقصان نہ پہنچا دے۔‘‘ پنکی نے کہا۔ ’’کیا.... کیا کہا؟‘‘ نیمو کی حیرت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، ’’تم بھی دنیا دیکھو گی۔‘‘ اسے اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔ ’’ہاں کچھ تو میں دیکھی چکی ہوں باقی تمہارے ساتھ دیکھ لوں گی۔‘‘ بلی کے اس جواب پر نیمو نے خوشی سے اس کا منہ چوم لیا۔ یہ غالباً تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ دو بدترین دشمن ایک دوسرے کے دوست بن چکے تھے۔  پنکی اور نیمو نے دنیا دیکھنے کے سلسلے میں اپنا پہلا قدم اٹھایا اور پھر آگے بڑھتے چلے گئے۔ پنکی تو کافی حد تک اس دنیا کے بارے میں جانتی تھی، نیمو کو قدم قدم پر حیرت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ نیمو کو پنکی نے اپنی پیٹھ پر بٹھایا ہوا تھا تاکہ وہ ہر طرح سے محفوظ رہے۔ وہ دن بھر اسی طرح گھومتے رہے۔ اب نیمو جی بھر کے ستاروں سے باتیں کرتا۔ دریا کنارے مچھلیاں دیکھتا اور سیر و تفریح کرتا۔ اب اسے روکنے والا کوئی نہیں تھا۔  ایک دن دریا کے کنارے وہ ایک مچھلی سے باتیں کر رہا تھا کہ قریب جنگل سے اُسے کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔ جب وہ اس جگہ پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ایک شیر وہاں پر بندھا ہوا ہے۔ ا س نے شیر سے قید ہونے کی وجہ پوچھی تو شیر نے بتایا کہ یہاں شکاریوں نے جال بچھایا ہوا تھا۔ اب میں اس میں پھنس گیا ہوں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے۔‘‘  ’’مَیں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ میں ان شکاریوں کے آنے سے پہلے ہی تم کو آزاد کرا لوں گا۔‘‘ نیمو نے شیر کا حوصلہ بڑھایا۔ ’’تمہارا بہت بہت شکریہ میرے ننھے دوست، لیکن یہ رسیاں بہت مضبوط ہیں۔ تم انہیں نہیں کھول سکتے۔‘‘ شیر نے کہا۔ ’’نہیں میرے دوست۔ مایوس مت ہو۔ مجھے دیکھو۔ مَیں تم سے کتنا چھوٹا ہوں لیکن میں مایوس نہیں ہوں۔ میں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ مَیں تم کو ضرور آزاد کرا لوں گا۔ میرے دانت بہت تیز ہیں۔‘‘  اب نیمو نے اپنے نوکیلے دانتوں سے رسیاں کاٹنی شروع کر دیں۔ تھوڑی دیر بعد اس کی ساتھی بلی پنکی بھی وہاں آگئی۔ دونوں نے مل کر شیر کو آزاد کرانے کی کوششیں شروع کردیں۔ آخرکار ان کی کوشش کامیاب ہوئی۔ شیر آزاد ہوگیا۔ اس نے ان دونوں سے کہا کہ، ’’وہ اس خوشی میں ایک جشن کرے گا جس میں ان دونوں کو شریک ہونا پڑے گا۔‘‘  دوسرے دن جنگل کے تمام جانور اکٹھے ہوئے۔ نیمو اور پنکی بھی موجود تھے۔ تمام جانوروں نے باری باری شیر کی جان بچانے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر دونوں دوستوں کے گلے میں ہار ڈالے گئے۔  اب شیر نے نیمو سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے اپنی کہانی سنائی۔ شیر نے اس کی کہانی دلچسپی سے سنی اور بولا، ’’فکر نہ کرو۔ اب میں تمہیں گھر پہنچا کر آؤں گا۔‘‘ نیمو ابھی گھر نہیں جانا چاہتا تھا مگر شیر کے اصرار پر بلی کے کہنے پر وہ رضا مند ہوگیا۔ اسے یہ یقین دلایا گیا کہ اگر کسی نے اسے دوبارہ تنگ کیا تو وہ سب اس کی مدد کریں گے۔ چنانچہ یہ سب لوگ اسے لے کر چراگاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ شیر نے نیمو اور پنکی کو اپنے کاندھے پر بٹھا رکھا تھا۔ نیمو کے ماں باپ کا اس کی جدائی میں برا حال تھا۔ انہوں نے جیسے ہی اسے دیکھا تو ان کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے اور انہوں نے اسے گلے سے لگالیا۔ شیر نے کہا کہ نیمو ایک ذہین چوہا ہے۔ اس پر جبر اور زبردستی نہ کی جائے۔ اس کے ماں باپ نے شیر سے وعدہ کیا کہ وہ نیمو کا خیال رکھیں گے۔  نیمو اب بھی اکثر دریا پر چلا جاتا ہے جہاں وہ گھنٹوں مچھلیوں کے ساتھ باتیں کرتا ہے اور جب رات ہوتی ہے تو ستارے اس کے راز دار بن جاتے ہیں۔ اب کوئی اُس کا مذاق نہیں اُڑاتا۔ اور نہ ہی اُس کی تنہائی میں دخل اندازی کرتا ہے۔ اسکا جب دل چاہتا ہے وہ دنیا دیکھنے کیلئے اپنی دوست بلی پنکی کے ساتھ نکل پڑتا ہے۔ اب اس کے ماں باپ اُس کو ڈانٹتے نہیں ہیں، لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ انسانوں کی دنیا کو دیکھ کر واپس اپنی چراگاہ میں آتا ہے تو کئی دن تک پریشان رہتا ہے۔ اس کی وجہ کوئی نہیں جان سکا۔  کیوں پیارے بچو! آپ کو کیا لگتا ہے۔ کہیں ہم میں تو کوئی خامی نہیں۔ یہ بات ہمیں اپنے آپ سے ضرور پوچھنی چاہئے اور اگر کوئی خامی ہے تو اسے ضرور دور کرلینا چاہئے تاکہ سب ہمیں اچھا انسان کہہ سکیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK