جب سازکے سُر بولنے لگیں اور گانے کی دھنیں خود میں کہانیاں سمیٹنے لگیں، تب جان لیجیے کہ پس پردہ کوئی ایسا موسیقار چھپا ہے جو فن کو عبادت سمجھتا ہے۔
EPAPER
Updated: July 26, 2025, 12:36 PM IST | Agency | Mumbai
جب سازکے سُر بولنے لگیں اور گانے کی دھنیں خود میں کہانیاں سمیٹنے لگیں، تب جان لیجیے کہ پس پردہ کوئی ایسا موسیقار چھپا ہے جو فن کو عبادت سمجھتا ہے۔
جب سازکے سُر بولنے لگیں اور گانے کی دھنیں خود میں کہانیاں سمیٹنے لگیں، تب جان لیجیے کہ پس پردہ کوئی ایسا موسیقار چھپا ہے جو فن کو عبادت سمجھتا ہے۔ جی ایس کوہلی بھی ایسے ہی ایک خاموش فنکار تھے، جنہوں نے بالی ووڈ کی موسیقی میں اپنا حصہ تو ڈالا، لیکن شہرت کی چکاچوند سے ہمیشہ دور رہے۔
وہ فلمی چکاچوند سے اس قدر دور رہے کہ ان کے تعلق سے زیادہ معلومات بھی سامنے نہیں آسکی ہے۔ان کے تعلق سے اتنا ہی معلوم ہے کہ ان کا پورا نام تھا گُربخش سنگھ کوہلی ہے۔ وہ ۱۹۲۸ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک پنجابی سکھ خاندان سے تھا، جو ممکنہ طور پر برطانوی ہند کے شمالی علاقے میں آباد تھا۔فنِ موسیقی سے دلچسپی انہیں بچپن ہی سے تھی، لیکن ان کے فنی سفر کا اصل آغاز دھولک نواز کے طور پر ہوا۔جی ہاں ! وہ پہلے ایک ماہر ریدم انسٹرومنٹس پلیئر تھے، جنہیں بالی ووڈ کے بڑے موسیقاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
جی ایس کوہلی نے فلم انڈسٹری میں مشہور موسیقار اوپی نیرکے ساتھ بطور اسسٹنٹ ایک طویل عرصہ گزارا۔یہاں ان کا کام صرف سازبجانانہیں تھا — بلکہ دھنوں کی ترتیب، سازوں کی ہم آہنگی، اور گانوں کی روح پیدا کرنے میں بھی ان کا کلیدی کردار ہوتا تھا۔
اوپی نیر کے ساتھ کام کرتے ہوئے انہوں نے فلم’کشمیر کی کلی‘، ’سی آئی ڈی‘، ’نیا دور‘، ’تم سے اچھا کون ہے؟‘جیسی کئی فلموں میں پردے کے پیچھے رہ کر محنت کی۔ان کی خاص بات یہ تھی کہ تال پر ان کی گرفت زبردست تھی — یہی وجہ ہے کہ اوپی نیر جیسے طبلے، ڈھولک اور گھنگھروکی مددسے دھن بنانے والے انہیں بہت مانتے تھے۔
۵۰ءکی دہائی کے آخر اور۶۰ءکے آغاز میں جی ایس کوہلی نے خودبطور مستقل موسیقارکام کرنا شروع کیا۔اگرچہ ان کی فلموں کی تعداد محدود رہی، لیکن ان کی بنائی گئی دھنوں میں سادگی، مٹھاس، اور کلاسیکی ہندوستانی سازوں کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔
جی ایس کوہلی کے ساتھ یہ المیہ رہا کہ وہ خود کو پروموٹ کرنے والے فنکار نہیں تھے۔نہ انہوں نےخودکو فلمی تقریبات میں بہت نمایاں کیا، نہ کسی میوزک لیبل یا بڑے فلم بینر کے ساتھ طویل تعلقات بنائے۔اسی لیے، جب کہ ان کے بنائے گئے گانے دل کو بھاتےتھے، لیکن میوزک ڈائریکٹر کی شناخت کبھی مقبول نہیں ہو سکی۔
۶۰ء اور۷۰ء کی دہائی کے بعد جی ایس کوہلی آہستہ آہستہ فلمی دنیا سے کنارہ کش ہو گئے۔ان کا آخری کام کچھ کم بجٹ فلموں میں آیا، اور پھر وہ سناٹے میں لپٹ گئے — کوئی شور، کوئی خبر، بس چند بھولی بسری دھنیں رہ گئیں ۔ان کی زندگی کے آخری ایّام کی تفصیلات بھی بہت کم دستیاب ہیں ۔لیکن یہ طے ہے کہ وہ گمنامی میں گم ہو کر بھی اپنی موسیقی سے زندہ رہے۔آج جب ہم اوپی نیر، شنکرجےکشن، یا ایس ڈی برمن جیسے موسیقاروں کو یاد کرتے ہیں، تو ہمیں ان کے سائے میں کام کرنے والے جی ایس کوہلی جیسے خاموش ہیروز کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔انہوں نے ہمیں سکھایا کہ’’فن وہی ہوتا ہے جو سننے والے کے دل میں گونجے، چاہے تخلیق کرنے والے کا نام گمنام رہے۔‘‘
اسی طرح گمنام رہ کر کئی عمدہ فلموں کی دھنیں بنانے والے جی ایس کوہلی ۲۵؍جولائی ۱۹۹۶ءکو مالک حقیقی سے جاملے۔