اسرائیل غزہ کے فلسطینیوں کو جنوبی غزہ کے ایک علاقے تک محدود کرنا چاہتا ہے جسے وہ ’’انسانی ہمدردی کا شہر‘‘ قرار دیتا ہے۔ تاہم، اسرائیلی اپوزیشن اور فوج کی زبردست مخالفت نیز عالمی مذمت کے سبب اسرائیل کا یہ منصوبہ خاک میں مل گیا ہے۔
EPAPER
Updated: July 14, 2025, 9:56 PM IST | Tal Aviv
اسرائیل غزہ کے فلسطینیوں کو جنوبی غزہ کے ایک علاقے تک محدود کرنا چاہتا ہے جسے وہ ’’انسانی ہمدردی کا شہر‘‘ قرار دیتا ہے۔ تاہم، اسرائیلی اپوزیشن اور فوج کی زبردست مخالفت نیز عالمی مذمت کے سبب اسرائیل کا یہ منصوبہ خاک میں مل گیا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق جنوبی غزہ میں فلسطینیوں کیلئے ’’انسانی ہمدردی کا شہر‘‘ تعمیر کرنے کا اسرائیلی منصوبہ اس کی ہی فوج کی مخالفت کے سبب بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے گزشتہ ہفتے غزہ کی تمام آبادی کو رفح شہر کے کھنڈرات پر واقع ایک نئے زون میں منتقل کرنے کے منصوبے کی اعلان کیا۔ وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کے مطابق غزہ کے فلسطینی باشندوں کو نئے زون میں رکھا جائے گا اور وہاں سے انہیں غزہ سے دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ اس متنازع منصوبے نے عالمی غم و غصے کو جنم دیا ہے، اقوام متحدہ اور حقوق کے گروپوں نے اس کی مذمت کی ہے، کیونکہ یہ فلسطینیوں کی جبری منتقلی کے مترادف ہے۔ اسرائیلی حزب اختلاف کے لیڈروں نے بھی اس منصوبے کی مذمت کی ہے، جس کی لاگت کا تخمینہ ۴؍ بلین ڈالر ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ تجویز فلسطینیوں کو ’’حراستی کیمپ‘‘ میں قید کرنے کے مترادف ہوگی۔
اسرائیلی فوج نے بھی اس منصوبے پر اعتراض کیا کیونکہ اس سے غزہ میں جنگ بندی اور فلسطینیوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے کی جاری کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ اسرائیلی چینل ۱۲؍ کے مطابق، اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے اتوار کی رات کابینہ کا ایک اجلاس منعقد کیا جس کے دوران انہوں نے اس منصوبے کو ’’خارج‘‘ کر دیا۔ نیتن یاہو نے چیف آف اسٹاف ایال ضمیر کو بتایا کہ ’’میں نے ایک حقیقت پسندانہ منصوبہ بنانے اور کل تک ایک سستا اور تیز تر متبادل تیار کرنے پر زور دیا۔
میٹنگ کے دوران، ضمیر کی نیتن یاہو اور ان کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزلیل اسموٹریچ کے ساتھ اس منصوبے پر جھڑپ ہوئی، اور خبردار کیا کہ یہ تجویز غزہ میں فوج کے بنیادی مقاصد کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اسرائیلی فوج کا موقف ہے کہ مجوزہ شہر کی تعمیر میں فلسطینیوں کو اپنے اندر مرکوز کرنے میں کئی ماہ اور ممکنہ طور پر ایک سال تک کا وقت لگے گا۔ فوج کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ فلسطینی گروپ حماس اس منصوبے کو جزوی معاہدے پر عمل کرنے اور جنگ بندی کے بعد دوبارہ جنگ شروع کرنے کے اسرائیلی فیصلے سے تعبیر کرے گا۔ خیال رہے کہ اسرائیل کو انکلیو پر جنگ کیلئے عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمے کا بھی سامنا ہے۔