محض ۲۰؍ سال کی عمر میں ان کی کہانی پر پہلی فلم ’جیلر‘ ریلیز ہوئی، اس کے بعداگلے ہی سال فلم ’پکار‘ ریلیز ہوئی جس نے تہلکہ مچا دیا، اس میں کہانی اور مکالموں کے ساتھ نغمہ بھی انہوں لکھا تھا۔
EPAPER
Updated: October 26, 2025, 12:28 PM IST | Anis Amrohvi | Mumbai
محض ۲۰؍ سال کی عمر میں ان کی کہانی پر پہلی فلم ’جیلر‘ ریلیز ہوئی، اس کے بعداگلے ہی سال فلم ’پکار‘ ریلیز ہوئی جس نے تہلکہ مچا دیا، اس میں کہانی اور مکالموں کے ساتھ نغمہ بھی انہوں لکھا تھا۔
۱۹۳۲ء کے آس پاس کا زمانہ تھا۔ لاہور میں ضمیر علی کی ایک لانڈری ’ہمدرد لانڈری‘ کے نام سے مشہور تھی۔ وہ دوست نواز انسان تھے۔ مشہور اردو شاعر اخترؔشیرانی بھی اُن کے دوستوں میں تھے اور مشہور اداکار نواب علی بھی۔ خوب محفلیں جمتی تھیں۔ شعر وشاعری سے لے کر فلم اور سیاست پر خوب بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ ان کی لانڈری میں بجنور (یوپی) کا ایک نوجوان لڑکا فراہیم ملازم تھا۔ اُس کو بہت سے لوگ ’فرّی‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ اسے فلموں میں کام کرنے اور ہیرو بننے کا بڑا شوق تھا۔ وہیں اس کا ایک دوست امیر حیدر بھی اس کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ لانڈری کا ملازم نہیں تھا، مگر فرّی کی دوستی اور فلموں سے شوق کی وجہ سے دونوں ساتھ رہتے تھے۔ شاید اسلئے بھی کہ امیر حیدر گھر سے بھاگا ہوا ایک نوجوان تھا۔ اس کے پاس کچھ کہانیاں تھیں، جن کو وہ اپنے دوستوں میں یہ کہہ کر سنایا کرتا تھا کہ ان کہانیوں پر فلمیں بنیں گی۔ اس وقت لوگ اُس کی بات پر ہنس دیا کرتے تھے۔
اتفاق کی بات ہے کہ ایک بار مشہور فلمساز وہدایتکار اور منروا مووی ٹون کے روحِ رواں سہراب مودی لاہور پہنچے اور اپنے شاعر دوست اخترؔشیرانی کے یہاں ٹھہرے۔ وہیں سب دوستوں کی محفل جمی ہوئی تھی۔ ضمیر علی بھی اس محفل میں موجود تھے۔ بات چیت کے دوران انہوں نے سہراب مودی سے کہا کہ جناب ہمارے یہاں دو لڑکوں پر فلموں کا بڑا بھوت سوار ہے۔ اگر آپ ایک بار اُن سے بات کر لیں تو شاید یہ بھوت اُتر جائے۔ مودی صاحب رضامند ہو گئے، بولے کہ ٹھیک ہے بُلا لو، اچھا ہے... تھوڑی تفریح ہی سہی۔ ‘‘
اگلے دن دونوں نوجوان لڑکوں کو مودی صاحب کے سامنے پیش کیا گیا۔ پہلا نمبر فراہیم کا تھا۔
’’تم کیا بننا چاہتے ہو؟‘‘ مودی صاحب نے سوال کیا۔
’’ہیرو۔ ‘‘ بڑے شرمیلے انداز میں فرّی نے جواب دیا۔
’’کار چلانی آتی ہے؟‘‘
’’جی نہیں۔ ‘‘
’’موٹر سائیکل؟‘‘
’’جی نہیں ..... سائیکل چلا لوں گا۔ ‘‘
فرّی کا جواب سُن کر سب لوگ ہنس پڑے۔ اسی طرح کے کچھ اور سوال کرکے فراہیم کو کمرے سے باہر بھیج دیا گیا۔
اب باری امیر حیدر کی تھی۔ بوٹے سے قد کا گورا چٹا نوجوان لڑکا جب سہراب مودی جیسی قدآور شخصیت کے سامنے جا کر کھڑا ہوا تو انہوں نے حیران بھری نگاہوں سے اِس خوبصورت لڑکے کی طرف نیچے سے اوپر تک دیکھا اور دِل میں سوچا کہ اتنا کم عمر اور معصوم سا لڑکا کیا کہانیاں لکھے گا؟ لڑکا مودی صاحب کے دِل کی بات بھانپ گیا اور اِس سے پہلے کہ مودی صاحب کوئی سوال کرتے، اُس نے سہراب مودی سے کہا۔
’’مودی صاحب.... میں دیکھنے کی نہیں، سننے کی چیز ہوں۔ ‘‘
چھوٹی سی عمر کے معصوم سے لڑکے کے منہ سے ایسی بات سُن کر مودی صاحب بہت متاثر ہوئے اور فوراً کہانی سننے کے لئے راضی ہو گئے۔ امیر حیدر نے بھی بغیر ایک لمحہ ضائع کئے ایک کہانی ’جیلر‘ کے عنوان سے مودی صاحب کو اس انداز میں سنائی کہ مودی صاحب نے نہ صرف کہانی پسند کی بلکہ اس نوجوان کو بھی اپنے ساتھ بمبئی لے جانے کا فیصلہ کر لیا اور اسی وقت جیب سے روپے نکالتے ہوئے بولے۔
’’نوجوان! یہ چار سو روپے رکھو اور بمبئی چلنے کی تیاری کرو۔ ہم وہاں تم کو بتائیں گے کہ اس کہانی کو فلم کیلئے کس طرح لکھا جائے گا۔ اب ہم کشمیر جا رہے ہیں، واپسی میں تم ہمارے ساتھ بمبئی چلوگے.... تیار رہنا۔ ‘‘
چار سو روپے اس وقت اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے اس نوجوان کے دل کی دھڑکن بے قابو ہوئی جا رہی تھی اور ہاتھوں میں کپکپاہٹ ہونے لگی تھی کیونکہ اب سے پہلے کبھی اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک کہانی کا معاوضہ اتنا بھی ہو سکتاہے۔
امیر حیدر نے فوراً بازار جاکر ایک جوڑی نئے جوتے، دو تین نئے کُرتے، ایک ہولڈال اور ضرورت کا کچھ اور سامان خریدا اور مودی صاحب کی واپسی کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔ مودی صاحب بات کے پکّے اور سچّے انسان تھے۔ انہوں نے واپسی میں امیر حیدر کو بھی اپنے ساتھ لیا اور بمبئی پہنچ گئے۔ بمبئی پہنچ کر امیر حیدر نے ’منروا مووی ٹون‘ کیلئے اُس کہانی کو ’جیلر‘ کے عنوان سے فلمی انداز میں سیّد امیر حیدر کمال کے نام سے لکھا۔
’جیلر‘ کی کامیابی کے بعد سہراب مودی نے اپنی شہرۂ آفاق تاریخی فلم ’پُکار‘ کی کہانی بھی سیّد امیر حیدر کمال سے لکھوائی۔ اس فلم نے کامیابی اور شہرت کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ چاروں طرف کمال کے نام کا ڈنکا بج گیا اور ’’باادب، باملاحظہ ہوشیار‘‘ کی آواز پوری فلم انڈسٹری میں گونجنے لگی۔
۱۷؍جنوری ۱۹۱۸ء کو اُتر پردیش کے مردم خیز شہر امروہہ میں ایک زمیندار گھرانے میں کمال امروہی کا جنم ہوا۔ ان کا اصلی نام سیّد امیر حیدر تھاجبکہ گھر والے پیار سے ’چندن‘ کہتےتھے۔ گھر میں سب سے کم عمر ہونے کی وجہ سے کمال امروہی بہت شرارتی، چنچل اور لاڈلے تھے۔ بچپن ہی سے کمال امروہی کو حُسن کی طرف بڑی کشش تھی۔ خواہ وہ قدرت کے حسین مناظر ہوں یا قدرت کا بنایا ہوا کوئی حسین چہرہ۔
ایک بار اُن کے خاندان میں ایک شادی تھی۔ ایسے میں ان کے گھرمیں کئی حسین چہرے جمع تھے۔ مہمانوں سے گھر بھرا ہوا تھا۔ کسی بات پر گھر کی دودھ والی سے کمال کا جھگڑا ہوا اور اس نے کمال کے بڑے بھائی سے شکایت کر دی۔ بڑے بھائی کا گھر میں بڑا رعب تھا۔ وہ پولیس میں ملازم تھے۔ انہوں نےایک زناٹے دار تھپڑ کمال کے گال پر جڑ دیا۔ بڑے بھائی کا تھپڑ کھانا تو کمال کیلئے کوئی بڑی بات نہیں تھی مگر اُس وقت وہ حسینوں کے ہیرو بنے ہوئے تھے، ایسے میں اُن سب کی موجودگی میں اس تھپّڑ کووہ برداشت نہیں کرسکے اور گھر چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کرلیا۔
اُسی رات کمال نے اپنی بہن کا سونے کا کنگن الماری سے نکالا اور صبح کو سولہ روپے میں فروخت کرکے لاہور جانے والی گاڑی پکڑ لی۔ دس روپے خرچ کرکے کمال لاہور پہنچ گئے۔ اس کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا، اس کی کہانی اوپر بیان کی جاچکی ہے۔
کمال ہندوستانی سینما کیلئے ایک بہت بڑی شخصیت کے روپ میں فلم ’پکار‘ سے اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہوئے۔ اُن کو اپنے آپ پر بہت بھروسہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے پہلی بار ایک قلمکار کے روپ میں یہ شرط رکھی کہ ان کا نام فلم کے پردے پر الگ سے ایک فریم میں دیا جائے گا۔
اس طرح ایک کہانی کار اور ایک مکالمہ نگار کی الگ سے پہچان کرانے میں ان کی یہ پہل تھی۔ ورنہ اس سے پہلے کہانی کار اور مکالمہ نگار کا نام فلمی پردے پر بہت سے ناموں کی بھیڑ میں کہیں چھوٹا موٹا سا آجاتا تھا۔ کہانی کار کو فلم انڈسٹری میں منشی کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور اس کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہوا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ فلمساز یا ہدایتکار کے گھر کا کام اور بچوں کی دیکھ بھال تک کر لیا کرتا تھا۔
انہی دنوں خواجہ احمد عباس نے کمال امروہی کی ایک کہانی ’آہوں کا مندر‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا جو بہت مقبول ہوئی۔ عباس ہی نے کمال کو ’بامبے ٹاکیز‘ کے روحِ رواں ہمانشو رائے سے ملوایا جہاں وہ بامبے ٹاکیز کے شعبۂ کہانی (اسٹوری ڈپارٹمنٹ) کے سربراہ بن گئے۔ ہمانشو رائے کے انتقال کی وجہ سے کمال امروہی کی مشہور کہانی ’آہوں کا مندر‘ پر فلم بنتے بنتے رہ گئی۔ اُن دنوں جب بامبے ٹاکیز کا تمام کام اشوک کمار دیکھتے تھے، کمال امروہی نے فلم ’محل‘ کی کہانی لکھی اور اس کے ساتھ ہی وہ پہلی بار ہدایتکاری کے میدان میں اترے۔ حالانکہ اس فلم کے تمام معاملات اشوک کمار کے ہاتھ میں تھے مگر بینر بامبے ٹاکیز کا تھا۔ فلم ’محل‘ (۱۹۴۹ء) اپنے وقت کی کامیاب ترین فلم تھی۔ اسی فلم سے ہندوستانی سینما میں سسپنس فلموں کے دور کا آغاز ہوا اور اداکارہ مدھوبالا کو ایک پہچان ملی۔ اس فلم کے گانے ’’آئے گا آنے والا‘‘ سے لتا منگیشکر پر بھی کامیابی کے دروازے کھل گئے۔
ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا۔ وہاں ممتاز نام کی ایک خوبصورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔ جب وہ میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟ اُن دنوں کمال کو فلم ’محل‘ کیلئے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھو بالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بن گئی۔
اشوک کمار اِس فلم کے ہیرو تھے۔ کمال امروہی کو ان کے مکالموں کی ادائیگی پسند نہیں تھی۔ وہ اشوک کمار کو بالکل نئے انداز میں پیش کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے فلم کی شوٹنگ درمیان میں ہی رُکوا دی اور تین ماہ تک وہ اشوک کمار کے ساتھ فلم کے مختلف مناظر پر اور اُس کہانی میں اشوک کمار کے کردار کے بارے میں بات چیت کرتے رہے۔ آخرکار جب اشوک کمار اس کردار میں پوری طرح اُتر گئے، تب انہوں نے فلم کی شوٹنگ دوبارہ شروع کی اور نو دس ماہ میں ہی فلم مکمل کرکے نمائش کیلئے پیش کر دی۔
اشوک کمار کی انگلیوں میں دبی سگریٹ کا جلتے رہنا اور اُس کے جلنے سے اشوک کمار کا چونکنا اور اشوک کمار کا چلنے کا انداز، یہ سب فلم کی خصوصیات بن گئی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم ’محل‘ ہندوستانی سینما کیلئے میل کا پتھر ثابت ہوئی۔
دوسری اور آخری قسط آئندہ ہفتے ملاحظہ کریں