ہندوستان کی آزادی سے قبل کے صوبہ بنگال کے ضلع فریدپور کے ایک گائوں عِدلاپور میں ۲۳؍نومبر ۱۹۳۰ء کو گیتارائےکا جنم ہوا۔ یہ علاقہ آج کل بنگلہ دیش میں ہے۔ ان کے والد دیویندر ناتھ چودھری گائوں کے زمیندار تھے۔ گیتا رائے کی والدہ امیہ رائے چودھری کو موسیقی اور شاعری سےبہت لگائو تھا۔ گیتا رائے اپنے ۱۰؍ بہن بھائیوں میں اکیلی ہی ایسی لڑکی تھیں جن کو اپنی ماں کی طرح موسیقی سے خاص شغف تھا۔
گیتا دت۔ تصویر: آئی این این
ہندوستان کی آزادی سے قبل کے صوبہ بنگال کے ضلع فریدپور کے ایک گائوں عِدلاپور میں ۲۳؍نومبر ۱۹۳۰ء کو گیتا رائے کا جنم ہوا۔ یہ علاقہ آج کل بنگلہ دیش میں ہے۔ ان کے والد دیویندر ناتھ چودھری گائوں کے زمیندار تھے۔ گیتا رائے کی والدہ امیہ رائے چودھری کو موسیقی اور شاعری سےبہت لگائو تھا۔ گیتا رائے اپنے ۱۰؍ بہن بھائیوں میں اکیلی ہی ایسی لڑکی تھیں جن کو اپنی ماں کی طرح موسیقی سے خاص شغف تھا۔ اُن کے ۶؍بھائی اور ۳؍ بہنیں تھیں۔ گیتا رائے کی تعلیم اینگلو بنگالی اسکول میں ہو رہی تھی اور اسی کے ساتھ وہ پنڈت ہریندر ناتھ چودھری سے موسیقی کی تعلیم بھی حاصل کر رہی تھیں، جو تقریباً ۳؍سال تک جاری رہی۔ آزادی سے قبل ہی ۱۹۴۲ء میں گیتا رائے کا خاندان بنگال سے بمبئی منتقل ہو گیا اور دادر کی ہندو کالونی میں رہائش اختیار کی۔ یہاں آکر بھی گیتا رائےنے اپنا موسیقی کا ریاض جاری رکھا۔اُسی بلڈنگ میں موسیقار ہنومان پرساد بھی رہائش پزیرتھے۔ ایک دن بلڈنگ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے انہوںنے گیتا رائے کی سریلی آواز سنی اور وہ اس آواز سے اتنے متاثر ہوئے کہ فوراً گیتا رائے اور ان کے والدین سے ملے اور گیتا رائے کی آواز کی بہت تعریف کی۔ اس کے بعد اکثر وہ گیتا رائے کا ریاض سنتے رہے۔۱۹۴۶ء میں موسیقار ہنومان پرساد فلم ’بھکت پرہلاد‘‘ کامیوزک تیار کر رہے تھے۔تب انہوں نے ایک گانے کے کورَس میں گیتا رائے کو شامل کیا اور اس طرح پہلی بار کسی فلمی گانے میں چند لائنیں گانے کا موقع گیتا رائے کو ملا۔ اس کے بعد مشہور موسیقار ایس۔ ڈی۔ برمن کو گیتا رائے کی آواز سننے کا موقع ملا اور انہوں نے فلم ’دو بھائی‘ میں گیتا رائے سے گانے ریکارڈ کرانے کا ارادہ کر لیا۔ یہ فلم فلمستان اسٹوڈیو کیلئےبنائی جا رہی تھی، اور اس کے مالک چنی لال جی ایک نئی آوازسے گانے ریکارڈ کرانے کیلئے راضی نہیں تھے۔ مگر ایس۔ڈی۔ برمن کے اعتماد کو دیکھتے ہوئے انہوں نے رضامندی دے دی۔ اس طرح گیتا رائے نے پہلی بار فلم ’دو بھائی‘ کے لیے ایس۔ ڈی۔ برمن کی موسیقی میں گانے ریکارڈ کرائے جو بے حد پسند کیے گئے اور برمن دا کا اعتماد صحیح ثابت ہوا۔ بعد میں گیتا رائے ایس۔ ڈی۔ برمن کی پہلی پسند بن گئیں۔ اس طرح گیتا رائے کا فلمی گلوکارہ کے طور پر وہ سفر شروع ہوا جو اگلی ۳؍ دہائیوں تک فلمی شائقین کے دلوں کو کبھی گدگداتا رہا اور کبھی اُداسی کے عالم میں اُن کے دل کی ترجمانی کرتا رہا۔
۱۹۴۷ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی فلم ’دوبھائی‘ کے گانے ’میرا سندر سپنا بیت گیا‘ نےملک میں دھوم مچا دی تھی اور دوسرے موسیقاروں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ لہٰذا اگلے دو برس میں لگاتار ان کے کامیاب نغموں نے ان کو گلوکارہ راجکماری اور شمشاد بیگم کی صف میں لاکھڑا کیا تھا۔ ۱۹۴۷ء میں انہوں نے موسیقار شیام سندر کے سنگیت پر شمشاد بیگم کے ساتھ ایک دوگانا ریکارڈ کیا… ’آنکھوں آنکھوں میں دل سے دل کی بات کہہ گئے‘ اور اگلے ہی سال گیتا رائے کی آواز موسیقار غلام حیدر کی موسیقی میں دو فلموں ’شہید‘ اور ’مجبور‘ میں سنائی دی۔ ’شہید‘ فلم میں اداکارہ کامنی کوشل پر گیتا رائے کا نغمہ ’میں دو دن کی مہمان پیا‘ سن کر لوگوں کا دل بھر آیا۔ اسی طرح ۱۹۴۹ء میں بنی فلم ’ناتھ‘ میں موسیقار حسن لال بھگت رام کی موسیقی میں گیتا رائے کا ایک گانا ’دُور سے ایک پردیسی آیا‘ بھی بہت مقبول ہوا۔ اس کے بعد اگلے کچھ برسوں میں گیتا رائے نے فلم ’امانت، لڑکی، مکھی چوس، پرینیتا، پیار، پیار کی باتیں‘ اور ’شریمتی جی‘ جیسی فلموں میں کئی بہترین نغمے گائے۔ ۱۹۵۰ء میں موسیقار کھیم چند پرکاش نے فلم ’جان پہچان‘ کے لیے گیتا رائے سے۶؍گانے ریکارڈ کرائے۔ ان میں سے طلعت محمود کے ساتھ گایا دوگانا ’ارمان بھرے دل کی لگن تیرے لیے ہے‘ بے حد مقبول ہوا۔
فلم ’بازی‘ کے بعد ۱۹۵۴ء میں فلم ’آرپار‘ کے لیے موسیقار او۔پی۔نیر نے گیتا رائے کی آواز کی کشش سے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ نیر صاحب اس سے پہلے ہی فلم ’آسمان‘ میں گیتا رائے کی گلوکاری کی خوبیوں کو پہچان چکے تھے اور ’جادو بھرے نین‘ اور ’دل ہے دیوانہ…‘ جیسے نغمے ریکارڈ کرا چکے تھے۔ فلم ’آرپار‘ کے لیے او۔پی۔نیر نے گیتادت سے بہت ہی شوخی بھرے اور جذباتی گیت گوائے۔ ’یہ لو میں ہاری پیا… ہوں ابھی میں جواں رے دل… جا جا جا بے وفا…‘ جیسے نغموں میں گیتادت نے ثابت کر دیا کہ وہ صرف غمزدہ نغمے سنانے کے لیے ہی نہیں ہیں۔ اس کے بعد او۔پی۔نیر اور گیتادت کا ساتھ ایک بار پھرفلم ’مسٹر اینڈ مسز ۵۵‘ میں اپنا جادو جگا رہا تھا۔ ’ٹھنڈی ہوا کالی گھٹا… پریتم آن ملو… نیلے آسمانی…‘ اور محمد رفیع کےساتھ چار دو گانے گیتادت نے گائے تھے۔ ’جانے کہاں میرا جگر گیا جی… اُدھر تم حسیں ہو… دل پر ہوا ایسا جادو…‘ اور ’چل دیے بندہ نواز‘ جیسے گانوں نے مقبولیت کی بلندیوںکو چھوا۔۱۹۵۶ء میں ایک بار پھر فلم ’چھومنتر‘ میں گیتا دت کی آواز اور او۔پی۔نیر کی موسیقی نے دھوم مچائی۔ محمدرفیع کے ساتھ گیتادت کا گایا دوگانا ’غریب جان کے ہم کو نہ یوں مٹا دینا…‘ بے حد مقبول ہوا۔ فلم کے دوسرے دو نغمے ’جب بادل لہرایا…‘ اور ’رات نشیلی…‘ بھی شائقین نے بے حد پسند کیے۔ اِن سب کے علاوہ گیتادت کا جو گیت ۱۹۵۶ء میں سب سے زیادہ مقبول ہوا، وہ تھا… ’اے دل مجھے بتا دے تو کس پہ آگیا ہے…‘ یہ فلم ’بھائی بھائی‘ کا نغمہ تھا۔ گیتادت کی آواز کا جادو ۱۹۵۸ء میں بھی قائم رہا۔ فلم ’ہائوڑا برج‘ کا گانا ’میرا نام چن چن چو‘ اور فلم ’سادھنا‘ کا نغمہ ’تورا منوا کیوں گھبرائے‘ بھی کافی مقبول رہے۔
پانچویں دہائی کے آخر تک گیتا رائے کی بنگالی انداز کی گلوکاری کلاسیکل موسیقی کے ساتھ مل کر خوب مقبول ہوتی رہی اور لوگ سوچنے لگے کہ کیا گیتا رائے اسی دُکھ بھری آواز میں ہمیشہ گاتی رہیں گی۔ تبھی گیتا رائے کی آواز کے نئے انداز نے سب کو چونکا دیا۔ ۱۹۵۱ء میں ہدایتکار گرودت کی فلم ’بازی‘ نے سب کی رائے بدل دی اور یہیں سے گیتا رائے کی نجی زندگی اور اس کے ساتھ ہی فنکارانہ زندگی کا رُخ بھی بدل گیا۔ آواز کی جس کشش کو محسوس کرکے موسیقار ایس۔ ڈی۔ برمن نے فلم ’دوبھائی‘ کے دُکھ بھرے نغمے گیتا رائے سے گوائے تھے، انہوںنے ہی آواز کی پختگی اور ویرائٹی کو دیکھ کر فلم ’بازی‘ میں ان سے مستی بھرے اور جذبات کو مہکانے والے گیت ریکارڈکرائے۔ ’تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے‘ ساحرؔ لدھیانوی کے لکھے اس گیت نے دھوم مچا دی۔ ’سنو بجر کیا گائے‘ نے سننے والوں پر جادو کا کام کیا۔ ’یہ کون آیا، آج کی رات پیا، دیکھ کے موہے اکیلی برکھا ستائے رے‘ اور ’لاکھ زمانے والے‘ بھی کافی مقبول ہوئے۔ فلم ’بازی‘ کے گانوں نے دھوم مچا دی اور گیتا رائے کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
فلم ’بازی‘ کی تیاریوں کے درمیان ہی گرودت دل و جان سے گیتا رائے پر فریفتہ ہو گئے تھے اور نہ چاہتے ہوئے بھی گیتا رائے کے والدین نے فلمی دنیا میں جد وجہد کر رہے نوجوان گرودت کے ساتھ گیتا رائے کی منگنی کر دی اور اس طرح دونوں کچھ اور نزدیک آگئے اور اب گرودت کو شادی کی جلدی تھی۔ گیتا رائے خود بھی گرودت کی قابلیت اور شخصیت سے متاثر تھیں۔ فلم ’بازی‘ کی کامیابی کے بعد گرودت کی شہرت میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ انہوںنے کھار کے علاقے میں ایک فلیٹ خرید لیا۔ آخرکار منگنی کے تین سال بعد ۲۶؍مئی ۱۹۵۳ء کو گیتا رائے کی شادی گرودت سے ہو گئی اور وہ گیتا رائے کے بجائے گیتا دت کہلانے لگیں۔ ان کی شادی میں فلمی دنیا کی کئی مشہور ہستیاں دیوآنند، وجیتنی مالا، نوتن اور موتی لعل جیسے لوگ شامل ہوئے تھے۔ اس زمانے میں گرودت کے مقابلے گیتا دت ذاتی طور پر بھی اور فیملی بیک گرائونڈ سے بھی زیادہ مضبوط تھیں۔ لہٰذا بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ گرودت نے معاشی طور پر مضبوطی حاصل کرنے کے لیے گیتا دت سے شادی کی ہے۔ حالانکہ گرودت نے اپنی خودداری اور ضمیر کو کبھی نہیں مرنے دیا اور وہ گیتا دت کو بہت چاہتے بھی تھے۔
۹؍جولائی ۱۹۵۴ء کو دونوں کے پیار کی نشانی ان کے بیٹے ورون کا جنم ہوا۔ اس کے بعد کچھ عرصے تک گیتا دت اور گرو دت کے ازدواجی حالات کافی بہتر رہے۔ گرودت اپنی فلموں میںکافی مصروف ہو گئے تھے اور دھیرے دھیرے وہ گیتا دت اور اپنے گھر کو وقت کم دینے لگے تھے۔ ۱۹۵۶ء میں گرودت نے فلم ’پیاسہ‘ بنائی جس کی ہیروئن وحیدہ رحمن تھیں۔ وحیدہ رحمن اور گرودت کے معاشقے کی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بننے لگیں۔ اس طرح گیتا دت کے گھریلو حالات بھی دن بہ دن خراب ہوتے گئے اور ان کی گلوکارہ کے طور پر گزر رہی زندگی پر بھی اس کا بُرا اثر پڑا۔ ’پیاسہ‘ فلم کی بے حد کامیابی سے گرودت اور وحیدہ رحمن کو بہت شہرت ملی۔ اس فلم کے گانے حالانکہ گیتادت نے گائے تھے اور بے حد مقبول بھی ہوئے تھے۔ وحیدہ رحمن پر فلمائے گئے ساحرؔ کے نغمے ’جانے کیا تونے کہی جانے کیا میں نے سنی‘ اور ’آج سجن موہے انگ لگا لو جنم سپھل ہو جائے‘ نے بڑی دھوم مچائی اور گیتا دت کی شہرت میں بھی اضافہ ہوا۔
اس کے بعد ۱۹۵۹ء میں گرودت کی فلم ’کاغذ کے پھول‘ میں بھی وحیدہ رحمن ہیروئن تھیں۔ یہ فلم باکس آفس پر ناکام ہو گئی اور لوگوں نے اس فلم کو بھلا دیا، مگر اس میں گیتادت کے گائے ہوئے گانے ’وقت نے کیا، کیا حسیں ستم‘ کو نہیں بھلا پائے۔ اسی سال گیتا دت کے گائے ہوئے دوسری فلموں کے بھی کئی گانے مقبول ہوئے۔ ’ننھی کلی سونے چلی، بچپن کے دن بھی کیا دن تھے، تم جیو ہزاروں سال‘ یہ تینوں گانے فلم ’سجاتا‘ کے تھے جو کافی مقبول ہوئے۔ مگر اس کے بعد ان کی مقبولیت کا گراف آہستہ آہستہ نیچے آنے لگا۔ وہ اپنی گھریلو زندگی سے اتنہائی نامطمئن تھیں اور اس کا اثر ان کی گلوکاری پر واضح طور پر پڑ رہا تھا۔
۱۹۶۰ء میں فلم ’چودھویں کاچاند‘گرودت کی فلم ہوتے ہوئے بھی گیتا دت صرف ایک کورَس گانے ’بالم سے ملن ہوگا‘ میں ہی سنائی دیں۔ حالانکہ گرودت کی آخری فلم ’صاحب بیوی اور غلام‘ میں مینا کماری پر فلمائے گئے گانوں کو گیتا دت کی آواز نے ہی زندگی بخشی۔ ہیمنت کمار کی موسیقی میں گیتا دت کے گائے نغموں ’کوئی دُور سے آواز دے چلے آئو‘ ، ’پیا ایسے جیا میں سمائے گیو رے‘ اور ’نہ جائو سئیاں چھڑا کے بئیاں‘ جیسے گیتوں نے یہ ثابت کر دیا کہ گیتادت کی آواز کی کشش اب بھی لوگوں کو متوجہ کرنے اور گدگدانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حالانکہ اس فلم کے بعد گیتادت کی آواز بہت کم ہوتی چلی گئی۔ گرودت سے وہ پہلے ہی علیحدہ ہو گئی تھیں اور ۹؍اکتوبر ۱۹۶۴ء کو گرودت کی خودکشی کے بعد وہ بالکل ہی ٹوٹ چکی تھیں۔ گرودت اپنی گھریلو زندگی اور فلمی زندگی میں تال میل نہیں بٹھا سکے اور انتہائی مایوسی کے عالم میں شراب اور نیند کی گولیاں بڑی مقدار میں استعمال کرنے کی وجہ سے اپنے ہی فلیٹ میں مردہ پائے گئے۔ اپنے بچوں کی پرورش کرنے اور گھر کو باقاعدگی سے چلانے کے لیے گیتادت کو گلوکاری سے وابستہ رہنا پڑا۔شوہر کے انتقال کے بعد گیتادت نے فلم ’اُس کی کہانی، انوبھو،‘ اور چند دیگر فلموں کے لیے گانے گائے۔ مگر ان کی مقبولیت روز بروز کم ہوتی چلی گئی۔ ان کے گائے ہوئے نغموں سے سجی کچھ دیگر فلمیں اس طرح ہیں۔ ’آب حیات، بھول نہ جانا، پولیس، منیم جی، پاکٹ مار، مسافر خانہ، دِلّی کا ٹھگ، شریمتی ۴۲۰، جاگیر، گیسٹ ہائوس، لاجونتی، ملاپ اور سن آف انڈیا‘ وغیرہ… ہیمنت کمار کے ساتھ گائے ہوئے ان کے کئی دوگانے بہت پسند کیے گئے۔ ایک بنگالی فلم ’بدھوورن‘ میں گیتادت نے اداکاری بھی کی۔ یہ فلم کامیاب رہی تھی۔ بمبئی میں بھی ’تیرا ساتھ ہے پیارا‘ اور ’اب کہاں جائیں ہم‘ جیسی ہندی فلموں میں انہوں نے کام شروع کیا تھا مگر یہ فلمیں مکمل نہ ہو سکیں۔ خود اُن کے شوہر گرودت نے گیتادت کو لے کر فلم ’گوری‘ بنانی شروع کی تھی مگر بعد میں انہوں نے اس فلم کو ادھورا ہی چھوڑ دیا۔ اس طرح ایک اداکارہ کے طور پر گیتادت فلم شائقین کے سامنے آتے آتے رہ گئیں۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جب دو ساتھی فنکار جیون ساتھی بن جاتے ہیں تو زندگی بہت حسین ہو جاتی ہے، مگر کبھی کبھی اس کے نتائج بالکل مختلف روپ میں دنیا کے سامنے آتے ہیں۔ گیتادت اور گرودت کے روپ میں یہ حقیقت کچھ زیادہ ہی بھیانک روپ میں سامنے آئی اور ایک دردناک انجام کو پہنچی، اور گیتادت اپنے ہی گائے ہوئے گانے کے درد میں ڈوبتی چلی گئیں… ’میری پریم کہانی ختم ہوئی، میرے جیون کا سنگیت گیا، میرا سندر سپنا بیت گیا۔‘۲۰؍جولائی ۱۹۷۲ء کو غموں اور دکھوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے گیتادت نے بھی اپنی سانسوں کی ڈور کو توڑ دیا اور دنیاوی زندگی سے مکتی حاصل کر لی۔