Inquilab Logo Happiest Places to Work

نسلی امتیاز مخالف لکشیا لیکی کا آن لائن ہندوتوا حملے کےبعد انسٹاگرام اکاؤنٹ بند

Updated: July 26, 2025, 11:47 PM IST | New Delhi

نسلی امتیاز کے خلاف آواز اٹھانے والے لکشیا لیکی کا الزام ہے کہ ہندوتوا صفحات کے آن لائن حملے کے بعد ان کا انسٹاگرام اکاؤنٹ معطل کر دیا گیا ہے۔

Anti-racism content creator Lakhshya Lakey. Photo: X
نسلی امتیازمخالف مواد تخلیق کار لکشے لیکی۔ تصویر: ایکس

ایک نسلی امتیازمخالف مواد تخلیق کار نے الزام لگایا ہے کہ میٹا (انسٹاگرام کی مالک کمپنی) نے ذات پات پر مبنی گالیوں اور ان کے اکاؤنٹ کی معطلی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ ان کا اکاؤنٹ  ’’لکشیا اسپیکس‘‘(Lakshya Speaks) ہندوستان میں ذات پات کے نظام اور اس کی موجودہ متعلقہ حیثیت کے بارے میں اپنے فالوورز کوآگاہ کرنے کا ذریعہ تھا۔ مکتوب میڈیا سے بات کرتے ہوئے، لکشیا لیکی نے بتایا کہ۱۰؍ جولائی کو ان کے ۳؍ لاکھ ۳۳؍ ہزار سے زیادہ فالوورز والے انسٹاگرام پیج کو معطل کر دیا گیا۔انہوں نے کہا’’میں ایک ذات پات کے بارے میں تعلیم دینے والا معلم ہوں اور ذات پات کے مسائل پر بات کرتا ہوں کیونکہ میرے خیال میں ذات پات کے نظام اور اس کے موجودہ طریقہ کار پر زیادہ بات نہیں ہوتی۔ جب سے میں نے شروع کیا ہے، ہمیشہ بہت سے لوگوں کے نشانے پر رہا ہوں، کیونکہ وہ ریزرویشن (اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں) یا ذات پات پر بات چیت سے ناخوش ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: کمل ہاسن نے راجیہ سبھا کی رکنیت کا حلف لیا

۲۶؍ سالہ لکشیا لیکی، جو انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ( آئی آئی ایم)کے گریجویٹ ہیں، نے کچھ سال قبل ذات پات پر بات کرنے کےمقصد سے  اپنا پیج بنایا تھا جو وقت کے ساتھ مقبول ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ شروع سے ہی انہیں نفرت انگیز ردعمل کا سامنا رہا، جو وقت گزرنے کے ساتھ بدتر ہوتا گیا۔ لکشیا عام طور پر ذات پات کے مسائل پر ویڈیوز بناتے یا پھراعلیٰ ذات اکاؤنٹس کی جانب سے شیڈولڈ کاسٹ ، کے خلاف غلط معلومات اور نفرت پھیلانے والی پوسٹ پر ردعمل دیتے۔ ان کی ویڈیوز کا مقصد عوام کو آگاہ کرنا تھا۔ انہوں نے مزید کہاکہ ’’بہت سے لوگوں نے مجھے بتایا کہ کس طرح میری ویڈیوز نے انہیں ان مسائل پر رہنمائی کی۔لکشیا کا کہنا تھا کہ ان کی ویڈیوز بہت سے ہندوتوا صفحات کو پسند نہیں آئیں اور انہیں باقاعدگی سے ای میل کے ذریعے نفرت آمیز پیغامات ملتے رہے۔ انہوں نے مکتوب کو بتایاکہ ’’یہ صورتحال اس حد تک پہنچ گئی کہ ایک موقع پر لوگوں نے مجھ سے ٹوائلٹ صاف کرنے کی قیمت پوچھی اور `چمارکو گالی اور توہین کے طور پر استعمال کیا۔واضح رہے کہ ’’بھنگی‘‘ اور ’’چمار‘‘ جیسی ذات پات پر مبنی گالیاں اکثر اعلیٰ ذات ہندو برادریاں شیڈولڈ کاسٹ پس منظر کے لوگوں کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔انہیں برادری کی جانب سے مسلط کردہ بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے سماجی تنہائی اور معاشی مشکلات دونوں پیدا ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: اپوزیشن پارٹیوں کا’ غیر معمولی‘ احتجاج

لکشیا نے ان ، جو ایک اسپیکر بھی ہیں، نے کہا کہ ان کا صفحہ ایک معلم کے طور پر کام تلاش کرنے کا ذریعہ بھی تھا۔لکشیا نے وضاحت کی کہ ’’میں نے صرف دیہی ہندوستان میں ذات پات کے مظالم پر ہی نہیں بلکہ شہری علاقوں میں بھی بات کی۔ پسماندہ ذات، اور قبائل (شیڈولڈ ٹرائب) کے طلباء ہر جگہ موجود ہیں، اور یہاں تک کہ تعلیم یافتہ حلقوں میں بھی ذات پات کے بارے میں علم کی کمی ہے، اس لیے میں نے لوگوں کو اس بارے میں تعلیم دی۔ نیز، جب لوگ کہتے ہیں کہ وہ فخر سے برہمن یا فخر سے راجپوت ہیں، تو وہ ذات پات کے نظام کو برقرار رکھ رہے ہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ جون میں ہراساں کرنے کا سلسلہ بہت شدید ہو گیا۔۲۹؍ جون کو، لکشیا نے الزام لگایا کہ ’’شیوم نیر‘‘ نامی ایک انسٹاگرام پیج نے کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا حوالہ دے کر ان کا اکاؤنٹ بند کرنے کی دھمکی دی۔میٹا (سابقہ فیس بک) کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس اپنے پلیٹ فارمز بشمول فیس بک، انسٹاگرام وغیرہ پر کاپی رائٹ کی خلاف ورزی سے نمٹنے کے لیے ’’سخت‘‘ پالیسیاں اور طریقہ کار موجود ہیں۔ صارفین مخصوص فارم کے ذریعے یا میٹا کے نامزد ایجنٹ سے رابطہ کر کے ممکنہ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کی رپورٹ کر سکتے ہیں۔ میٹا کے پاس برانڈ رائٹس پروٹیکشن پروگرام بھی ہے تاکہ کاروبار اپنی دانشورانہ ملکیت کی حفاظت کر سکیں۔تاہم، ماہرین کا خیال ہے کہ نہ صرف اس پالیسی کا نفاذ منتخب انداز میں ہوتا ہے، بلکہ میٹا نے جان بوجھ کر ان صفحات کو نشانہ بنایا ہے جو ہندوستان میں ذات پات پرستی، اسلامو فوبیا اور فلسطین جیسے مسائل پر بات کرتے ہیں۔لکشیا نے مزید کہاکہ ’’اس شیوم نامی شخص اور کچھ دوسرے اکاؤنٹس نے میرے بارے میں ایک اسٹوری پوسٹ کی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کی بنیاد پر میرے اکاؤنٹ کی بڑے پیمانے پر رپورٹنگ کرنے والے ہیں، اور چند ہفتوں بعد، میرا اکاؤنٹ معطل ہو گیا۔ مجھے کوئی نوٹس، کوئی وارننگ نہیں ملا — صرف ایک ای میل ملا جس میں کہا گیا تھا کہ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کی وجہ سے میرا اکاؤنٹ معطل کر دیا گیا ہے۔‘‘لکشے کا کہنا تھا کہ نیر کے اکاؤنٹ پر ایک اسٹوری بھی پوسٹ کی گئی جس میں لکھا تھا’’برہمن نے `چمار کے پیج کو تباہ کر دیا۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: عدالتوں میں خواتین، پسماندہ طبقات اور قبائلیوں کی نمائندگی کم، ججوں کے عہدے خالی

اس کے بعد لکشیا کے تعلق سے قابل اعتراض پوسٹ اور اے آئی سے تیار شدہ قابل اعتراض تصاویر بھی پوسٹ کی گئی۔ جس کے خلاف لکشیا نےپولیس سے شکایت کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس کا رویہ بھی سست روی کا شکار تھا۔لکشیا نے مزید کہا: ’’میں نے سائبر کرائم کے پاس بھی شکایت درج کرائی تھی، اور بالآخر انہوں نے اسے اسی پولیس اسٹیشن کو فارورڈ کر دیا جہاں میں گیا تھا۔‘‘مکتوب نے شیوم نیر سے ان کے انسٹاگرام پیج کے ذریعے رابطہ کیا، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’’ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
حال ہی میں، میٹا کے ’’منظم سنسرشپ‘‘اور دائیں بازو کی حکومتوں کے خلاف بولنے والی آوازوں کو دبانے کے خلاف شدید تنقید کی گئی ہے۔یہ اس وقت نمایاں ہوا جب انسٹاگرام نے بہت سے فلسطین نواز اکاؤنٹس معطل کر دیے۔ ہیومن رائٹس واچ نے ایک بیان میں کہا: ’’میٹا کی پالیسیوں اور طریقوں نے انسٹاگرام اور فیس بک پر فلسطین اور فلسطینی انسانی حقوق کی حمایت میں آوازوں کو خاموش کیا ہے، دریں اثنا، اگرچہ فیس بک نے اب اپنی ہیٹ اسپیچ گائیڈ لائنز میں ’’ذات‘‘کو محفوظ طبقات کی فہرست میں شامل کر لیا ہے، لیکن سوشل میڈیا پر دلت کے خلاف ذات پات پر مبنی نفرت انگیز تقریر کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK