Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ میں نے فلم کی کہانی رانی مکھرجی کو ذہن میں رکھ کر ہی لکھی تھی‘‘

Updated: August 17, 2025, 3:06 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai

ہدایتکار اور قلمکار اشیما چھبر کا کہنا ہے کہ مجھے صاف ستھری اور فیملی فلمیں بنانا پسند ہے، اسلئے مجھےپورا یقین تھا کہ فلم ’مسز چٹرجی ورسیز ناروے‘ کیلئے رانی کو نیشنل ایوارڈ ملے گا۔

Ashima Chhabria with Rani Mukherjee. Photo: INN.
اشیما چھبررانی مکھرجی کے ساتھ۔ تصویر: آئی این این۔

حال ہی میں اداکارہ رانی مکھرجی سرخیوں میں تھیں کیونکہ انہیں فلم ’مسز چٹرجی ورسیز ناروے‘ میں بہترین اداکاری کیلئے بہترین اداکارہ کا نیشنل ایوارڈ ملا تھا۔ رانی مکھرجی نے اس فلم میں ایک ماں کا رول قابل تعریف انداز میں نبھایا تھا لیکن جس فلم نے انہیں اس مقام تک پہنچایا اس کی ہدایتکار کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس کی فلم ہدایتکار اشیما چھبر ہیں۔ اس فلم کی کہانی لکھنے میں بھی انہوں نے تعاون کیا تھا۔ اشیما چھبر نے اس سے پہلے فلم میرے ڈیڈ کی ماروتی بنائی تھی جسے ناقدین نے کافی پسند کیا تھا۔ اشیما خاندانی فلموں کی کہانی پر کام کرتی ہیں کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ گھر کے سبھی افراد ایک ساتھ بیٹھ کر ان کی فلم دیکھیں۔ نمائندہ انقلاب نےہدایتکار اور کہانی نویس اشیما چھبر سے گفتگو کی جسے یہاں پیش کیا جارہا ہے:
جب آپ کی فلم کیلئے رانی مکھرجی کو نیشنل ایوارڈ دینے کا اعلان ہوا تو اس وقت آپ کا ردعمل کیا تھا؟
ج:جب رانی مکھرجی کو بہترین اداکارہ کا نیشنل ایوارڈ دیئے جانے کا اعلان ہوا تو اس وقت مجھے بہت خوشی ہوئی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ ایوارڈ انہیں ہی ملے گا کیونکہ رانی نے فلم میں ایک ماں کا رول بہت اچھا نبھایا تھا۔ مجھے ذرہ برابر شبہ نہیں تھا کہ یہ ایوارڈانہیں نہیں ملے گا، میں پورے یقین کے ساتھ انتظار کررہی تھی۔ ہم صرف اس کے باقاعدہ اعلان کا انتظار کررہے تھے تاکہ جلد سے جلد جشن منایا جائے۔ انہوں نے اتنی اچھی فلموں میں کام کیا ہے لیکن میری فلم کیلئے انہیں بہترین اداکارہ کا ایوارڈملا یہ میرے لئے بہت اہم ہے کیونکہ ہندوستانی فلم انڈسٹری میں سمجھا جاتاہے کہ پوری فلم کا بار صرف اداکاروں کے کندھوں پر ہوتاہے اور کیمرے کے پیچھے کے افراد کی پزیرائی بھی نہیں ہوتی۔ انہیں جو ایوارڈ ملا ہے اس سے میری شناخت بھی مضبوط ہوگی۔ میرے خیال میں انہو ں نے جو کردار نبھایا وہ بہت مضبوط تھا۔ 
رانی مکھرجی سے اس وقت آپ کی کیا بات ہوئی تھی؟
ج:اس دن میں نیشنل ایوارڈس کے اعلان کا انتظار کررہی تھی اور جیسے ہی رانی مکھرجی کو ایوار ڈ ملا میرا فون بجنا شروع ہوگیا تھا۔ یہ مسلسل جاری تھااسلئے میں نے سبھی فون کٹ کرکے سب سے پہلے رانی مکھرجی کا فون ملایا اور ان سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں اور ان سے ابھی ملاقات کرنی ہے۔ انہوں نے مجھے ایک اسٹوڈیو میں بلایا اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگا کر مبادکباد دی۔ رانی اس وقت بہت خوش نظر آرہی تھیں۔ انہوں نے اس وقت کہاکہ یہ پورے کریئر کا نچوڑ ہے کیونکہ یہ بہت بڑا ایوارڈ اور اعزاز ہے۔ میں نے بھی ان سے کہا کہ آپ اس کی حقدار تھیں اسلئے یہ اعزاز آپ کو ملا ہے۔ ہم دونوں کیلئے یہ بہت جذباتی لمحہ تھا کیونکہ اب ہمارا نام تاریخ کے صفحات پر درج ہوگیا ہے۔ اب ہم دونوں کا رابطہ طویل وقت تک رہے گا۔ 
فلم میں ’دیبیکا ‘کے رول کیلئے کیا رانی ہی پہلی پسند تھیں ؟ 
ج:میں نے فلم کی کہانی رانی مکھرجی کو ذہن میں رکھ کر ہی لکھی تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ بنگالی ہیں اور وہ ماں بھی ہیں۔ اس کردار کیلئے جو جذبات اور زبان چاہئے تھی وہ دونوں رانی مکھرجی کے پاس تھیں۔ اگر میں کہیں پر بھی اسکرپٹ لے جاتی تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ میں نے یہ رول لکھا ہی رانی کے لئے تھا۔ انہیں جو ایوارڈملا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا کام ہے۔ انہوں نے اسکرپٹ اور رول کو ایک ساتھ پردے پر پیش کیا ہے۔ ان دونوں چیزوں کے ایک ساتھ آنے سے ان کے کردار میں جان پڑ گئی ہے۔ اس طرح کی مثالی فلموں کو ہمیشہ یاد رکھا جاتاہے، مثلاً مدر انڈیا کی کہانی ہم آج بھی اپنی نئی نسل کو بتاتے ہیں۔ بنگالی ماں کے کردار میں مجھے رانی کے علاوہ کوئی دوسرا نظر نہیں آیا۔ میں شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میر ی فلم میں کام کرنے کیلئے ہامی بھری۔ 
کہانی لکھتےوقت کن چیزوں کو اہمیت دیتی ہیں ؟
ج:میں جب بھی کہانی لکھتی ہوں تو اس کے کلائمیکس کو ذہن میں رکھ کر لکھتی ہوں۔ میں ان جذبات کو ذہن میں رکھتی ہوں کہ جب شائقین تھیٹر سے باہر جائیں تو انہیں وہ ساری چیزیں یاد رہیں۔ مثال کے طورپر ایک کھانا بنانے والے شخص کو معلوم ہوتاہے کہ اسے کون ساپکوان بنانا ہے، وہ اس کے مطابق ہی مسالہ، سبزیاں اور دیگر چیزوں کا استعمال کرتاہے۔ میں بھی اسی طرح یہی سوچ کر لکھتی ہوں کہ مجھے فلم کے آخرمیں ان جذبات کا تاثر عوام پر چھوڑنا ہے۔ یہ فلم لکھتے وقت بھی میں نے یہی سوچا تھا۔ آپ اپنی والدہ کے ساتھ یہ فلم دیکھیں گے تو آپ کی والدہ کی آنکھیں نم ہوجائیں گی۔ بس یہی چیزیں ہوتی ہیں جب میں کہانی لکھتے ہوئے دھیان میں رکھتی ہوں۔ 
کیا آپ سوچتی ہیں کہ بڑے بجٹ کی فلمیں بھی بنائیں ؟
ج:میں چاہتی ہوں کہ میں بڑی بجٹ کی فلمیں بناؤں اور سپراسٹارس کے ساتھ کام کروں جن میں رنبیر کپور، رنویر سنگھ، عالیہ بھٹ اور اب اہان پانڈے شامل ہوں۔ ہر ڈائریکٹر کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بڑے اسٹارس کے ساتھ کام کرے اور ان کیلئے ہدایتکاری کرے۔ اس کے بعد جس طرح باکس آفس پر آپ کے اعدادوشمار بڑھتے ہیں تو پروڈیوسرس کو بھی آپ پر بھروسہ ہوجاتاہے کہ ان کے ساتھ کام کریں گے تو ہمارا پیسہ ضائع نہیں ہوگااور ہمیں نقصان نہیں ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ سپراسٹاروں کو بھی ہمارے ساتھ کام کرنے کیلئے راضی ہونا چاہئے۔ میرے خیال میں میری فلم چھوٹے بجٹ کی تھی لیکن اس کی پہنچ بہت دور دور تک تھی۔ مجھے آج بھی یورپ، ایشیا اور دیگر ممالک سے کالس آتے رہتے ہیں اور وہ میری فلم کی کہانی کی پزیرائی کرتے ہیں۔ 
کیا انڈسٹری میں خواتین ہدایتکاروں کی پوزیشن بہتر ہے؟ 
ج:میرے خیال میں آج یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ یہ فلم کس نے ڈائریکٹ کی ہے بلکہ وہ کہانی اور موضوع کو ترجیح دیتے ہیں۔ گزشتہ سال لاپتہ لیڈیزفلم آئی اور اب دھڑک ۲؍ ریلیز ہوئی ہے۔ مجھے لگتاہے کہ اب یہاں سے انڈسٹری میں خواتین ہدایتکاروں کا دور شروع ہواہے۔ ایک بار اور کہنا چاہوں گی کہ آج کا یوتھ یہ نہیں دیکھتا کہ فلم کون بنارہا ہے بلکہ وہ ٹریلر دیکھ کر ہی سمجھ جاتاہے کہ یہ فلم اس کے مزاج کی ہے یا نہیں۔ میرے خیال میں جب جدوجہد کرکے اوپر آتے ہیں تو پھر آپ کی راہیں آسان ہوجاتی ہیں۔ 
اس وقت آپ کس پروجیکٹ پر کام کررہی ہیں ؟
ج:اس وقت میں ایک پروجیکٹ پر کام کررہی ہوں۔ اس فلم کا نام روپ تیرا مستانہ ہے اور جنوبی ہند کے اداکار یہ راناڈگوبٹی کی فلم ہے۔ یہ بھی ایک فیملی فلم ہے جسے پورا خاندان ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتاہے۔ میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ میں گھریلوفلمیں بناؤں اور ان فلموں سے عوام کو تفریح فراہم کروں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK