انہوں نے یورپ اور برطانیہ کا سفر کیا اور وہاں کے تعلیمی اداروں کو دیکھنے کے بعد ہندوستان میں بھی اسی قسم کی درسگاہ شروع کرنے کا ارادہ کیا، ان کا خیال تھا کہ ملک میں اس قسم کا تعلیمی ادارہ قائم کرنے پر وہاں مختلف مذاہب کے طلبہ ایک ساتھ رہیں گے۔
EPAPER
Updated: December 10, 2019, 3:45 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai
انہوں نے یورپ اور برطانیہ کا سفر کیا اور وہاں کے تعلیمی اداروں کو دیکھنے کے بعد ہندوستان میں بھی اسی قسم کی درسگاہ شروع کرنے کا ارادہ کیا، ان کا خیال تھا کہ ملک میں اس قسم کا تعلیمی ادارہ قائم کرنے پر وہاں مختلف مذاہب کے طلبہ ایک ساتھ رہیں گے۔
سرسید احمد خاں نے اپنے مضمون ’’اپنی مدد آپ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔‘‘ یہ ایک نہایت عمدہ اور آزمودہ قول ہے۔ اس چھوٹے سے فقرے میں انسانوں کا، قوموں کا اور نسلوں کا تجربہ جمع ہے۔ ایک شخص میں اپنی مدد کرنے کا جوش اس کی سچی ترقی کی بنیاد ہے اور یہی جوش جب بہت سے افراد میں پایا جاتا ہے تو قوم ترقی کرتی ہے، ملک ترقی کرتا ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان میں ہندوستانیوں کی حیثیت ایک محکوم کی سی ہو کر رہ گئی تھی۔ یہاں تعلیم کی کمی تھی۔ لوگوں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بہت کم تھا۔ ایسے میں بہت سے لیڈران نے تعلیم کی اہمیت پر زورد یا، ان میں سب سے آگے سر سید احمد خاں تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی مسلمانوں کی تعلیم کیلئے وقف کردی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر قوم کو ترقی کرنی ہے اور معاشرے کے دیگر طبقات سے قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے تو اسے لازمی طور پر تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مذہب کے ساتھ ساتھ جدید علوم کے حصول کیلئے ہندوستانیوں، خاص طور پر مسلمانوں کو آمادہ کیا۔ ایسے حالات میں جب ہر جانب افراتفری کا ماحول تھا، ہندوستانیوں کی جانوں کو کوئی تحفظ نہیں حاصل تھا، ان کے مستقبل کے بارے میں حکومت غیر سنجیدہ تھی، ایسے حالات میں فکری اور ذہنی سطح پر ان کو ایک قوم ہونے کا احساس دلانے اور ایک قوم کے طور پر زندگی گزارنے کا سبق دینے والے سرسید احمد خاں کے سامنے کئی بڑے چیلنجز تھے۔ کئی لوگوں نے ان کی مخالفت بھی کی۔ علی گڑھ سے سر سید احمد خاں کا کوئی خاص تعلق نہیں تھا، اس کے باوجود انہوں نے ایک درسگاہ کے قیام کیلئے اسے ایک بہترین مقام خیال کرتے ہوئے ۱۸۷۵ء میں ’’محمڈن اینگلو اورینٹل کالج‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہی درسگاہ آگے ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ میں تبدیل ہوگئی۔ اس دوران انہوں نے تعلیم کے تعلق سے کئی مضامین اور مقالے بھی لکھے ۔ سر سید احمد خاں جب لندن گئے ، وہاں کے تعلیمی اداروں کو دیکھا تو انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہندوستان میں بھی اس قسم کا تعلیمی ادارہ (بورڈنگ اسکول) قائم کیا جائے جہاں مختلف مذاہب کے طلبہ ایک ساتھ رہیں، ایک دوسرے کے ساتھ ا چھے تعلقات قائم ہوں اور وہ بحیثیت مجموعی ایک قوم کے ایک ہی چھت کے نیچے پروان چڑھیں۔
اس دوران سرسید احمد خاں نے ملک کے مختلف شہروں کا دورہ کیا، مقامی لوگوں اور صاحبان علم و فن سے ملاقاتیں کیں۔ اگر ان کو کہیں ٹھہرانے کی بات ہوتی تو وہ کہتے یہ رقم تعلیمی ادارے کیلئے دے دیں۔ اگر گھر میں دعوت کا اہتمام کیا جاتا تو کہتے کہ یہ بھی تعلیم وتربیت کے فروغ کیلئے عطیہ کر دیں۔ سرسید احمد خاں طلبہ سے کی جانے والی اپنی تقاریر میں کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں کی بقا صرف جدید تعلیم کے حصول میں ہے۔ لندن سے واپس آکر انہوں نے ایک رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ جاری کیا۔ اس رسالہ کے ذریعہ انہوں نے قوم کو مغربی تعلیم کی اہمیت سے روشناس کروایا۔ سرسید احمد خاں نے اس رسالے میں ’’گزر اہوا زمانہ’’ لکھا، جس میں انہوں نے نوجوانو ں کو قومی بھلائی کے کاموں پر آمادہ کیا۔ انہوں نے تہذیب الاخلاق میں نہایت عام فہم اورشگفتہ زبان میں مضامین لکھے ۔
انہوں نے ’’بحث و تکرار‘‘ نامی اپنے مضمون میں بتایا ہے کہ جس طرح کتے ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے پر غراتے ہیں، دانت نکالتے ہیں، نتھنے پھلاتے ہیں، بھونکتے ہیں اور جو کمزور ہوتا ہے وہ دُم دبا کر بھاگ جاتا ہے اسی طرح ان پڑھ اور جاہل آدمیوں کی محفل میں ہوتا ہے۔ آکر بیٹھ جاتے ہیں، بات چیت ہوتی ہے، لہجہ تیزہوتا ہے،پھر تکرار بڑھ جاتی ہے اور ہاتھا پائی ہوتی ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ بات چیت کے دوران تہذیب کا دامن نہ چھوڑ ے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلمان جب تک علم جدید کی طرف راغب نہیں ہوں گے تب تک کامیابی نہیں ملے گی۔ سرسید کے نزدیک مذہب ان اخلاقی اور روحانی قدروں سے پہچانا جاتا ہے جو انسانیت ، خدمت خلق ، باہمی محبت، ایثار و قربانی اور انصاف کو عام کرتی ہیں۔ انہوں اپنی پوری زندگی تعلیم کو عام کرنے اور توہم پرستی کو دور کرنے میں صرف کی۔
سرسید احمد خاں کی تعلیمی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ ’’سرسید نے اپنی پوری قوت جدید تعلیم کی طرف مرکوز کر دی اور اپنی قوم کو ہم نوا بنانے کی کوشش کی۔ وہ اپنی قوم کو کسی دوسری طرف متوجہ ہونے نہیں دینا چاہتے تھے کیونکہ یہ ایک مشکل کام تھا اور مسلمانو ں کی ہچکچاہٹ دور کرنا اور مشکل تھا۔‘‘ سرسید نے تعلیم ہی کو کامیابی کی کنجی تصور کیا اور وہ تعلیم ہی کو برائی بھلائی میں تمیز کرنے، ایجادات و اختراعات کو سمجھنے اور اخلاق وکردار کی اصلاح کا ذریعہ سمجھتے تھے۔۱۸۶۴ء میں سر سید احمد خاں نے ’’ٹرانسلیشن سوسائٹی‘‘ قائم کی جو آگے چل کر ’’سائنٹفک سوسائٹی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی جس کے واسطے سے وہ مغربی اقوام کے علم و ادب سے مشرق کے بے شمار لوگوں کو روشناس کرانا چاہتے تھے۔ یہ سوسائٹی سر سیداحمد خاں کے ساتھ علی گڑھ منتقل ہوگئی۔ اس دور میں سیداحمد نے ایک ہی نعرہ وضع کیا: ’’تعلیم حاصل کرو،’’تعلیم حاصل کرو،’’تعلیم حاصل کرو۔‘‘
۔ ہم (ہند و اور مسلمان) ایک ہی اناج کھاتے ہیں، ایک ہی دریاکا پانی پیتے ہیں اور ایک ہی ہوا میں سانس لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان ہندوستان نامی دلہن کی ۲؍ خوبصورت آنکھیں ہیں۔ کسی ایک کی کمزوری سے دلہن کی خوبصورتی ماند پڑ جائے گی۔
۔ ہر ترقی کی بنیاد تعلیم ہے۔ اگر کسی قوم کو ترقی کرنی ہے تو اسے معلومات کے خزانے پر قبضہ کرنا ہوگا۔
ژ قوم کو ترقی کرنے کیلئے ایک اور چیز پر دھیان رکھنا ہوگا، اور وہ ہے بھائی چارہ اور ملک کے تمام لوگوں سے اتحاد۔ ہر شخص کو چاہئے کہ وہ ملک میں اتحاد کی فضا قائم رکھے۔
۔ ہمیشہ وہ کام کرو جس کیلئے تمہارا دل گواہی دے کہ یہ صحیح ہے، وہ کام نہ کرو جس کیلئے تمہارا دل آمادہ نہ ہوتا ہو۔
۔ ہمیشہ آگے بڑھتے رہو۔ جدید تعلیم حاصل کرو۔ لوگوں کے قدم سے قدم ملا کر چلتے رہو۔
ملک کی ترقی افراد کے کام کے تئیں دیانتداری اور لوگوں کے تئیں ہمدردی کا مجموعہ ہے۔ اسی طرح کسی ملک کی تنزلی افراد کی سستی، کاہلی، بد دیانتی اور خودغرضی کا مجموعہ ہے۔
۔ انسان اپنا خود سب سے بڑا استاد ہوتا ہے۔
۔ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور اسے ایک بہتر جگہ بنانے کیلئے ہر شہری ذمہ دار ہے۔ اس لئے بلا امتیاز نسل اور مذہب انسان کو اپنے ملک کو بہتر بنانے کی جانب توجہ دینی چاہئے۔
۔ جب تک ہم ترقی نہیں کرتے اور جدید علوم حاصل نہیں کرتے ہمیں یونہی مسترد کیا جاتا رہے گا۔