Inquilab Logo

کہانی کا ہیرو کون تھا؟

Updated: December 24, 2022, 11:06 AM IST | Ramlal | Mumbai

ایک روز ہمارے پڑوسی کا ایک بچہ منٹی جو بے حد موٹا اور گول مٹول ہے، میرے پاس یہ شکایت لے کر آیا

photo;INN
تصویر :آئی این این

ایک روز ہمارے پڑوسی کا ایک بچہ منٹی جو بے حد موٹا اور گول مٹول ہے، میرے پاس یہ شکایت لے کر آیا: ’’انکل آپ نے میرے بارے میں ایک کہانی لکھ کر چھپوا دی ہے اور اب سب لڑکے مجھ پر ہنستے ہیں۔‘‘ یہ سنتے ہی میرے کان کھڑے ہوگئے۔ مجھے اپنی کہانیوں سے ہمیشہ یہی ڈر لگا رہتا ہے کہ میری کہانیوں میں گھومنے پھرنے والے کردار کہیں اصلی نہ سمجھ لئے جائیں، کیونکہ اکثر لوگ میری کہانیوں میں خود کو تلاش کرکے مجھے بتا چکے تھے۔ اس بات پر کچھ لوگوں کو تو کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہ کہانی کے آئینے میں اپنے چہرے دیکھ کر الٹا خوش ہوتے تھے، لیکن سب لوگوں کے بارے میں یہ بات کیسے کہیں جاسکتی ہے۔ پسند اپنی اپنی، مزاج اپنا اپنا۔ بعض لوگوں کو تو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ مَیں سرے سے کہانیاں ہی کیوں لکھتا ہوں، جیسے ان کے خیال میں کہانی لکھنا یا نہ لکھنا اپنے بس کی بات ہے! کوئی ان سے پوچھے کہ بھلے آدمی تم کھانا ہی کیوں کھاتے ہو، یا اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہی کیوں ہو تو وہ کیا جواب دیں گے؟ لیکن خیر اس بے کار کی بحث کو چھوڑیئے۔ مَیں بھی ایسے لوگوں کے ساتھ کبھی نہیں الجھتا، لیکن مجھے سب سے بڑی الجھن اس وقت ہوتی ہے جب کوئی شخص خواہ مخواہ یہ شکایت لے کر آدھمکتا ہے کہ مَیں نے اپنی کہانی میں ہو بہو اسی کا حلیہ کیوں بیان کر دیا ہے۔
 ہمارا پڑوسی بچہ منٹی بھی ٹھیک اسی طرح کی بات کہنے کے لئے میرے پاس آیا تھا کہ مَیں نے ایک کہانی میں موٹے اور گول مٹول لڑکے کو پیش کرکے دراصل اس کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی۔
 مَیں نے منٹی سے پوچھا، ’’تم نے وہ کہانی خود پڑھی ہے یا کسی اور سے سنی ہے؟‘‘
 اس نے فوراً جواب دیا، ’’مَیں نے گولڈی سے سنا ہے، وہ کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔ اس نے مجھے کل فون پر بتایا کہ یہ کہانی آپ نے مجھ پر ہی لکھی ہے۔‘‘
 مَیں نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’تم گولڈی کو فوراً جا کر لے آؤ تاکہ مَیں اس کی بھی سمجھ بوجھ کا امتحان لے لوں۔ ہوسکتا ہے کہ میری کہانی اس کی سمجھ میں آئی ہی نہ ہو۔‘‘
 منٹی نے تنک کر جواب دیا، ’’ایسا نہیں ہوسکتا انکل! گولڈی کی سمجھ میں کہانی آئی ہی نہ ہو۔ وہ تو آٹھویں درجے میں پڑھتا ہے، یعنی مجھ سے بھی ایک درجہ آگے۔ وہ کہانیاں پڑھ پڑھ کر مجھے اکثر سناتا ہے۔ مَیں دعوے سے کہہ سکتا ہوں وہ ہر کہانی کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔‘‘ مَیں نے منٹی کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا، ’’اچھا اچھا۔ تم ٹھیک کہتے ہو گے، لیکن ذرا جاؤ اب گولڈی کو جلدی سے بلا کر یہاں لے آؤ، مَیں خود ہی اس سے بات کروں گا۔‘‘
 منٹی تھوڑی ہی دیر میں گولڈی کو بلا کر لے آیا۔ گولڈی اس وقت ہاکی ہاتھ میں لئے ہوئے تھا۔ شاید کھیل کے میدان کی طرف جا رہا تھا۔ مَیں نے اس سے پوچھا، ’’کیوں گولڈی، تم نے واقعی میری کسی کہانی میں منٹی کا ہو بہو دیکھا ہے؟‘‘ گولڈی اپنی ہاکی سے ہوا میں ہی ایک خیالی گیند کے ہٹ مارتے ہوئے بولا، ’’انکل مَیں نے منٹی سے یہ بات کہی ضرور تھی، لیکن سچ پوچھئے تو یہ بات مجھے راجو نے بتائی تھی، مَیں نے خود کہانی نہیں پڑھی تھی۔ آپ چاہیں تو راجو سے پوچھ لیجئے، وہ برابر کی کالونی میں رہتا ہے۔ مَیں اسے فون کرکے یہاں بلائے لیتا ہوں۔
 راجو کو فون کرکے بلایا گیا۔ جب اس سے اس کہانی کے بارے میں پوچھا گیا جس میں منٹی جیسے گول مٹول لڑکے کا ذکر تھا تو اس نے کہا، ’’وہ کہانی مَیں نے خود کب پڑھی ہے؟ مجھے تو ہیپی نے بتایا تھا کہ ’’کھلونا‘‘ میں ایک کہانی چھپی ہے، جو بالکل منٹی کے بارے میں ہے۔ بس یہی بات مَیں نے گولڈی سے بھی کہہ دی تھی۔ آپ چاہیں تو ہیپی کو بلا کر پوچھ سکتے ہیں۔ اس کا فون نمبر ایک دو تین چار پانچ چھ ہے۔
 ہیپی کو بھی ایک دو تین چار پانچ چھ نمبر پر فون کرکے بلایا گیا۔ اس نے آتے ہی میرے اردگرد کھڑے بچوں کو بڑے غور سے دیکھا تو جیسے ساری بات سمجھ گیا اور اپنے آپ ہی کہہ اٹھا، ’’انکل! اگر یہ سب لوگ آپ سے اسی کہانی کے بارے میں بات کرنے آئے ہیں جو شاید آپ نے منٹی پر لکھی ہے تو مَیں آپ کو سچ سچ بتا دوں کہ مَیں نے ابھی اسے پڑھا ہی نہیں ہے۔ مجھے وہ رسالہ مل نہیں سکا۔ مجھے تو اصل میں کوچی نے بتایا تھا۔ کوچی ہمارے پڑوس میں رہتی ہے۔ ابھی مَیں یہاں آ رہا تھا تو وہ گلی میں سائیکل چلانے کی پریکٹس کر رہی تھی۔ مجھے معلوم ہوتا تو اسے ساتھ ہی لے کر آجاتا۔ اسے اب جا کر بلا لاؤں انکل؟ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولے گی، بہت اچھی لڑکی ہے۔ سچ بولنے پر ہی اسے ایک بار اسکول سے انعام بھی ملا تھا۔
 میرے ہاں کہنے پر ہیپی کوچی کو بلا لایا۔ کوچی نے آتے ہی بڑی صاف آواز میں کہا، ’’انکل! جس کہانی کے بارے میں یہاں ہنگامہ ہو رہا ہے وہ کہانی مَیں ابھی تک نہیں پڑھ سکی ہوں کیونکہ مجھے وہ رسالہ تلاش کرنے پر بھی نہیں ملا۔ مَیں نے ہر ایک بک اسٹال سے پوچھ لیا ہے، اس کہانی کے بارے میں مجھے سجو نے بتایا تھا۔ سجو اس وقت پارک میں کرکٹ کھیل رہا ہے۔ آپ چاہیں تو اسے بلوا کر پوچھ لیجئے۔
 اب سجو کو بھی بلوایا گیا۔ وہ ایک ہاتھ میں اپنا کرکٹ کا بیٹ لہراتا ہوا اور دوسرے ہاتھ سے سر پر نائٹ کیپ درست کرتا ہوا آیا اور بولا، ’’مَیں سمجھ گیا کہ آپ سب لوگ یہاں کیوں جمع ہیں۔ اسی لئے مَیں اپنے ساتھ ان لڑکوں کو بھی لے آیا ہوں جو منٹی کے بارے میں لکھی ہوئی کہانی کے بارے میں جانتے ہیں۔ ان سے آپ خود پوچھ لیجئے۔
 پھر اس نے خود ہی ایک لڑکے کو پکار کر کہا، ’’گڈو! تم نے تو مجھے بتایا تھا کہ ہمارے انکل نے کہانی منٹی کے بارے میں لکھی ہے۔ کہا تھا نا؟
 گڈو نے اپنے ہاتھ میں اٹھائی ہوئی گیند ہوا میں بہت اونچائی پر پھینک کر اسے جھپٹتے ہوئے جواب دیا، ’’ضرور کہا تھا، مَیں انکار کب کرتا ہوں، لیکن جب مَیں نے اس کہانی کا ذکر دھنو سے کیا تو وہ بولا کہ یہ کہانی منٹی کے بارے میں ہرگز نہیں ہوسکتی۔ وہ تو میرے ہی بارے میں ہوسکتی ہے، کیونکہ کہانی میں جس لڑکے کو اتنا موٹا اور ہنسوڑ بتایا گیا ہے وہ تو مَیں ہی ہوسکتا ہوں۔ مَیں سچ مچ منٹی سے زیادہ موٹا بھی ہوں اور ہنسوڑ بھی۔ آپ چاہیں تو دھنو سے پوچھ لیجئے۔ وہ وہاں پیچھے کھڑا ہے، دروازے کے پاس۔
 سب نے سر گھما کر دیکھا۔ دروازے کے پاس ایک بے حد موٹا لڑکا کھڑا تھا۔ ٹانگوں پر کرکٹ کا پیڈ باندھے، ہاتھوں پر بھاری بھاری دستانے چڑھائے ہوئے اور سر پر کیپ بھی لگائے ہوئے۔ وہ لڑکوں کی کرکٹ ٹیم کا وکٹ کیپر تھا۔ اس نے اپنا ذکر سنا تو ہنستے ہوئے آگے آگیا۔ مجھے آداب کرکے بولا، ’’انکل! گڈو ٹھیک کہتا ہے۔ مَیں نے ہی اس سے کہا تھا کہ وہ کہانی اصل میں میرے بارے میں ہے، منٹی کے بارے میں ہرگز نہیں، کیونکہ جس لڑکے کو آپ نے اپنی کہانی میں پیش کیا ہے اس کی شکل صورت، ڈیل ڈول اور ساری حرکتیں مجھ سے ہی ملتی جلتی ہیں، لیکن مَیں اس کہانی کو پڑھ کر بہت ہی خوش ہوا ہوں، اگر آپ نے میرا اصلی نام یعنی دھنو بھی لکھ دیا ہوتا تو مَیں اور زیادہ خوش ہوا ہوتا۔ مَیں منٹی کی طرح شکایتی ٹٹو نہیں ہوں کہ ذرا ذرا سی بات پر منہ پھلا لوں۔ انکل! آپ آئندہ مجھ پر جتنی چاہیں کہانیاں لکھ سکتے ہیں۔ اگر چاہیں تو مَیں اپنے بارے میں آپ کو بہت سے دلچسپ لطیفے بھی بتا دوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ منٹی کی طرف بڑے فخر سے دیکھنے لگا۔ دوسرے لڑکے بھی زور سے ہنس پڑے۔ کچھ لڑکوں نے تو منٹی کو منہ بھی چڑا دیا۔ اس کے بعد وہ اسی طرح ہنستے ہوئے اور منٹی کو دھکیلتے ہوئے باہر چلے گئے۔

story hero Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK