فلموں میں آنے سے پہلے وہ مشہوررسالہ ’نئی تعلیم‘ کی ادارت اور اس کے بعد بی بی سی کی ہندی سروس میں اناونسر کی خدمات انجام دے رہے تھے، اسی دوران ’اپٹا‘ سے بھی وابستہ رہے۔
EPAPER
Updated: July 20, 2025, 12:03 PM IST | Anis Amrohvi | Mumbai
فلموں میں آنے سے پہلے وہ مشہوررسالہ ’نئی تعلیم‘ کی ادارت اور اس کے بعد بی بی سی کی ہندی سروس میں اناونسر کی خدمات انجام دے رہے تھے، اسی دوران ’اپٹا‘ سے بھی وابستہ رہے۔
ہندوستان کے صوبہ پنجاب نے جہاں زندگی کے دوسرے شعبوں میں بڑے بڑے فنکار پیدا کئے ہیں، وہیں فلمی دُنیا کے لئے بھی کئی اہم ستون بخشے ہیں۔ پرتھوی راج کپور، دلیپ کمار، ساحرؔ لدھیانوی، راج کپور، دھرمیندر، راج کھوسلہ، بی آر چوپڑہ، یش چوپڑہ، نور جہاں، پران، دھرمیندر، راجندر سنگھ بیدی اور راجندر کمار وغیرہ کے نام فلمی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ اُسی پنجاب نے، جسے ہم غیر منقسم پنجاب بھی کہتے ہیں، نے ایک اور بڑے فنکار کو جنم دیا جو آگے چل کر فلم انڈسٹری کا اہم ستون ثابت ہوا اور جسے دنیا بلراج ساہنی کے نام سے جانتی ہے۔
بلراج ساہنی کا جنم یکم مئی ۱۹۱۳ء کو راولپنڈی میں ہوا تھا، جو تقسیم وطن کے بعد اب پاکستان کاحصہ ہے۔ راولپنڈی دو بڑے شہروں، لاہور اورپشاور کے درمیان میں ایک نسبتاً چھوٹا شہر ہے۔ پشاور کے لوگ پرانی وضع کے تھےجبکہ لاہور نئی روشنی کا مرکز تھا، لیکن بلراج جی کے بچپن میں راولپنڈی میں بھی نئی روشنی پھیلنے لگی تھی۔ انہی دنوں شہر کے قدم جدیدیت کی طرف گامزن ہو گئے تھے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کی وجہ سے بھی لوگوں میں ایک نیا سیاسی شعور بیدار ہونے لگا تھا۔ غیر ملکی کپڑوں کی ہولی جلائی جانے لگی تھی اور نمک کا قانون بھی توڑا جانے لگا تھا۔
بلراج ساہنی کی زندگی کی کہانی بھی اپنے آپ میں ایک عجیب وغریب داستان ہے۔ نہایت سادہ سی زندگی مگر جدوجہد سے بھرپور۔ بلراج ساہنی کے والد ہربنس لال ساہنی راولپنڈی کے چھاچھی محلہ کے ایک دو منزلہ مکان میں اپنی بیوی لکشمی، دو بیٹوں، بلراج اور بھیشم اور دو بیٹیوں، ویراں اور سمترا کے ساتھ رہتے تھے۔ ان سب بچوں میں تیسرے نمبر پر بلراج ساہنی تھے اور بھیشم ساہنی سب سے چھوٹے تھے۔ اُن کے والد کپڑے کا کاروبار کرتے تھے، جس میں کمیشن کے طور پر اوسط آمدنی ہو جایا کرتی تھی۔ اُن کے والد کی بازار میں کوئی دکان نہیں تھی بلکہ گھر پر ہی مکان کے نچلے حصے میں انہوں نے ایک چھوٹا سا دکان بنا لیا تھا۔ خاندان کے سب لوگ گھر کے اوپری حصے میں رہتے تھے۔ بلراج جی کے والد ہربنس لال ساہنی آریہ سماجی خیالات کے تھے اور راولپنڈی کے آریہ سماج کے منتری بھی تھے۔ اُن دِنوں آریہ سماج کا ہمارے معاشرے پر اثر بڑھ رہا تھا اور مورتی پوجا، مذہبی ڈھونگ اور اندھے عقائد و روایات کے خلاف ویدک ادب، سنسکرت زبان اور صوفی ازم کے رجحانات سماج پر کافی اثر ڈال رہے تھے۔
بلراج ساہنی اور اُن کے چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی کو بچپن میں گروکل میں سنسکرت پڑھنے کیلئے بھیجا گیا، مگر وہاں دونوں کا دل نہیں لگا اور ایک دن بلراج ساہنی نے اپنا فیصلہ اپنے والد کو سنا دیا کہ وہ اب گروکل میں نہیں بلکہ اسکول میں پڑھیں گے۔ اُن کے والد اس بات سے حیران رہ گئے مگر حقیقت میں بلراج ساہنی نے جیسے اُن ہی کے دل کی بات کہہ دی تھی۔ وہ اپنا سارا کام اُردو یا انگریزی میں کرتے تھے، اور یہ سمجھتے تھے کہ نئی طرز کی تعلیم اب اُن کے بچوں کیلئے بھی ضروری ہو گئی ہے۔ اُن کی والدہ بھی بچوں کو نئی تعلیم دلانے کے حق میں تھیں، اسلئے دونوں بھائیوں کو اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ بلراج ساہنی چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی سے صرف دو سال ہی بڑے تھے، مگر انہیں چوتھی کلاس میں اور بھیشم ساہنی کو پہلے درجے میں داخلہ ملا۔
بلراج ساہنی کم عمری ہی سے اپنا ادبی رجحان نظموں کے ذریعہ ظاہر کرنے لگے تھے۔ پندرہ برس کی عمر رہی ہوگی جب وہ اُردو میں شعر کہنے لگے تھے۔ اس کے بعد انگریزی میں بھی نظم کہنے لگے۔ اسی دوران انہوں نے ایک پوری نظم انگریزی میں بھگت سنگھ کی یاد میں کہہ ڈالی تھی۔ بلراج اور بھیشم دونوں بھائیوں نے مڈل کلاس تک کی تعلیم راولپنڈی میں حاصل کی، بعد میں اعلیٰ تعلیم کیلئے وہ لاہور چلے گئے۔
بلراج ساہنی کو بچپن ہی سے ادبی ماحول اپنے خاندان میں مل گیا تھا۔ اُن کی دو پھوپی زاد بہنیں کشمیر میں رہتی تھیں، جن میں سے ایک پروشارتھ وتی کے شوہر جانے مانے ادیب اور مدیر چندر گپت وِدیا لنکار تھے، جو ادب پر اکثر بحثیں کرتے رہتے تھے۔ بلراج ساہنی نے بچپن میں اپنی والدہ سے بھی سنا تھا کہ ان کی دادی بھی کویتا کہتی تھیں اور ان کے کاروباری والد نے بھی بتایا تھا کہ ایک زمانے میں اُنہوں نے بھی ایک ناول لکھا تھا، مگر وہ شائع نہیں ہو سکا تھا۔
بلراج ساہنی کی تعلیم ایم اے انگریزی تک ہونے کے بعد اُن کے والد ہربنس لال ساہنی نے اُن کو اپنے کپڑے کے کاروبار میں شامل کر لیا۔ شادی کے بعد ۱۹۳۷ء میں بلراج ساہنی نے والد اور چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی کو کاروبار اور دفتر کی ذمہ داریاں سونپ کر گھر والوں سے الوداع کہا اور اپنی بیوی دمینتی کے ساتھ کولکاتا میں رابندر ناتھ ٹیگور کے شانتی نکیتن چلے گئے، جہاں انہوں نے ہندی اور انگریزی کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
شانتی نکیتن کا ماحول بلراج ساہنی کے مزاج کے عین مطابق تھا۔ وہاں پہنچ کر بلراج کے دل نے گواہی دی کہ یہی زندگی ہے جو وہ جینا چاہتا ہے۔ شروع شروع میں شانتی نکیتن کے پُرسکون ماحول میں بلراج ساہنی کا دل خوب لگا، مگر جلد ہی وہ وہاں کی یکسانیت اور موسیقی ریز ادبی ماحول سے اُکتا گئے۔ اُن کو وہاں کی شانت اور پُرسکون زندگی سے اُلجھن سی ہونے لگی، کیونکہ ان کے دل میں کچھ کر گزرنے کا ارمان جوش مار رہا تھا۔ بلراج ساہنی کے دل میں ملک و قوم کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دینے کا جذبہ موجزن تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے ملک کی روح، ہندوستان کی آتما اُن کو اپنی طرف بلا رہی ہے۔ ملک و قوم کی اس آواز پر بلراج ساہنی مہاتما گاندی کے پاس وَردھا جا پہنچے۔
وردھا پہنچ کر انہوں نے رسالہ ’نئی تعلیم‘ کی ادارت اپنے ذمہ لے لی۔ ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ ۱۹۳۹ء میں بلراج ساہنی کو بی بی سی لندن سے مراسلہ ملا کہ ان کا انتخاب بی بی سی کی ہندی سروس میں انائونسر کی حیثیت سے ہو گیا ہے لہٰذا وہ گاندھی جی سے آشیرواد لے کر انگلینڈ چلے گئے، جہاں بطور انائونسر اپنی خدمات انجام دینے لگے۔ اس طرح بلراج ساہنی پورے چار برس تک ملک سے باہر رہے۔ یہ چار برس ان کی زندگی کیلئے کافی اہم بھی تھے۔
وہاں رہتے ہوئے ہندوستان میں جاری آزادی کی لڑائی میں شامل ہونا، ان کیلئے بہت مشکل تھا، لہٰذا وہ اپنے ہم وطنوں کے کندھے سے کندھا ملاکر لڑنے کیلئے وطن واپس چلے آئے۔ یہاں آکر انہوں نے ’لوک ناٹیہ منچ‘ کی ذمہ داریاں قبول کر لیں۔ یہ بھی ایک طریقہ تھا عام لوگوں سے وابستہ ہونے اور عام زندگی سے قریب رہنے کا۔ ناٹک یا ڈراموں کے ذریعہ ایک عام آدمی سے اداکار یا فنکار کا کتنا گہرا تعلق ہوتا ہے، یہ بات بلراج ساہنی کو بہت اچھی طرح معلوم تھی اور وہ یہی کر بھی رہے تھے۔ ڈراموں سے اُن کو اتنا لگائو تھا کہ رات دن سوتے جاگتے بس ڈراموں کی ہی باتیں ان کی گفتگو کا موضوع ہوا کرتی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ تحریک آزادی میں بھی برابر حصہ لیتے رہے اور ہر طرح سے کانگریس کے ایک اہم اور سرگرم رکن رہے۔ اسی دوران بلراج ساہنی کا ذہن فلموں کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے فلموں سے وابستہ ہونے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ ۱۹۴۴ء میں وہ اِپٹا (انڈین پیپلز تھیٹر اسوسی ایشن) سے وابستہ ہو گئے۔ وہیں رہتے ہوئے انہوں نے فلمساز و ہدایتکار فنی مجمدار کی فلم ’انصاف‘ میں ایک چھوٹا سا کردر ادا کیا۔
اس کے فوراً بعد ہی خواجہ احمد عباس کی فلم ’دھرتی کے لال‘ میں ایک بھرپورکردار ادا کرنے سے ان کی پہچان شروع ہوئی۔ یہ فلم بنگال کے قحط زدگان سے متعلق ایک انتہائی اثردار فلم تھی۔
جب بلراج ساہنی پوری طرح فلموں سے وابستہ ہو گئے اور انہوں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر فلموں میں شامل پایا تب اس زمانے کے چند بڑے اچھے اور قابل فلمساز اور ہدایتکار فلمی دنیا میں موجود تھے۔ یہ بلراج ساہنی کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو ہمیشہ قابل اور سلجھے ہوئے ہدایتکار اور فلمساز ملے۔ یہی وجہ ہے کہ فلمی آسمان پر بلراج ساہنی کا نام اس روشن ستارے کی طرح جگمگایا جس سے لوگ دشائوں کا گیان حاصل کرتے ہیں۔
بلراج ساہنی نے اپنی فلمی زندگی کا باقاعدہ آغاز ۱۹۴۶ء میں فلم’دھرتی کے لال‘ سے کیا مگر ان کو شہرت ۱۹۵۳ء میں ریلیز بمل رائے کی فلم ’دو بیگھہ زمین‘ سے ملی۔ اس فلم نے عالمی شہرت حاصل کی اور کانز فلم فیسٹیول میں اعزاز سے نوازی گئی۔ ۱۹۴۷ء میں کم عمری ہی میں اُن کی بیوی دمینتی ساہنی کا انتقال ہو گیا اور اس کے دو سال بعد ہی بلراج ساہنی نے اپنی ایک کزن سنتوش چنڈھوک سے شادی کر لی، جو بعد میں ٹیلی ویژن کی دنیا میں ایک مصنفہ کے طور پر مشہور ہوئیں۔
’گرم کوٹ، ہیرا موتی، دو بیگھہ زمین، دھرتی کے لال، گڑیا، راہی، نوکری، بدنام، مجبوری، اولاد، کٹھ پتلی، دو روٹی، سونے کی چڑیا، مائی باپ، ہم لوگ، کابلی والا، سیما، گرم ہوا، ہنستے زخم، وقت، امانت، ہندوستان کی قسم، گھر گھر کی کہانی، جواں محبت، پرایا دھن، حقیقت، سنگھرش اورنیل کمل‘ وغیرہ کچھ ایسی فلمیں ہیں جن میں بلراج ساہنی نے اپنی فنی صلاحیتوں سے ان سب کرداروں کو زندگی بخشی جو اِن فلموں میں انہوں نے پیش کئے۔ یہ چند ایسی فلمیں ہیں جن کی وجہ سے بلراج ساہنی کو فلمی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
(دوسری اور آخری قسط آئندہ ہفتے ملاحظہ کریں )