Inquilab Logo Happiest Places to Work

اپنے وطن میں ہی اجنبی!

Updated: July 16, 2025, 1:20 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

وزیر اعظم مودی نے ۲۰۱۴ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب کا آغاز سنسکرت اصطلاح ’واسودیوا کٹمبکم‘ سے کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستانی اپنی قدیم تہذیبی روایت کے مطابق ساری دنیاکو ایک خاندان سمجھتے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ اسی ملک میں حقیقی کنبہ کے اراکین کے ساتھ لسانی، مذہبی یا علاقائی شناخت کی وجہ سے امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ہندوستان جنت نشان میں  اس وقت ہو کیا رہا ہے؟ ملک کے مختلف حصوں  میں  مقیم مغربی بنگال کے مہاجر مزدوروں  کی دھر پکڑ کیوں  ہورہی ہے؟ ان پر بنگلہ دیشی ہونے کا جھوٹا الزام کیوں  لگایا جارہا ہے؟ ان بدنصیبوں  کا جرم کیا ہے؟ کیا غریبی اوربے روزگاری ان کا جرم ہے؟ کیا بنگلہ زبان بولنا ان کا جرم ہے؟ کسی بھی ہندوستانی شہری کو ملک کے آئین نے یہ حق دے رکھا ہے کہ وہ تعلیم، روزگار، علاج، سیاحت یا کسی بھی مقصد کے لئے یا بلا مقصد بھی ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں  بلا روک ٹھوک جاسکتا ہے۔ بمبئی، دلی اور بنگلور جیسے شہروں  میں  پورے ہندوستان سے ہر دن لاکھوں  لوگ حصول معاش کے لئے آتے ہیں ۔ کسی بھی شہر میں  کسی اور صوبے کے لوگوں  کو نشانہ نہیں  بنایا جارہا ہے۔ اس کا کیا نتیجہ اخذ کیا جائے کہ بنگالی اور خصوصاً بنگالی مسلمان ہونا ایک عذاب ہوگیا ہے؟
امریکہ میں  ڈونالڈ ٹرمپ جب غیرملکی باشندوں  کو گرفتار کرکے ڈیپورٹ کرتے ہیں  تو خود انصاف پسند امریکی شہری اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں  لیکن ہندوستان میں  اپنے شہریوں  کے ساتھ ہی ہورہے ناروا سلوک کے خلاف کوئی احتجاج نہیں  ہورہا ہے۔ عام ہندوستانیوں  کی اس بے حسی پر ہمیں  حیرت نہیں  ہے کیونکہ انہوں  نے ہوا کا رخ پہچان لیا ہے اور وہ اپنے کام سے کام رکھنے میں  ہی عافیت سمجھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ پچھلی ایک دہائی میں  ہندوستانیوں  کا اس طرح برین واش کردیا گیا ہے کہ انہیں  اب ایک مخصوص مذہبی شناخت کے لوگوں  کے ساتھ کی جارہی سرکاری زیادتی یا انفرادی ہراسانی پر ہمدردی نہیں  مسرت ہوتی ہے۔کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیاں  بھی حکومت کی زیادتیوں  پر تنقید کرنے سے انتخابی مجبوریوں  کی وجہ سے بچتی ہیں ۔ پچھلے جمعے کوکلکتہ ہائی کورٹ نے مرکزی وزارت داخلہ سے دلی پولیس کے ذریعہ چھ لوگوں  کو بنگلہ دیش ڈیپورٹ کرنے کی کاروائی پر رپورٹ طلب کی ہے۔ یہ لوگ بنگال کے بیر بھوم ضلع کے باشندہ ہیں ۔ ان لوگوں  نے اپنے آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی اور زمین کی ملکیت کے دستاویز تک پولیس کو دکھائے لیکن پولیس نے ان کی ایک نہ سنی اور انہیں  غیر قانونی گھس پیٹھیا کہہ کر بنگلہ دیش میں  زبردستی دھکیل دیا۔
دلی میں  بنگلہ بولنے والوں  کو دوسرے طریقوں  سے بھی پریشان کیا جارہا ہے۔ وسنت کنج میں  جے ہند کیمپ کی جھگیوں  میں  بنگال سے آئے ہوئے محنت کش طبقہ کے پانچ ہزار سے زیادہ لوگ ایک عرصے سے رہائش پزیر ہیں ۔ پچھلے ہفتے دلی حکومت نے اچانک ان کے گھروں  کی بجلی کی لائنیں  کاٹ دیں ۔ ان مفلوک الحال لوگوں  کے پاس تمام دستاویزات موجود ہیں  جن سے ان کی شہریت کی تصدیق ہوتی ہے پھر بھی انہیں   اجاڑنے کی تیاریاں  کی جارہی ہیں ۔ ایک وقت تھا جب بی جے پی کا دلی میں  یہ نعرہ تھا کہ ’’جہاں  جھگی وہاں  مکان۔‘‘ آج بی جے پی جھگیاں  تو اجاڑ رہی ہے لیکن ان کے مکینوں  کو متبادل رہائش فراہم نہیں  کررہی ہے۔بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی   نے ایکس پر دعویٰ کیا کہ مہاراشٹر، گجرات، اڑیسہ اور مدھیہ پردیش کے بعد اب راجدھانی دلی میں  بھی بنگالیوں  پر زمین تنگ کی جارہی ہے۔ ممتا کے مطابق دلی میں  بنگلہ بولنے والے لوگوں  کو targeted persecution (چن چن کر ظلم و ستم)کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
 پچھلے ہفتے اڑیسہ میں  بھی تقریباً ساڑھے چار سو بنگالی باشندوں  کو بنگلہ دیشی ہونے کے شبہ میں  گرفتار کرلیا گیا۔ کلکتہ ہائی کورٹ کی مداخلت پر تقریباً چار سو لوگوں  کو رہا کردیا گیا۔ابھی بھی جو لوگ زیر حراست ہیں  ان میں  ندیا ضلع کے دو افراد بھی ہیں  جنہیں  تصدیق شدہ دستاویزات کے باوجود غیر قانونی طریقے میں  سے حراست میں  رکھا ہوا ہے صرف اسلئے کہ ان کے فون میں  بنگلہ دیش کا ایک نمبر پایا گیا۔ مغربی بنگال کے بے شمار لوگوں  کے رشتہ دار بنگلہ دیش میں  رہتے ہیں  اس لئے ان کے فون میں  ان کے نمبروں  کی موجودگی فطری ہے۔بنگلہ دیش ہمسایہ ملک ہے کوئی دشمن نہیں  ہے۔ اگر دشمن ملک بھی ہوتا توبھی کسی رشتہ دار کے فون نمبر کی ہندوستانی شہری کے فون میں  موجودگی قانوناً جرم کیسے ہوتی؟
چلئے مان لیتے ہیں  کہ بنگلہ زبان بولنے کی وجہ سے دلی پولیس کو مغربی بنگال کے باشندوں  پر بنگلہ دیشی ہونے کا مغالطہ ہوسکتا ہے۔ لیکن جب شہریت کے تمام ثبوت دکھانے کے باوجود اگر پولیس اس بات پر اڑی رہے کہ وہ بنگلہ دیشی ہے تو پھریہ مغالطہ نہیں  مخاصمت ہے۔ایک بات اور! بنگلہ دیش کی بنگلہ اور ہندوستان کی بنگلہ زبان میں  نمایاں  فرق ہے۔ بنگلہ دیشی لب و لہجہ بنگال کے لب و لہجہ سے الگ ہے اور اس انفرادیت کی نشاندہی کیلئے اسے’’ ڈھاکایا بانگلہ‘‘  کہتے ہیں ۔اگر دلی یا اڑیسہ کی پولیس نے بنگلہ زبان جاننے والے کسی سرکاری اہلکارکی مدد حاصل کی ہوتی تو انہیں  یہ فوراً پتہ چل جاتا کہ جن لوگوں  کو گرفتار کیا گیا ہے وہ بنگلہ دیشی نہیں  ہندوستان کے بنگالی شہری  ہیں ۔  

یہ بھی پڑھئے : غزہ اور اہل غزہ میں دوبارہ جی اُٹھنے کی قوت ہے

وزیر اعظم مودی نے  ستمبر ۲۰۱۴ء  میں  اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں  اپنے پہلے خطاب کا آغاز سنسکرت اصطلاح ’’واسودیوا کٹمبکم‘‘ سے کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستانی اپنی قدیم تہذیبی روایت کے مطابق ساری دنیاکو ایک خاندان سمجھتے ہیں ۔ پچھلے گیارہ برسوں  سے مودی جی باربار دنیا کو یہ باور کرارہے ہیں  کہ ہندوستان عالمی اخوت میں  یقین رکھتا ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ جس ملک کا یہ عقیدہ ہے کہ ساری دنیا ایک کنبہ ہے اسی ملک میں  حقیقی کنبہ کے ہم وطن اراکین کے ساتھ لسانی، مذہبی یا علاقائی شناخت کی وجہ سے امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔
پس نوشت: دلی اوربی جے پی کے زیر اقتدار صوبوں  میں  بنگالیوں  پر ہورہے سرکاری مظالم کے خلاف آج کلکتہ میں  ممتا بنرجی ایک بڑے احتجاجی مظاہرہ کی قیادت کرنے والی ہیں ۔ ممتا کے اس الزام میں  خواہ جتنی بھی صداقت ہو کہ بی جے پی بنگالی شہریوں  کے ساتھ متعصبانہ سلوک کررہی ہے، دیدی کو بھی اپنے محاسبہ کی ضرورت ہے۔ مرشد آباد، مالدہ، دیناج پور، کوچ بہار، بردوان، ندیا، جنوبی چوبیس پرگنہ اور شمالی چوبیس پرگنہ جیسے متعدد اضلاع سے لاکھوں  کی تعداد میں  بنگالی جن میں  اکثریت مسلمانوں  کی ہے آخر روزگار کی تلاش میں  دربدر بھٹکنے پر کیوں  مجبور ہیں ؟ بایاں  محاذ کے طویل دور اقتدار میں  بنگال جس معاشی انحطاط کا شکار ہوا تھا وہ ترنمول کانگریس کے دور اقتدار میں  بھی کم کیوں  نہیں  ہوسکا ہے؟ دیدی کے چودہ سالہ راج میں  بھی غریب محنت کشوں  کا معاشی بن باس ختم کیوں  نہیں  ہوا؟ دلی اور ممبئی جیسے مہانگروں  میں  بنگالیوں  کے قسمت آزمانے کی بات سمجھ میں  آتی ہے لیکن کیا یہ بات باعث شرم نہیں  ہے کہ ہزاروں  بنگالیوں  کو دو وقت کی روٹی کیلئے اڑیسہ جیسے صوبے میں  جانا پڑرہا ہے؟

bangladesh Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK