• Wed, 15 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مختصر کہانی: ایئر کولر بے آواز

Updated: October 14, 2025, 4:14 PM IST | Saeed Ahmed | Mumbai

یہ واقعہ چند ہفتے پہلے کا ہے کہ تائی جان مع اپنے خاندان کے ساتھ ہمارے یہاں تشریف لائیں۔ ان کا ارادہ تاریخی مقامات کی سیر کرنا تھا اور ٹھہرنے کا پروگرام بھی تھوڑے ہی عرصے کا تھا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این
یہ واقعہ چند ہفتے پہلے کا ہے کہ تائی جان مع اپنے خاندان کے ساتھ ہمارے یہاں تشریف لائیں۔ ان کا ارادہ تاریخی مقامات کی سیر کرنا تھا اور ٹھہرنے کا پروگرام بھی تھوڑے ہی عرصے کا تھا۔
ایک تو صاحب ہمارا گھر بڑا مختصر سا۔ لے دے کر دو کمرے سامنے برآمدہ اور ایک باورچی خانہ۔ لیکن جناب ان کے گھر کے افراد اتنے تھے کہ کچھ لوگوں کو فرش پر ہی سونا پڑا جن میں خود مَیں بھی شامل تھا۔ مگر جناب اکیلا نہیں ہمارے ساتھ ان کے منو، چنو اور گڈو بھی سوئے تھے۔ اور صاحب ان کے گڈو میاں تو بروس لی کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ بس سوئے سوئے ایک کک مجھ کو ایسی رسید کرتے کی کہ مَیں کراہ کر رہ جاتا تھا مگر مَیں کرتا بھی کیا مہمانوں کی عزت کرنا ہر میزبان کا فرض ہوتا ہے۔ بس اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ضبط کر لیا کرتے۔
ایک دن کا واقعہ ہے کہ گڈو صاحب رات کے تقریباً سارھے بارہ بجے کہنے لگے پانی پینا ہے۔ ہم بادل نخواستہ اٹھے اور اندازہ کے مطابق بجلی کا سوئچ آن کر دیا مگر بلب نہ جلا شاید بجلی نہیں تھی۔ خیر ہم نے اندھیرے میں ٹٹول کر گھڑا تلاش کر لیا اور گلاس میں انڈیل کر دے دیا۔ پانی پینے کے بعد وہ آرام سے سو گئے مگر سردی میں اضافہ ہوگیا اور پھر سب لوگ اپنے بستر میں سمٹ گئے۔
ہم منو، چنو اور گڈو اپنی اکلوتی رضائی کو اپنے اوپر فٹ کرنے کی کوشش کرنے لگے مگر پھر بھی کبھی پاؤں یا ہاتھ باہر رہ ہی جاتا۔
تائی بولیں، ارے سعید دیکھو کوئی روشن دان یا کھڑکی تو کھلی نہیں رہ گئی۔‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں تائی جان۔‘‘
خیر رات تو جیسے تیسے گزری مگر دو کو نمونیا ہوگیا۔ دو کو شدید سَر درد اور باقیوں کو سخت نزلہ و زکام۔ صبح کی روشنی پھیلی تو ابو جان اپنے بستر سے بولے، ’’ارے بھئی کوئی تو اٹھو ذرا چائے بنا دو۔ آج تو سردی نے حد کر دی ہے۔‘‘
مَیں نے بھی لحاف سے منہ نکالا تو اچانک میری نظر سوئچ بورڈ پر پڑی تو میری ہنسی نکل گئی۔ اتنے میں میرے ابو میرے پاس سے گزرے تو مجھے ہنستا ہوا دیکھ کر بولے، ’’سعید تم کیوں ہنس رہے ہو؟ سب لوگ سردی سے مرے جا رہے ہیں اور تمہیں ہنسی آرہی ہے۔‘‘ مَیں نے ابو کو بلا کر کہا، ’’ایئر کولر بے آواز۔‘‘ ابو کے ساتھ سب کی نظر ایک ساتھ سوئچ بورڈ پر پڑی تو وہاں بلب کے بجائے ایئر کولر کا سوئچ آن تھا۔ ابو نے مجھے غصیلی نظروں سے دیکھا تو مَیں نے بھاگ کر ماموں کے گھر پناہ لی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK