Inquilab Logo

’’میں فلموں میں ہی کام کرنا پسند کرتا ہوں اور اس کیلئے بھرپور کوششیں بھی کرتاہوں‘‘

Updated: October 01, 2023, 2:59 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai

فلم ’لکشیا‘ سے اپنے فلمی کریئر کا آغاز کرنے والے اداکار فردوس حسن کا کہنا ہےکہ وہ فلموں کے ساتھ ہی او ٹی ٹی پر بھی توجہ دے رہے ہیں لیکن ٹی وی شوز میں کام کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

Firdaus Hassan. Photo. INN
فردوس حسن۔ تصویر:آئی این این

بہار سے دہلی اور پھرممبئی آکر اپنے فلمی کریئر کو پروان چڑھانے والے اداکار فردوس حسن نے بہت زیادہ محنت کی ہے۔ انہوں نے رتیک روشن کی فلم ’لکشیا‘ سے اپنے کریئر کی شروعات کی تھی۔ اس کے بعد وہ مسلسل چھوٹے بڑے رول کے ساتھ انڈسٹری میں سرگرم رہے۔ حال ہی میں وہ تمنابھاٹیہ کے ویب شو ’آخری سچ‘ میں پولیس اہلکار کے رول میں نظر آئے تھے۔ فردوس نے’جے این یو‘ سے جاپانی زبان کا کورس بھی کیا ہے اور وہ کچھ سال جاپانی زبان کے مترجم بھی رہے لیکن انہیں اداکاری سے محبت تھی، اسلئے اسی میدان میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ انقلاب نے فردوس سے بات چیت کی جسے یہاں پیش کیا جارہا ہے:
اداکار بننے کا فیصلہ کس طرح کیا؟
 ج: میں پہلے ہی سے اداکار بننے کا خواہشمند تھا لیکن میرے اہل خانہ اس کیلئے راضی نہیں تھے اور گھر کا ماحول بھی ایسا نہیں تھا کہ میں شو بز کی دنیا میں آجاتا۔ میں چھوٹے شہر سے تعلق رکھتا ہوں لیکن جب پٹنہ جیسے بڑے شہر میں آیا تو وہاں بھی کالج میں ایکٹنگ کے تعلق سے کوئی زیادہ کام کرنے کاموقع نہیں ملا۔تاہم وہاں معلوم ہواکہ دہلی میں نیشنل اسکول آف ڈراما ہے جہاں سے اداکاری کی تربیت حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہی سوچ کر میں نے دہلی کا رخ کیا اور وہاں جے این یو میں داخلہ لے لیا اور جاپانی زبان کا کورس کرنے لگا۔ میرے بڑے بھائی اقبال پہلے ہی سے جے این یو میں تھے جو میرے لئے کافی مددگار ثابت ہوئے۔جے این یو میں، میں نے صفدر ہاشمی کے تھیٹر گروپ میں شمولیت اختیار کی اور اس طرح میرے اداکاری کے سفر کی شروعات ہوئی۔ 
 فلم انڈسٹری میں پہلا موقع کس طرح ملا ؟
 ج: جے این یومیں تعلیم کے دوران مجھے کسی نے بتایا تھاکہ فرحان اختر کی فلم’ لکشیا‘ کیلئے نوجوانوں کا آڈیشن لیا جارہا ہے۔ میں نے طے کیا کہ اس موقع کا فائدہ اٹھایا جائے۔ اس کیلئے میں نے آڈیشن کے مقام کا پتہ لگانا شروع کر دیا اورمجھے اس کی معلومات بھی مل گئی لیکن جو پتہ ملا تھا وہاں پہنچنے کے بعد معلوم ہواکہ وہاں کچھ نہیں ہورہا تھا ۔ ناکام ہونے کے بعد واپس ہورہا تھا کہ خیال آیا کہ ایک بار پھر کوشش کی جائے۔ اس وقت کسی نے مجھے بتایا کہ ایک عمارت کے تہہ خانہ میں آڈیشن جاری ہے۔ جب میں پہنچا تو وہ ختم ہوچکا تھا اور ایک دوشیزہ سامان سمیٹ رہی تھی۔ منت و سماجت کے بعد اس لڑکی نے صرف اتنا کہاکہ میں جوپوچھوں اس کاکیمرے کے سامنے جواب دینا۔ میں نے ہامی بھرلی اور اس لڑکی کے سوالوں کا جواب دینا شروع کردیا۔ اس لڑکی نے کہاکہ آپ اپنا فون نمبر اور پتہ دے دیں ہم آپ سے رابطہ کریں گے۔ میں نے اپنے بڑے بھائی کا فون نمبر دیا۔ چند ہفتوں کے بعد لکشیہ کی ٹیم میرے ہاسٹل پہنچی،تو پتہ چلا کہ مجھے لکشیہ کیلئے منتخب کرلیا گیا ہے۔ 
 بالی ووڈ میں اِس وقت آپ کی مصروفیات کیا ہیں ؟ 
  ج:اس وقت میں ایک ویب شو’ آخری سچ‘ میں کام کررہا ہوں ۔ اس کے بعدایک فلم میں بھی کام کررہا ہوں اور اس کی ۶۰؍ فیصد شوٹنگ مکمل ہوچکی ہے۔ بقیہ شوٹنگ اکتوبر اور نومبر میں پوری ہوجائے گی۔ اس فلم کا نام ’عشقانا‘ ہے۔ ہم نے اس کی شوٹنگ رائے پور، چھتیس گڑھ اور ممبئی کے مقامات پر کی ہے۔اس میں میرا مرکزی کردار ہے۔اس کے ساتھ ہی ۲؍ پروجیکٹ کی بات چیت ہوگئی ہے اور میٹنگ بھی تقریباً طے پاچکی ہے لیکن اس تعلق سے میں زیادہ جانکاری فراہم نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد دیکھتےہیں کس پروجیکٹ میں موقع ملتاہے۔ 
آخری سچ میں تمنا بھاٹیہ کےساتھ کام کرنےکا تجربہ کیسا رہا ؟
 ج:تمنا بھاٹیہ کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بہت اچھا رہاہے۔ وہ اچھی فنکارہ ہونے کےساتھ ہی بہت اچھی انسان بھی ہیں اور ہمہ وقت مدد کیلئے تیار رہتی ہیں ۔ ان کے اندر اَنا نہیں ہے اور وہ اسٹارڈم پر یقین نہیں رکھتیں ۔ میرا یہی خیال ہےکہ انسان کتنا بھی شہرت اور دولت والا بن جائے جب تک وہ اچھا انسان نہیں ہے اس کیلئے یہ ساری چیزیں بے کار ہیں ۔ تمنا بھاٹیہ بھی ایسی ہی ہیں ۔ وہ ایک بڑی اسٹار ہیں ،اس کے باوجودکافی اچھے سے پیش آتی ہیں ۔ 
بالی ووڈ میں جدوجہد کے دوران آپ نے کس طرح خود کو سنبھالا ؟
 ج:بالی ووڈ میں پیر جماناآسان نہیں ہے اور اس کیلئے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ ایک فلم میں کام کرنے کے بعددوسری فلم کیلئے انتظار بھی کرنا پڑاتھا اور آڈیشن کے بعد ناکامی ہی ہاتھ لگتی تھی۔ میرے والد پرنسپل تھے، انہوں نے ہماری تربیت کے دوران بارہا کہا کہ کسی بھی حال میں مایوس نہیں ہوناچاہئے کیونکہ مایوسی کفرہے۔ میں نے ان کی اس بات کو گانٹھ میں باندھ لیا،اس کی وجہ سے سے میرےذہن پر کبھی کوئی منفی سوچ حاوی نہیں ہونے پائی ۔
خود کو ممبئی کے ماحول میں ڈھالنے میں دشواری تو پیش نہیں آئی ؟
 ج:میرا تعلق بہار سے ہے اور مجھے ممبئی میں کام کرنا تھا۔ان دونوں ہی مقامات پر زبان اورماحول کا فرق واضح تھا۔ بہرحال میں نے خود کو تبدیل نہیں کیا اور میں یہ مانتاہوں کہ کسی دوسرے کیلئے اپنی شخصیت کو تبدیل نہیں کرنا چاہئے۔آپ کہیں بھی رہیں ، آپ جیسے ہیں ، ویسے ہی رہیں ، آپ کو تبدیل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ 
کیاآپ تفریح کے کسی خاص میڈیم پر توجہ مرکوز کرتے ہیں ؟
 ج:میں نے آغاز ہی فلم سے کیا تھا اور اس کے بعد اسی میں مصروف رہا۔ میں نے پہلے بھی ٹی وی شوکیلئے کوشش نہیں کی تھی اورمستقبل میں بھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں فلموں میں ہی کام کرنا پسند کرتاہوں اور اس کیلئے بھرپور کوشش کرتاہوں ۔ لاک ڈاؤن کے دوران اوور دی ٹاپ (او ٹی ٹی ) نے خود کو منوایا ہے۔ میرے خیال میں نئے ہدایتکاروں اور اداکاروں کیلئے یہ بہت اچھا پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعہ بہت سے افراد کو روزگا رملا۔اس کی وجہ سے کئی اچھی صلاحیتیں بھی سامنے آئیں اور انہوں نے اپنے ہنر کو منوایا۔ بہرحال میں فلم اور او ٹی ٹی پر ہی توجہ مرکوز کرناچاہتا ہوں ۔ 
اداکاری کے ساتھ اور کیا کرنا پسند کرتے ہیں ؟ 
 ج:میں نے اپنے کریئر میں کبھی بھی پلان بی کا تصور نہیں کیا۔ میں اداکار بننا چاہتا تھا اور اسی راہ پر چلتے ہوئے اپنی منزل حاصل کی۔ اگر میں یہ سوچتا کہ میں کچھ بنوں گا یا کچھ اور کام کروں گا تو میں کبھی بھی اداکاری کی راہ پر چل نہیں پاتا تھا اور اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اسلئے جب تک کریئر میں کرو یا مرو والی صورت حال نہ آئے تب تک آدمی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ۲۰۰۳ء میں میرے پاس جاپانی زبان کے مترجم کی اچھی ملازمت تھی اور میں ماہانہ ۱ء۵؍ سے۲؍لاکھ روپے کما رہا تھا لیکن مجھے ایکٹر بننا تھا، اسلئے میں نے اس ملازمت کی قربانی دی۔ لاک ڈاؤن کے بعد بھی میں نے اپنی سوچ نہیں بدلی ، حالانکہ مالی طورپر پریشان تھا اس وقت میں نے خدا سے مانگی او رمیرا مسئلہ حل ہوگیا۔ 
کیاجاپانی زبان آپ نے شوقیہ سیکھی تھی؟
 ج:میں نے بہت ہی غوروخوض کے بعد جاپانی زبان کاکورس کیا تھا ۔ میں زندگی میں کوئی بھی کام بہت سوچ سمجھ کر کرتا ہوں ۔ میں نے ۱۰؍ویں جماعت کے بعد اپنے اہل خانہ سے جیب خرچ لینا بند کردیا تھا اوراپنا خرچ خود سنبھال رہا تھا۔ جے این یومیں تعلیم کے دوران بڑے بھائی نے مدد کی لیکن وہاں بھی میں نے دہلی میں چھوٹے چھوٹے کام کرکے اپنا جیب خرچ پورا کرنا شروع کردیا تھا۔ جاپانی سیکھنے کا بھی مقصد یہی تھا کہ میں مالی طورپر مضبوط رہوں ۔ جب بھی میرے پاس کام نہیں ہوتا تھا تو میں دہلی میں ایک ماہ تک مترجم کی ملازمت کرتا تھا اور بقیہ ۱۱؍ماہ اسی پر گزارا کرتا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK