۲۱؍ نومبر کو دنیا بھر میں ’’ورلڈ ہیلو ڈے‘‘ منایا جاتا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بڑے سے بڑے مسئلہ کے حل کی شروعات ایک ’’ہیلو‘‘ سے بھی ہوسکتی ہے۔ ۱۹۷۳ء میں شروع ہونے والا یہ دن آج دنیا کے ۱۸۰؍ سے زائد ممالک میں اس امید کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ بات چیت، صبر اور تحمل، اور اچھا رویہ، نفرت اور غلط فہمیوں سے زیادہ طاقتور ہیں۔
اب ’’ہیلو‘‘ بولنا عام ہے۔ فون کال اٹینڈ کرنے سے لے کر ای میلز وغیرہ لکھنے تک، ہر کام کی شروعات ’’ہیلو‘‘ سے کی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہیلو کی اہمیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ ’’السلام علیکم‘‘ کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ اس دن ہمیں ایک کام اور کرنا ہے، اور وہ یہ کہ ’’ہیلو‘‘ کو ’’السلام علیکم‘‘ سے تبدیل کرنا ہے۔ ہر تہذیب اور کمیونٹی کی ایک پہچان ہوتی ہے۔ مغربی دنیا میں ہیلو عام ہے، اور یہی ان کی پہچان ہے لیکن ہماری تہذیب میں السلام علیکم اہم ہے، اس لئے اپنے مذہب اور کمیونٹی کے لوگوں سے ملاقات کی شروعات اسی کلمہ سے کرنا چاہئے۔
تعلیمی اداروں میں اس دن کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہاں طلبہ مختلف پس منظر سے آتے ہیں مگر ایک سلام نہ صرف فاصلے کم کرتا ہے بلکہ اعتماد، دوستی اور مثبت توانائی کو جنم دیتا ہے۔ ایک ’’السلام علیکم‘‘ ماحول بدل دیتا ہے، پھر چاہے وہ گراؤنڈ ہو، کلاس روم ہو، یا لائبریری۔ ’’السلام علیکم‘‘ امن، محبت اور خیر کی دعا ہے اور اس دن یہی پیغام عام کیا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق سلام کرنے سے ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے، مثبت سوچ بڑھتی ہے اور انسان کو تعلق کا احساس ملتا ہے۔ طلبہ کیلئے یہ خاص اہمیت کا حامل ہے، خصوصاً ان کیلئے جو شرمیلے ہوں یا نئے ماحول میں جانے سے کتراتے ہوں۔ گروپس کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے کیلئے بھی ’’السلام علیکم ‘‘ ایک جادوئی آغاز ہے۔ اگر آپ کسی سے ناراض ہیں، بات چیت کا دروازہ بند ہے، یا ماحول کشیدہ ہے، صرف ایک ’’السلام علیکم‘‘ امن کی عمارت کی پہلی اینٹ بن سکتا ہے۔آج کی ڈجیٹل دنیا میں بھی خوش اخلاقی کی بہت ضرورت ہے۔ آن لائن بات چیت کا آغاز بھی ’’السلام علیکم‘‘ سے کریں۔
دنیا بھر کی مختلف تہذیبوں اور زبانوں میں ملاقات کا پہلا لفظ ہمیشہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ’’السلام علیکم‘‘ نہ صرف ایک تہذیبی روایت بلکہ انسانی تعلقات کی بنیادوں میں سے ایک ہے۔ یہ نہایت سادہ ہونے کے باوجود دلوں کو جوڑنے اور معاشرتی ہم آہنگی بڑھانے کی طاقت رکھتے ہیں۔
السلام علیکم کی اہمیت
محبت اور خیر سگالی کا اظہار:
جب انسان کسی کو سلام کرتا ہے تو دراصل وہ اس کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے خیر خواہی کا اظہار کرتا ہے۔
سماجی رابطے کا پہلا قدم:
گفتگو ہمیشہ ایک آغاز چاہتی ہے اور سلام وہ بہترین آغاز ہے جو ماحول کو خوشگوار اور مثبت بناتا ہے۔
اسلامی تعلیم کا حصہ:
اسلام میں سلام کو بڑی فضیلت حاصل ہے۔ آپؐ نے سلام کو عام کرنے کی تلقین فرمائی۔ یہ مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ مضبوط کرتا ہے۔
احترام اور تہذیب کی علامت:
سلام کرنا ادب، تمیز اور شائستگی کی بہترین مثال ہے۔ یہ نہ صرف بڑوں بلکہ چھوٹوں کے ساتھ بھی عزت اور احترام کا بہترین طریقہ ہے۔
دلچسپ حقائق
ماہرین کہتے ہیں کہ کسی اجنبی کو دوستانہ انداز میں سلام کرنے سے دل کی دھڑکن معمول پر آتی ہے اور ذہنی دباؤ حیرت انگیز طور پر کم ہوجاتا ہے۔
ایک غیر رسمی تحقیق کہتی ہے کہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا جانے والا ہیلو تعلقات کو ۷۰؍ فیصد زیادہ بہتر بناتا ہے۔
ابتداء میں یہ دن خط و کتابت کے ذریعے منایا جاتا تھا مگر اب لوگ ویڈیو کالز، پیغامات اور سوشل پلیٹ فارمز سے ساری دنیا کو سلام بھیجتے ہیں۔
بہت سے ممالک میں مختلف ثقافتوں کے لوگ ایک دوسرے کو اپنی زبان میں ’’ہیلو‘‘ بولنا سکھاتے ہیں، جو ثقافتی ہم آہنگی کو بڑھاتا ہے۔
دنیا بھر کیمتعدد کمپنیاں اس دن اپنے صارفین کو خصوصی پیغامات یا آفرز کے ذریعے ’’ہیلو‘‘ کہتی ہیں، جس سے مثبت مارکیٹنگ ہوتی ہے۔
عالمی امن کے کارکن اس دن کو ’’پیس تھرو کمیونکیشن‘‘ Peace Through Communication یعنی گفتگو کے ذریعے امن کا آغاز قرار دیتے ہیں۔
ورلڈ ہیلو ڈے مکمل طور پر غیر سیاسی ہے؛ اس کا مقصد صرف انسانی رابطے کو فروغ دینا ہے۔ اس کے ذریعے دنیا میں امن اور محبت کا پیغام عام کیا جاتا ہے۔
سلام کرنے کے فائدے
دلوں میں قربت پیدا ہوتی ہے:
سلام سے ذہنی اور جذباتی فاصلے کم ہوتے ہیں۔ یہ سادہ سا کلمہ کسی کا دن بہتر بنا سکتا ہے۔
مثبت ماحول قائم ہوتا ہے:
سلام کے ساتھ مسکراہٹ، ماحول کو خوشگوار بناتی ہے۔ دفتر ہو، گھر ہو یا اسکول اور کالج، ایک سلام ماحول میں مثبت توانائی بھرتا ہے۔
اعتماد اور اطمینان پیدا ہوتا ہے:
جب کوئی آپ کو سلام کہہ کر مخاطب کرتا ہے تو دل میں ایک اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ سامنے والا عزت اور احترام کے ساتھ بات کر رہا ہے۔
تناؤ اور بے چینی کم ہوتی ہے:
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دوستانہ رویہ ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے۔ سلام کے ذریعے ہم خود بھی مثبت محسوس کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی تسلی دیتے ہیں۔
سماج میں بھائی چارہ اور اتحاد بڑھتا ہے:
وہ معاشرہ جہاں لوگ سلام و دعا کا اہتمام کرتے ہیں، وہاں محبت اور یکجہتی زیادہ ہوتی ہے۔
سلام ایک چھوٹا مگر ایک انتہائی بامعنی عمل ہے۔ یہ شخصیت کو نکھارتا ہے، معاشرے کو مضبوط کرتا ہے اور دلوں میں قربت پیدا کرتا ہے۔
گفتگو کا آغاز ’’السلام علیکم‘‘ سے کیوں؟
کسی بھی بات چیت کا آغاز ’’السلام علیکم‘‘ سے ہو تو ماحول خوشگوار ہوتا ہے، اس طرح اچھی طرح بات چیت ہو۔ بات شروع کرنے والا کا اعتماد بڑھتا ہے، دوستی فروغ پاتی ہے، اور سب سے اہم یہ ہے کہ اختلافات کم ہوتے ہیں۔
’’سلام‘‘ کے نفسیاتی فائدے
سلام کرنے کے نفسیاتی فائدے بھی ہیں۔ اس سے ذہنی دباؤ میں کمی آتی ہے اور بات چیت کے آغاز میں سہولت ہوتی ہے۔ دو لوگوں کے درمیان یا گروپ ممبران کے مثبت جذبات میں اضافہ ہوتا ہےاور آپسی تعلق مضبوط ہوتا ہے۔
Digital Etiquette
اگر سوشل میڈیا ایپس جیسے وہاٹس ایپ، انسٹاگرام یا فیس بک یا ای میل پر کسی کو پیغام بھیجنا ہو تو شروعات سلام سے کری۔ آپ کے الفاظ میں نرمی ہو۔ دور حاضر کی مناسبت سے ایموجیز بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ گفتگو مختصر اور جامع ہو۔
طلبہ کیلئے اس دن کی اہمیت
ایک ’’السلام علیکم‘‘ نہ صرف فاصلے کم کرتا ہے بلکہ ماحول کو دوستانہ بنا دیتا ہے۔ نئی دوستی کے دروازے کھلتے ہیں۔ اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے اور کلاس روم میں مثبت ماحول جنم لیتا ہے۔ بدمزاجی اور بدمزگی کافی حد تک کم ہوجا تی ہے۔
’’السلام علیکم‘‘ کی طاقت
جہاں بات چیت نہیں ہوتی وہاں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ جہاں غلط فہمیاں ہوں وہاں بلا وجہ جھگڑے بڑھتے ہیں۔ اور جب جھگڑے بڑھتے ہیں تو رشتوں میں دوری آجاتی ہے۔ اس لئے ’’سلام‘‘ کو رائج کریں اور فاصلے مٹائیں۔