Inquilab Logo Happiest Places to Work

بھارت بھوشن نے تاریخی کرداروں کو زندہ جاوید بنادیا

Updated: June 14, 2025, 11:31 AM IST | Agency | Mumbai

کچھ لوگ دنیا سے چلے جاتے ہیں لیکن ان کے کارنامے رہتی دنیا تک یاد رہتے ہیں۔ بھارت بھوشن بھی ایک ایسے ہی اداکار تھے۔ فن کاروں، ادیبوں، موسیقاروں، بھکتوں اور تاریخی حیثیت رکھنے والی شخصیات کو اپنی بہترین فطری اداکاری سے پردہ سیمیں پر زندہ کرنے والے بھارت بھوشن کی پیدائش ۱۴؍جون ۱۹۲۰ءکو میرٹھ میں اور پرورش علی گڑھ اترپردیش میں ہوئی تھی۔

A fine actor Bharat Bhushan. Photo: INN
ایک عمدہ اداکار بھارت بھوشن۔ تصویر: آئی این این

کچھ لوگ دنیا سے چلے جاتے ہیں لیکن ان کے کارنامے رہتی دنیا تک یاد رہتے ہیں۔ بھارت بھوشن بھی ایک ایسے ہی اداکار تھے۔ فن کاروں، ادیبوں، موسیقاروں، بھکتوں اور تاریخی حیثیت رکھنے والی شخصیات کو اپنی بہترین فطری اداکاری سے پردہ سیمیں پر زندہ کرنے والے بھارت بھوشن کی پیدائش ۱۴؍جون ۱۹۲۰ءکو میرٹھ میں اور پرورش علی گڑھ اترپردیش میں ہوئی تھی۔ بمبئی میں گلوکاربننے کی تمنا لے کر آنے والے بھارت بھوشن کو جب اس شعبہ میں کامیابی نہیں ملی تو انہوں نے اداکاری کی جانب قدم بڑھادیئے اور ۱۹۴۱ءفلم ’چترلیکھا‘ میں انہیں ایک چھوٹاسا رول ملا اور یہاں سے انہوں نے اپنےفلمی کریئرکی شروعات کی۔ وہ گلوکار تو نہیں بن پائے مگر اداکاری میں ضرور نام کمایا۔ کئی برسوں تک انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی لیکن فلم ساز وہدایت کاروجے بھٹ کی فلم بیجوباورا نےانہیں شناخت عطاکی۔ کہا جاتا ہے کہ فلم بیجوباورا نہ صرف بھارت بھوشن کے لئے بلکہ وجے بھٹ کے لئے نعمت ثابت ہوئی کیوں کہ ان دنوں ان کے پرکاش اسٹوڈیو کی حالت اچھی نہیں تھی۔ اس فلم نے ایک طرف جہاں وجے بھٹ کی مالی حالت کو بہتر بنایا بلکہ بھارت بھوشن اور میناکماری کو نئی پہچان دی اور ان کے اسٹار بننے کی راہ ہموار کی۔ اس فلم کے نغمے او دنیا کے رکھوالے...من تڑپت ہری درشن کو آج...تو گنگا کی موج میں جمناکا دھارا...بچپن کی محبت کو دل سے نہ جدا کرنا‘ انسان بنوکرلو بھلائی کا کوئی کام‘ جھولے میں پون کے آئی بہار‘اور دور کوئی گائے‘ جیسے نغموں کو لوگ آج تک نہیں بھول پائے ہیں۔ ان میں آج بھی وہی تازگی ہےجو پہلے تھی۔ کہاجاتا ہے کہ اس فلم کے لئےپہلے دلیپ کمار اور نرگس کو سائن کرنے کی بات چل رہی تھی لیکن موسیقار اعظم نوشاد نے وجے بھٹ پر زور ڈالا کہ جہاں تک ممکن ہو نئے اداکاروں کو لیں۔ اس پرعمل کرتے ہوئےانہوں نے بھارت بھوشن اور مینا کماری کو سائن کیا۔ 
۱۴۳؍فلموں میں اداکاری کا جوہر دکھانے والےبھارت بھوشن نے مشہور زمانہ شاعرمرزاغالب پرمبنی فلم’مرزا غالب‘ میں غالب کا رول بھی بخوبی نبھایا۔ سہراب مودی کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں بھارت بھوشن نے غالب کے کردار کو اس قدر خوبصورت انداز میں نبھایا ہے کہ ایسامحسوس ہوتا ہے کہ غالب بذات خود ہی پردے اتر آئے ہیں۔ دل چھونےوالی غزلوں ‘بہترین مکالموں اورعمدہ اداکاری کی بدولت اس فلم کونیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ غزلوں کے شہنشاہ طلعت عزیز اور اداکارہ و گلوکار ثریا کی میٹھی آوازنےاس فلم کو جلا بخشی اور۔ ۔ ۔ آہ کو چاہئےاک عمر اثر ہونے تک/کہتےہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور/پھرمجھےدیدۂ تر یاد آیا اور میرے بانکے بلم کوتوال۔ ۔ ۔ سے لوگ خوب لطف اندوز ہوئے۔ ۱۹۶۴ءمیں انہوں نے فلم ’دوج کا چاند‘ خود بنائی۔ لیکن بری طرح فلاپ ہونے کےبعد انہوں نےفلم سازی سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ ۱۹۶۷ءمیں ریلیز ہونے والے فلم ’تقدیر‘ بطور ہیرو ان کی آخری فلم تھی۔ جب حالات مزید خراب ہوئے اور فلموں میں کام ملنے کا سلسلہ بالکل بند ہوگیا تو انہوں نے چھوٹے پردے پر کام کرنا شروع کیا۔ انہوں نے بےچارے گپتاجی اور دشاجیسے سیریلوں میں بھی کام کیا۔ اس عظیم اداکار نے ۲۷؍ جنوری ۱۹۹۲ءکو اس جہاں سے خود منہ لیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK