ہندوستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی، اس کے سنہرے ابواب میں ایک نام لازماً جگمگائے گا ’امیتابھ بچن‘۔ یہ وہ نام ہے جو صرف ایک اداکار نہیں، بلکہ ایک عہد، ایک احساس، اور ایک ثقافتی علامت بن چکا ہے۔
امیتابھ بچن آج بھی جوش سے بھرے ہوئے ہیں۔ تصویر: آئی این این
ہندوستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی، اس کے سنہرے ابواب میں ایک نام لازماً جگمگائے گا ’امیتابھ بچن‘۔ یہ وہ نام ہے جو صرف ایک اداکار نہیں، بلکہ ایک عہد، ایک احساس، اور ایک ثقافتی علامت بن چکا ہے۔ اُن کا سفر جدوجہد سے لے کر عظمت کی بلندیوں تک ایسا ہے جس میں ایک عام انسان کی مسلسل تگ و دو، قسمت کے نشیب و فراز، اور فن کی سچائی کی روشن مثالیں نظر آتی ہیں۔
امیتابھ بچن کا جنم۱۱؍اکتوبر۱۹۴۲ءکو الہ آباد میں ہوا۔ اُن کے والد مشہور شاعر ڈاکٹر ہری ونش رائے بچن اور والدہ تیجی بچن تھیں، جو خود بھی ایک تعلیم یافتہ اور فنونِ لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والی خاتون تھیں۔ امیتابھ نے اپنی ابتدائی تعلیم شیر وڈ کالج نینی تال سے حاصل کی اور بعد میں دہلی یونیورسٹی کے کیرورِی مل کالج سے گریجویشن مکمل کیا۔شروع میں وہ ایک انجینئر یا ایئر لائن پائلٹ بننے کا خواب دیکھتے تھے، مگر قسمت نے انہیں کچھ اور ہی راہوں پر لے جانے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ امیتابھ بچن نے۱۹۶۹ءمیںفلم سات ہندوستانی سے اپنے فلمی سفر کی شروعات کی۔ فلم کو اگرچہ سراہا گیا، مگر امیتابھ کو وہ پہچان نہ مل سکی جس کے وہ مستحق تھے۔ ابتدائی برسوں میں انہیں کئی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔انہیں فلم آنند(۱۹۷۱ء)میں راجیش کھنہ کے ساتھ ایک سادہ مگر دل کو چھو لینے والے ڈاکٹر کے کردار نے لوگوں کے دلوں میں جگہ دلا دی۔ اسی فلم میں ان کے اندر چھپی گہرائی اور ضبطِ احساس کا اظہار پہلی بار بڑے پردے پر پوری آب و تاب کے ساتھ سامنے آیا۔
۱۹۷۳ءوہ سال تھا جب زنجیر ریلیز ہوئی اور یوں ہندوستانی سینما میں’اینگری ینگ مین‘کاجنم ہوا۔ اس فلم نے امیتابھ بچن کی تقدیر بدل دی۔ وہ عوام کی زبان بن گئے، اُن کے درد، اُن کے غصے، اور اُن کی امیدوں کے ترجمان بن گئے۔
اس کے بعد ایک کے بعد ایک کامیاب فلموں کا سلسلہ شروع ہوا جن میں دیوار، شعلے، تریشول، کالا پتھر، ڈان، کبھی کبھی، سلسلہ اور نمک حلال جیسی فلمیں شامل ہیں۔۱۹۸۰ءکی دہائی میں وہ فلمی دنیا کے بے تاج بادشاہ بن چکے تھے۔ مرد، شہنشاہ، خدا گواہ، دوستانہ اور پکار جیسی فلموں نے انہیں عوام کے دلوں میں امر کردیا۔
۱۹۸۲ءمیںقلی کی شوٹنگ کے دوران ایک خطرناک حادثہ پیش آیا، جس نے ان کی جان تقریباً لے لی تھی۔ ملک بھر میں دعاؤں کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہ بچ گئے، اور پھر واپس لوٹے، پہلے سے زیادہ طاقتور انداز میں۔بعد میں انہوں نے سیاست میں بھی قدم رکھا، لیکن یہ سفر زیادہ دن نہ چل سکا۔ انہوں نے اسے’خطرناک کھیل‘کہہ کر چھوڑ دیا۔۱۹۹۰ءکی دہائی میں جب فلمی دنیا میں ان کا جادو کچھ کم ہونے لگا تو انہوں نے پروڈکشن میں ہاتھ آزمایا، لیکن اے بی سی ایل کمپنی(امیتابھ بچن کارپوریشن لمیٹڈ)مالی طور پر ناکام رہی۔
۲۰۰۰ءمیں کون بنے گا کروڑپتی کے ساتھ امیتابھ بچن نے ایک نئی زندگی پائی۔ ان کی آواز، گفتگو کا انداز، اور شخصیت نے ناظرین کو دیوانہ بنا دیا۔ یہ شو آج بھی اُن کے نام سے جڑا ہوا ہے۔ اسی دوران انہوں نے’بلیک‘،’ باغبان‘،’ چینی کم‘ ’پیکو‘ جیسی فلموں میں اپنے فن کا نیا رنگ دکھایا۔ عمر کے اس حصے میں بھی ان کی توانائی نوجوانوں کیلئے ایک مثال ہے۔امیتابھ بچن کو پدم شری (۱۹۸۴ء)، پدم بھوشن(۲۰۰۱ء)، اور پدم وبھوشن(۲۰۱۵ء)جیسے قومی اعزازات سے نوازا گیا۔ فلم فیئر ایوارڈز کی ایک طویل فہرست ہے جو ان کے نام منسوب ہے۔ ۲۰۱۹ء میں انہیں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا جو فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔