فلموں میں آنے سے قبل جانی واکر ایک پُرمزاح بس کنڈکٹر کے طور پر اپنی شناخت بنا چکے تھے، سفر کے دوران اُن کی ملاقات بلراج ساہنی سے ہوئی جنہوں نے انہیں گرودت سے ملنے کا مشورہ دیا۔
EPAPER
Updated: June 15, 2025, 12:54 PM IST | Anis Amrohvi | Mumbai
فلموں میں آنے سے قبل جانی واکر ایک پُرمزاح بس کنڈکٹر کے طور پر اپنی شناخت بنا چکے تھے، سفر کے دوران اُن کی ملاقات بلراج ساہنی سے ہوئی جنہوں نے انہیں گرودت سے ملنے کا مشورہ دیا۔
بدرالدین جمال الدین قاضی جو بعد میں جانی واکر کے نام سے مشہور ہوئے، مدھیہ پردیش کے اِندور شہر میں ۱۵؍مئی ۱۹۲۳ء کو پیدا ہوئے تھے۔ اِندور ہی سے انہوں نے مڈل کلاس تک پڑھائی کی۔ اپنے ۱۰؍ بہن بھائیوں میں وہ دوسرے نمبر پر تھے۔ اُن کے والد ایک کپڑا مِل میں ملازم تھے۔ ۱۹۳۰ء میں جب وہ مِل بند ہوا تو یہ پورا خاندان ناسک آگیا اور کچھ دنوں بعد اِگت پوری چلا گیا اور پھر ۱۹۴۲ء میں تلاشِ روزگار میں یہ پورا خاندان بمبئی آگیا۔ جانی واکر کے والد کو حیدرآباد کے نظام کی مِل میں ملازمت مل گئی تھی مگر بدقسمتی سے وہ مِل بھی جلد ہی بند ہوگئی۔
بمبئی میں اُن کے والد کے ایک جاننے والے پولیس میں انسپکٹر تھے۔ اُن کی سفارش پر جانی واکر کو بس کنڈکٹر کی ملازمت مل گئی تھی۔ اِس ملازمت کو پاکر جانی واکر محض بہت خوش تھے کہ اِس بہانے وہ بمبئی کے تمام علاقوں کو دیکھ سکیں گے اور مفت میں سفر کرتے ہوئے اِس جادو نگری کے سارے فلم اسٹوڈیوز بھی دیکھ لیں گے۔ بس کنڈکٹری کے زمانے میں بھی اُن کا انداز الگ ہی تھا۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں آواز لگاتے ’’ماہم والے پسنجر اُترنے کو ریڈی ہو جائو، لیڈی لوگ پہلے....‘‘ اِس طرح لوگوں میں ایک خوش مزاج کنڈکٹر کے بطور وہ کافی مشہور تھے۔ ایک دن اُن کی بس میں اداکار بلراج ساہنی سفر کر رہے تھے اور اُن کی پُرمزاح باتوں سے لطف اندوز بھی ہو رہے تھے۔ بلراج ساہنی نے ہی اُن کو گرودت سے ملنے کا مشورہ دیا تھا۔ فلموں میں کام کرنے کا شوق اُن کو شروع ہی سے تھا۔ دو برس تک وہ بس کنڈکٹر بنے گھومتے رہے۔ اس درمیان ان کی ملاقات مشہور ویلن اے این انصاری، کےآصف کے معاون رفیق اور شیخ مختار کے سیکریٹری سنگھ صاحب وغیرہ سے ہو گئی۔ اُن لوگوں کی مدد سے تقریباً ۸۔ ۷؍ ماہ کی جدوجہد کے بعد فلم ’آخری پیغام‘ میں جانی واکر کو ایک چھوٹا سا کردار ملا۔ آٹھ روز تک کام کرنے کے عوض میں ۸۰؍ روپے ملے، جو ۱۹۴۸ء میں اُن کو بہت زیادہ لگے تھے کیونکہ بس کنڈکٹری کرتے ہوئے اُن کو صرف ۲۶؍روپے ماہانہ ملا کرتے تھے۔
اُن دنوں جانی واکر ماہم میں رہتے تھے۔ ایک دن اندھیری کے ایم این ٹی، اسٹوڈیو سے اُن کا بُلاوا آیا۔ اپنے ایک جاننے والے سے۸؍ آنہ اُدھار لے کر جب جانی واکر وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ہدایتکار وجاہت مرزا کی فلم کی شوٹنگ تھی۔ جانی واکر کو ایک جوکر کا کردار ملا۔ تین گھنٹے کام کرنے کے سو روپے ملے تو تھوڑی دیر تک اُن کو یقین ہی نہیں آیا۔ واپس آکر اُن سو روپوں میں سے دس روپے انہوں نے اس شخص کو دیئے جس سے آٹھ آنہ اُدھار لے کر وہ یہاں تک آئے تھے۔
اِسی طرح ۷۔ ۵؍ فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کرتے ہوئے کےآصف کی فلم ’ہلچل‘ میں انہیں ایک قیدی کا کردار ملا۔ اداکار بلراج ساہنی بھی اِس فلم میں ایک جیلر کا کردار ادا کر رہے تھے۔ حالانکہ وہ خود اُس وقت ایک سیاسی قیدی کے طور پر جیل میں تھے اور پولیس کسٹڈی میں شوٹنگ پر آتے تھے۔ بلراج ساہنی نے ہی جانی واکر کو ایک شرابی کی طرح گرودت سے ملنے کا ایسا طریقہ بتایا تھا جس نے جانی واکر کی زندگی بدل دی۔ بعد میں جانی واکر نے نوکیتن اور گرودت کی کئی فلموں میں اہم کردار ادا کئے۔
فلم ’بازی‘ کے بعد ایک مزاحیہ اداکار کے طور پر جانی واکر کی شناخت قائم ہو گئی اور ان کو فلموں میں لگاتار کام ملنے لگا۔ نوکیتن کی ہی اگلی فلم’ آندھیاں ‘ میں بھی ان کو شامل کیا گیا۔ اس فلم کے ہدایت کار چیتن آنند تھے۔ فلم ’آندھیاں ‘ کا پریمئر بمبئی کے لبرٹی سینما میں ہونا تھا۔ وہاں تک جانے اور واپس آنے کیلئے بس کرایہ آٹھ آنہ چاہئے تھا اور جانی واکر کے پاس صرف چار آنہ تھے لہٰذا ایک پہچان والے بس کنڈکٹر کی مدد سے بغیر ٹکٹ دھوبی تالاب تک سفر کیا اور فلم ختم ہونے سے پہلے ہی سینما ہال سے باہر نکل آئے تاکہ بس سروس ختم ہونے سے پہلے ہی گھر پہنچ سکیں۔ حالانکہ اس فلم میں ان کے کردار کی بہت تعریف ہوئی مگر وہ پریمئر ختم ہونے پر کسی کو آٹوگراف نہیں دے سکے۔
فلم ’بازی‘ کے بعد گرودت کے ساتھ جانی واکر نے بہت سی فلموں میں کام کیا۔ آرپار، مسٹر اینڈ مسز۵۵، پیاسا، چودھویں کا چاند اور کاغذ کے پھول وغیرہ میں جانی واکر کے اہم کردار تھے۔ نوکیتن کی فلم ٹیکسی ڈرائیور میں دیوآنند اور کلپناکارتک کے ساتھ جانی واکر کا بھی بڑا اہم کردار تھا۔ اس فلم میں ان کا نام مست رام تھا۔ کئی دوستوں نے مشورہ دیا کہ وہ اپنا فلمی نام مست رام ہی رکھ لیں مگر ان کو یہ نام پسند نہ تھا، لہٰذا انہوں نے اپنا فلمی نام جانی واکر رکھ لیا۔ گرودت کی فلم آرپار سے ہی پردے پر اُن کا نام جانی واکر آنے لگا اور ان کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا۔ اسی فلم کی کامیابی سے خوش ہوکر گرودت نے جانی واکر کو تحفے میں ایک کار دی تھی، اور اسی فلم آرپار کے بعد جانی واکر نے اپنی ساتھی اداکارہ شکیلہ کی بہن اداکارہ نور سے شادی کرلی اور اپنے گھر کا نام ’نور وِلا‘ رکھ لیا۔ اُس وقت جانی واکر فلموں میں اتنے مصروف تھے کہ شادی کی رسموں اور نکاح کیلئے بھی مشکل سے وقت نکال پائے تھے مگر اداکارہ نور نے شادی کے بعد فلموں میں کام کرنا بند کر دیا۔ اِن دونوں کے پہلے تین بیٹیاں اور پھر تین بیٹے پیدا ہوئے۔
جانی واکر کی شہرت کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی ہر فلم میں ایک دو نغمے ضرور اُن پر فلمائے جاتے تھے۔ گرودت کی فلم سی آئی ڈی میں جانی واکر پر ایک گانا فلمایا گیا تھا.... ’’اے دل ہے مشکل جینا یہاں ...‘‘ یہ گانا اتنا مقبول ہوا کہ پورے ملک میں دھوم مچ گئی اور اس کے بعد سے ہر فلم میں جانی واکر پر ایک یا دو گانے ضرور فلمائے جانے لگے۔ ڈسٹری بیوٹر اور فائنانسر بھی شرط لگانے لگے کہ جانی واکر پر کوئی نغمہ فلم میں ضرور ہونا چاہئے۔
ان پر فلمائے گئے تقریباً سبھی نغمے محمد رفیع نے خاص طور پر ان کے اپنے ہی انداز میں گائے ہیں۔ صرف ایک فلم بات ایک رات کی میں ان پر فلمایا گیا ایک گیت ’’کس نے چلمن سے مارا نظارہ مجھے‘‘ گلوکار منّا ڈے نے گایا ہے۔ محمد رفیع کے تمام گیت جو اُن پر فلمائے گئے، لگتا تھا کہ پردے پر خود جانی واکر گا رہے ہیں۔ کئی گیتوں میں تو کہیں کہیں ان کی اپنی آواز کو بھی شامل کر کے اور زیادہ حقیقی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایم صادق کی فلم ’چھومنتر‘ میں تو جانی واکر پر تین چار گانے فلمائے گئے اور سبھی گانے ہِٹ ہوئے۔ فلم نیا دور میں اُن پر فلمایا گیا گیت ’’میں بمبئی کا بابو‘‘ اور فلم مدھومتی کا نغمہ’’جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا‘‘ بہت مقبول ہوئے۔ گرودت تو خاص طور پر جانی واکر کیلئے گانوں کی سچویشن نکالا کرتے تھے۔ فلم سی آئی ڈی میں ’’یہ ہے بمبئی میری جان‘‘، فلم مسٹر اینڈ مسز ۵۵ میں ’’جانے کہاں میرا جگر گیا جی‘‘ اور خاص طور پر فلم پیاسا کا گیت ’’ سَر جو تیرا چکرائے‘‘ تو بے حد مقبول ہوئے تھے۔ گرودت کی فلم کاغذ کے پھول ہی ایک ایسی فلم تھی جس میں جانی واکر پر کوئی گیت نہیں فلمایا گیا تھا۔ اس فلم کی ناکامی کے بعد ہی گرودت نے فلم چودھویں کا چاند میں جانی واکر پر دو گیت فلمائے ’’یہ دنیا گول ہے‘‘ اور ’’میرا یار بنا ہے دولہا‘‘ اور پھر یہ فلم بھی زبردست ہِٹ ثابت ہوئی۔
جانی واکر نے لگ بھگ دس بارہ فلموں میں ہیرو کے کردار بھی ادا کئے۔ ان کی ہیرو کے بطور پہلی فلم تھی پیسہ ہی پیسہ، اس فلم میں انہوں نے تین کردار ادا کئے تھے۔ ان کے اپنے نام پر بھی ایک فلم جانی واکر فلمساز وید مدن نے بنائی تھی۔ اُن دنوں ان کی جوڑی اداکارہ شیاما کے ساتھ کافی مقبول ہوئی تھی۔ اداکارہ شکیلہ کے ساتھ بھی ان کی کئی فلمیں آئیں۔ ایک کامیڈین کے طور پر جانی واکر کو جو شہرت اور عزت فلمی دنیا میں اور فلمی دنیا سے باہر ملی وہ بہت کم مزاحیہ اداکاروں کے حصے میں آئی۔ شرابی کے مخصوص انداز میں تو انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو خوب ہنسایا ہی، اس کے علاوہ فلم میرے محبوب، پالکی، چودھویں کا چاند، آنند اور پتیتا جیسی فلموں میں اپنی اداکارانہ صلاحیتوں سے فلمی ناظرین کو متاثر بھی کیا۔ فلموں کیلئے انہوں نے اپنی آواز کو ایک خاص ٹون میں ادا کرکے اپنی پہچان بنائی۔ ایک زمانے میں جانی واکر نے فیمنا شوٹنگ کا ریڈیو پروگرام کافی عرصے تک پیش کیا اور اس طرح انہیں عوام سے براہِ راست مکالمہ کرنے کا موقع ملا۔ عوام نے یہ پروگرام پسند کیا اور جانی واکر کی شہرت میں اس سے اضافہ ہوا۔
۱۹۶۸ء تک جانی واکر کامیڈین کے بطور فلمی پردے پر چھائے رہے، حالانکہ اس دوران مزاحیہ اداکار محمود نے بھی اپنے لئے اچھی خاصی جگہ بنالی تھی مگر اس کے بعد جانی واکر نے رفتہ رفتہ فلموں میں کام کرنا کم کر دیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ تھی کہ فلموں میں کامیڈی کے نام پر بھونڈاپن زیادہ ہونے لگا تھا، مکالموں میں گھٹیا جملے استعمال ہونے لگے تھے اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ کئی ہیرو خود ہی فلموں میں کامیڈی بھی کرنے لگے تھے۔ ۱۹۸۴ء تک انہوں نے بہت کم فلموں میں کام کیا اور فلم ’شان‘ کے بعد سے انہوں نے فلموں میں کام کرنا بالکل بند ہی کر دیا۔ اپنے فلمی کریئر کے آخری دنوں میں جانی واکر نے رشی کیش مکھرجی کی فلم ’آنند‘ میں ایک چھوٹا سا کردار ادا کیا تھا۔ اس چھوٹے سے کردار میں ہی چند لمحوں میں مزاحیہ اداکار جانی واکر نے فلم کے ہیرو راجیش کھنہ کو زندگی کا ایسا فلسفہ سمجھایا کہ فلم بین ہنستے ہنستے اچانک سہم کر اتنے سنجیدہ ہو گئے کہ آج تک اُس فلم کو بھول نہیں پائے۔ یہ کمال تھا جانی واکر کی اداکارانہ صلاحیتوں کا۔
انہوں نے تین سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ ۲۹؍ جولائی ۲۰۰۳ء کو ان کا انتقال ہو گیا اور اس طرح فلم شائقین کے دلوں پر راج کرنےوالا مزاحیہ فنکار اس دنیا سے ہمیشہ کیلئے چلا گیا۔