Inquilab Logo

مغل اعظم ایک لازوال فلم ہے جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی

Updated: August 13, 2023, 3:19 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

ہندوستان کی چند بڑی، کامیاب اور کلاسک فلموں میں ’مغل اعظم‘ کا بھی شمار ہوتا ہے۔ کے آصف کی ہدایت میں بننے والی اس فلم میں اُن فنکاروں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جو اپنے وقت کے بے تاج بادشاہ تھے۔

Mughal-E-Azam.Photo. INN
مغل اعظم ۔ تصویر:آئی این این

ہندوستان کی چند بڑی، کامیاب اور کلاسک فلموں میں ’مغل اعظم‘ کا بھی شمار ہوتا ہے۔ کے آصف کی ہدایت میں بننے والی اس فلم میں اُن فنکاروں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جو اپنے وقت کے بے تاج بادشاہ تھے۔ پرتھوی راج کپور، دلیپ کمار، مدھوبالا، نوشاد، وجاہت مرزا، کمال امروہی ، محمد رفیع، لتا منگیشکر اور شکیل بدایونی۔ یہ لوگ فلم انڈسٹری کے وہ آفتاب و ماہتاب تھے جن میں سے کسی ایک کی بھی موجودگی ، کسی فلم کی کامیابی کی ضمانت تصور کی جاتی تھی۔ ایسے میں ان تمام ستاروں کاایک ساتھ جمع ہونا بہت بڑی بات تھی۔ یہی سبب ہے کہ فل ریلیز سے قبل ہی عوام و خواص میں کافی مقبول ہوچکی تھی اور جب ریلیز ہوئی تو یکے بعد دیگرے بہت سارے ریکارڈ اپنے نام کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
  ۶۳؍ سال قبل ۵؍ اگست ۱۹۶۰ء کو یہ فلم ریلیز ہوئی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس کی نمائش ملک بھر کے۱۵۰؍ سے زائد سینما گھروں میں ہوئی تھی۔اتنے زیادہ سینماگھروں میں ایک ساتھ ریلیز ہو کر مغل اعظم نے ایک ریکارڈ قائم کیا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں ، اس کے نام مزید کئی ریکارڈ بنے تھے۔ وکی پیڈیا کی رپورٹ کے مطابق ’مغل اعظم‘ نے ریلیز کے ابتدائی ہفتے میں ۴۰؍ لاکھ روپے کما کر ایک ریکارڈ قائم کیا تھا۔اس کے بعد بھی اس کی کمائی کا سلسلہ جاری رہا۔ اس طرح کچھ ہی دنوں میں اس نے ساڑھے ۵؍ کروڑ روپوں کا کاروبار کرلیا۔یہ فلم طویل عرصے تک سینماگھروں میں لگی رہی اور مراٹھا مندر سینما میں یہ لگاتار تین سال تک چلتی رہی۔ اس طرح اس نے اپنے زمانے کی سپر ہٹ اور باکس آفس پر سب سے کامیاب فلم ’مدر انڈیا‘کو بہت جلدی پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ گئی۔ وکی پیڈیا پر شائع رپورٹ کے مطابق ایک سے ڈیڑھ کروڑ کی بجٹ والی اس فلم نے مجموعی طور پر ۱۱؍ کروڑ روپوں کا کاروبار کیا۔ اس کی کمائی کو ۱۵؍ سال بعد فلم ’شعلے‘ نے چیلنج کیا ۔
 فلم کی ریلیز کے ۶۳؍ سال مکمل ہونے پر گزشتہ دنوں سائرہ بانو نے فلم کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر شیئر کرکے دلیپ کمار کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ فلم ایک بار پھر خبروں میں آگئی ہے۔ ویڈیو کے ساتھ ایک نوٹ شیئر کرتے ہوئے سائرہ بانو نے لکھا کہ ’’فلم شائقین آج تک اس تاریخی اور کلاسک فلم کو یاد کرتے ہیں ،یہ ایک طرح کی لازوال فلم ہے جس پر وقت کا سایہ نہیں پڑے گا اور فلمی تاریخ میں یہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’اس فلم میں دلیپ کمار کی شاندار اداکاری کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں ۔‘‘سائرہ بانو کی جانب سے جاری کئے گئے اس ویڈیو میں فلم کے مقبول گانے، پیار کیا تو درنا کیا اور موہے پنگھٹ پہ شامل ہیں ۔سائرہ بانو نے فلم میں سلیم کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ’’ دلیپ صاحب نے فلم میں پیار بھی کیا اور بغاوت بھی اور اس طرح انہوں نے سلیم کے کردار میں جان ڈال دی۔‘‘
 سائرہ بانو نے مزید لکھا کہ’’ فلم سازی کا سفر بھی بہت خوبصورت تھا۔ تقریباً۱۰؍ سال میں بننے والی اس فلم میں ہر چھوٹی چھوٹی بات پر پوری توجہ دی گئی اور کہیں پر بھی اس کے تقاضوں سے سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔
 ایک رپورٹ کے مطابق اُن دنوں فلموں کے ٹکٹ کی قیمت ڈیڑھ یا ۲؍ روپے ہوتی تھی لیکن مغل اعظم کے ٹکٹ کی قیمت ۱۰۰؍ روپے طے کی گئی تھی جبکہ ۱۹۶۰ء میں ہندوستان میں ۱۰؍ گرام سونے کی قیمت۱۱۲؍ روپے تھی۔ اس کے باوجود فلم کی بکنگ کیلئے سنیما گھروں کے باہر ایک اژدہام ہوتا تھا اور اس کی وجہ سے کئی جگہوں پر افراتفری بھی دیکھنے میں آئی۔ بعض جگہوں پرحالات کو قابو میں رکھنے کیلئے پولیس کی مدد لینا پڑی۔کہا جاتا ہے کہ اس فلم کے ٹکٹ لینے کیلئے لوگوں نے چار سے پانچ دن قطاروں میں رہ کر انتظار کیا۔ اس دوران ان کےگھروں سے ا ن کیلئے کھانا آتا تھا۔
 مغل اعظم کا رنگین ورژن ۱۲؍ نومبر۲۰۰۴ءء کو تھیٹر میں ریلیز کیا گیا تھا۔اس موقع پر بھی ملک بھر میں اس کے ۱۵۰؍پرنٹس جاری کئے گئے تھے۔رنگین مغل اعظم کا پریمیئر ممبئی کے ایروز سنیما میں ہواتھا جس میں دلیپ کمار بہ نفیس شریک تھے۔مغل اعظم کا بلیک اینڈ وائٹ ورژن ۱۹۷؍ منٹ کا تھا جبکہ رنگین ورژن کو کم کرکے۱۷۷؍ منٹ تک محدود کر دیا گیا تھا۔ 
 باکس آفس کے ساتھ ہی فلم ناقدین کے معیار پر بھی پوری اُتری تھی اور اسے ایوارڈ بھی اچھے خاصے ملے تھے۔ اُس سال تین بڑی فلمیں مغل اعظم، چودہویں کا چاند اور پرکھ ریلیز ہوئی تھی اور ایوارڈ کیلئے ان تینوں میں خاصی مقابلہ آرائی رہی۔ ایوارڈ کے ۱۶؍ زمرے تھے جن میں سب سے زیادہ مغل اعظم کو نمائندگی ملی تھی۔ اسے ۱۱؍ زمروں کیلئے نامزد کیا گیا تھا لیکن ایوارڈمذکورہ تینوں فلموں کو برابر برابر یعنی تین تین ایوارڈ ملے۔مغل اعظم کے حصے میں بہترین فلم، بہترین مکالمے اور بہترین سنیما ٹو گرافی کے فلم فیئر ایوارڈ آئے تھے۔ بہترین اداکار کا ایوارڈ دلیپ کمار ہی کے حصے میں آیا لیکن مغل اعظم کیلئے نہیں بلکہ فلم ’کوہ نور‘ کیلئے۔ حیرت انگیز طورپر آج مغل اعظم کو ایک شاہکار فلم میں تبدیل ہونے کیلئے سب سے زیادہ کریڈٹ ہدایتکار ’کے آصف‘ کو دی جاتی ہے لیکن اُس وقت جب وہ فلم ریلیز ہوئی تھی، وہ بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اُس سال ہدایت کار کا ایوارڈ بمل رائے کو فلم ’پرکھ‘ کیلئے ملا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK