میری زندگی کا سب سے بہترین سلسلہ تب شروع ہوا جب میں دسویں جماعت میں تھا۔ بچپن سے لے کرآج تک کا سفر میرا بہت اچھا گزارا، لیکن مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ زندگی اس طرح اچانک اپنا رخ موڑ لے گی۔
میری زندگی کا سب سے بہترین سلسلہ تب شروع ہوا جب میں دسویں جماعت میں تھا۔ بچپن سے لے کرآج تک کا سفر میرا بہت اچھا گزارا، لیکن مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ زندگی اس طرح اچانک اپنا رخ موڑ لے گی۔ مجھے اپنی زندگی میں ایک عزیز رشتہ کھونا پڑے گا۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے، جب ہمارے اسکول کا آخری سال تھا۔ اس کے بعد ہم سب دوست الگ الگ کالج میں داخلہ لینے والے تھے۔ یہی تو دنیا کا دستور ہے کہ انسان کو انسان سے ایک دن جدا ہونا ہے۔ اور آج یہ وقت میری زندگی میں بھی تھا، میرے نزدیک سب سے عزیز رشتہ دوستی کا تھا۔ مَیں اور سالار ہم دونوں بچپن کے دوست تھے، پچپن سے ایک ہی اسکول میں ایک ساتھ پڑھ رہے تھے۔ جب ہم پانچویں جماعت میں تھے، تب ہمارا ایک نیا دوست بن گیا شاہ میر۔ مَیں، سالار اور شاہ میر ہم تینوں کی دوستی بہت پکی ہوتی گئی۔ لیکن ایک سال سے بھی کم وقت عرصے میں ہی اسے اسکول چھوڑنا پڑا۔ دل کا دورہ پڑنے سے اسکے والد انتقال کر گئے۔ وہ اور اس کی امی، نانی کے پاس چلے گئے، اکلوتا ہونے کی وجہ سے گھر کی ساری ذمہ داریاں اس کے کندھوں پرآ گئی تھیں۔ کم عمر میں اسے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا جبکہ یہ دن اس کے کھیلنے کودنے اور پڑھنے کے تھے۔ وہ مجھ سے ہر بات کہتا تھا، مجھے اپنا بیسٹ فرینڈ کہتا تھا۔ وہ اکثر مجھ سے کہتا تھا کہ اسے انجینئر بننا ہے۔ مگر حالات کی مجبوریوں نے اس کی پڑھائی بھی پوری نہیں ہونے دی۔ مجھے اس کے چلے جانے کا بہت دکھ ہوا لیکن وقت گزرتا گیا۔
کالج جانے کے بعد میری ملاقات شمشیر اور قاسم سے ہوئی۔ میں نے ان سے دوستی کا ہاتھ ملایا اور ہم پہلی ملاقات میں ہی بہت اچھے دوست بن گئے۔ پھر میر ے لئے دوستی کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ اور جلد ہی ہماری دوستی گہری ہوتی گئی۔ ان سب کے درمیان مجھے کبھی کبھار فرصت کے لمحات میں شاہ میر کی یاد آجاتی۔ کالج کا وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے بارہویں کے امتحان سر پر تھے۔ جس میں صرف دس دن ہی باقی تھے۔ اور ہم امتحان کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔ پڑھائی میں ہمارا کافی وقت گزرتا۔ لیکن ہم اپنے لئے کچھ وقت نکل لیتے۔ اپنی زندگی کے سب ہی پلوں کو جی لیتے کیونکہ یہ وہ لمحات ہیں جو زندگی میں کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ لیکن مجھے کیا پتا تھا کہ ان امتحانات کے ساتھ میری دوستی کا بھی امتحان ہونے والا ہے۔ کالج کے الوداعی پروگرام میں میری سالار سے ملاقات ہوئی جو اپنے کالج کی طرف سے کچھ کام کے لئے آیا تھا۔ میں نے اسے شمشیر اور قاسم سے ملایا۔ ماحول خوشگوار تھا۔ میری نظر ایک شخص پر پڑی، شاہ میر.... میں حیرت سے اس کی طرف بڑھا اور ہاتھ آگے بڑھایا۔ اس نے باری باری میرے تینوں دوستوں کو دیکھا پھر ہاتھ ملا لیا۔ میرے دل میں یہ ملال تھا کہ میں شاہ میر کو یاد ضرور کرتا تھا مگر کبھی رابطہ کرنے یا وہ کن حالات سے گزر رہا ہے پوچھنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کا حلیہ بتا رہا تھا کہ وہ کافی پریشان ہے۔ ’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ سالار نے اس کے کندھے سے پکڑتے ہوئے پوچھا۔ ’’جھاڑو پونچھے کی جاب کرنے آیا ہوں۔ وہ دراصل نانی کے گزر جانے کے بعد مامی اور امی کی لڑائی ہوگئی، تو ہم یہاں پاس ہی میں شفٹ ہوگئے۔‘‘
اپنی داستان ختم کرکے وہ میری طرف دیکھنے لگا۔ مجھے اس کی نظروں سے شرمندگی محسوس ہوئی۔ شمشیر اور قاسم بھی افسوس کا اظہار کر رہے تھے۔ شاہ میر کسی کے آواز دینے پر پلٹ گیا۔ میں نے اور سالار نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ جس وقت شاہ میر کو ہماری ضرورت تھی اس وقت ہم زندگی کی مصروفیات میں اتنے گم ہوگئے کہ عام لوگوں کی طرح بس ہمدردی جتاتے رہ گئے جبکہ اسے ہمدردی سے زیادہ ہماری، اس کے دوستوں کی ضرورت تھی۔ میری اور سالار کی نظریں ایک بار پھر ملیں۔ مَیں نے ایک یاسیت بھری مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا: ’’مجھ سے دوستی کا صحیح حق ادا نہ ہوا!‘‘