۱۹۵۷ء میں دلیپ کمار کے مشورے پر انہوں نے فلم ’مسافر‘ کی ہدایتکاری کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس فلم میں دلیپ کمار نے لتامنگیشکر کے ساتھ ایک گیت بھی گایا تھا اور بغیر کوئی معاوضہ لئے کام کیا تھا، یہ فلم باکس آفس پر بھی کامیاب رہی اور ناقدین کو بھی پسند آئی۔
خاندانی فلمیں بنانے میں مہارت رکھنے والے ہدایت کار رشی کیش مکھرجی۔ تصویر: آئی این این۔
مغربی بنگال کی راجدھانی کلکتہ کے ایک متوسط خاندان میں ۳۰؍ستمبر۱۹۲۲ء کو رشی کیش مکھرجی کا جنم ہوا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد کلکتہ یونیورسٹی سے انہوں نے بایولوجی کے مضامین میں گریجویشن کیا اور لڑکیوں کے ایک اسکول میں ٹیچر ہو گئے۔ اُن کے دادا کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ اُن کا خیال تھا کہ لڑکیوں کی قربت سے رشی کیش بگڑ جائے گا اور اس کا مستقبل ختم ہو جائے گا۔
داداجی کا حکم مانتے ہوئے انہوں نے ملازمت ترک کر دی اور وہ فری لانس جرنلسٹ کے طور پر آل انڈیا ریڈیو کیلئے لکھنے کا کام کرنے لگے۔ اُدھر داداجی بھی اُن کیلئے زور و شور سے ملازمت کی تلاش کر رہے تھے۔ ۶؍ ماہ کے بعد ہی انہوں نے کلکتہ کے ’نیو تھیٹر‘ میں رشی کیش کیلئے ملازمت تلاش کر لی۔ ایک ایسے وقت میں جب فلموں سے وابستگی کو معیوب سمجھا جاتا تھا، خود اُن کے داداجی نے رشی کیش سے اسکول کی باعزت ملازمت چھڑواکر فلم اسٹوڈیو کی لیب میں ملازم بنواد یا۔ اس طرح یکم اپریل۱۹۴۵ء کو وہ نیوتھیٹر میں لیب اسسٹنٹ بنے اور پھر وہیں سے فلمی دُنیا کا اُن کا۵۰؍ سالہ طویل سفر کا آغاز ہوا۔ نیو تھیٹر کے لیب اسسٹنٹ کے بطور۶۰؍ روپے ماہوار کی ملازمت کے ساتھ فلم ایڈیٹر بی این سرکار کے ساتھ ہی انہوں نے ایڈیٹنگ کا کام بھی سیکھا اور۲؍ سال بعد ہی۱۹۴۷ء میں اُنہیں آزادانہ طور پر ایک بنگالی فلم تتھاپی کی ایڈیٹنگ کا موقع ملا۔ اس کے بعد وہ مقبول ہدایتکار بمل رائے کے معاون اور اُن کی فلموں کے مستقل ایڈیٹر بن گئے۔ ۱۹۵۱ء میں جب بمل کلکتہ سے بمبئی آئے تو رشی کیش بھی بمبئی آگئے۔ یہاں سب سے پہلے بمبئی ٹاکیز کی فلم ’ماں ‘ بمل رائے کو ملی اورجس کی ایڈیٹنگ رشی کیش نے کی۔ اس کے بعد فلم ’دو بیگھہ زمین‘ کی اسکرپٹ بھی انہوں نے لکھی۔ اس کی تکمیل کے دوران وہ بمل رائے کے چیف اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھی تھے اور فلم کے ایڈیٹر بھی۔ اسی دوران وہ بمل رائے کے ساتھ ایک فلمی تقریب میں سوویت یونین بھی گئے۔ اس کے بعد فلم ’مدھومتی‘ تک بمل رائے کی تمام فلموں کی ایڈیٹنگ رشی کیش نے ہی کی۔ خود بمل رائے بھی کیمرہ مین سے ہدایتکار بنے تھے اور رشی کیش لیب اسسٹنٹ سے ایڈیٹر اور پھر ہدایتکار اور فلمساز بنے۔ راجندر سنگھ بیدی بھی اپنی فلموں کی ایڈیٹنگ رشی کیش ہی سے کراتے تھے۔
وہ اندھیری میں کرائے کے ایک مکان میں رہا کرتے تھے۔ اُس وقت وہ صرف بمل رائے کے معاون ہوا کرتے تھے۔ بمبئی میں اُن کی دوستی دلیپ کمار سے ہو گئی جو عمر میں اُن سے صرف دو سال چھوٹے تھے اور اکثراندھیری میں ان کے روم پر آیا کرتے تھے۔ ۱۹۵۷ء میں دلیپ کمار کے مشورے پر ہی انہوں نے فلم ’مسافر‘ کی ہدایتکاری کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس فلم میں دلیپ کمار نے لتامنگیشکر کے ساتھ ایک گیت بھی گایا تھا اور بغیر کوئی معاوضہ لئے کام کیا تھا۔ فلم ’مسافر‘ کی نمائش کے ساتھ ہی اِس نوجوان ہدایتکار کے الگ طرز واَنداز کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس فلم میں اُنہوں نے الگ قسم کا ایک تجربہ کیا تھا۔ تین مختصر کہانیوں کو جوڑکر یہ فلم بنائی گئی تھی۔ تینوں کہانیوں کے موڈ الگ الگ تھے، مگر ایک ہی لوکیشن تھی جو ایک کرائے کا مکان تھا۔ تینوں کہانیاں اس ایک مکان میں ایک کے بعد ایک رونما ہوتی ہیں۔ ہدایتکار نے اس لوکیشن کو ایک وسیع استعارے کے طور پر اس دُنیاکی علامت بناکر پیش کیا تھا اور کرایہ دار اِس دُنیا میں آتے جاتے انسان تھے جو دُکھ سکھ، خوشی اور غم، ہر طرح کے احساسات سے گزرتے ہیں۔ رشی کیش کا اپنی بات کو سمجھانے کا انداز بالکل آسان تھا اور اثردار تھا، جو لوگوں کو ہنساتا بھی تھا اور رُلاتا بھی تھا۔ اس فلم میں دلیپ کمار کے ساتھ سچترا سین ہیروئن تھیں، ساتھ ہی اوشا کرن، ڈیزی ایرانی، کشور کمار، نروپا رائے اور نذیر حسین بھی خاص کرداروں میں تھے۔ یہ فلم اور اِس کا پیش کرنے کا انداز فلم شائقین کو بہت پسند آیا۔ اس فلم کو نیشنل فلم فیسٹیول میں ’سرٹیفکیٹ آف میرٹ‘ ملا تھا۔
اس کے بعد رشی کیش مکھرجی نے دلیپ کمار کے اصرار پر ہی راج کپور کی فلم ’اناڑی‘ کی ہدایت کی۔ بعد میں رشی دا اور راج کپور کی دوستی کا یہ عالم ہوا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی راج کپور کو اپنی فلم ’آنند‘ میں نہیں لے پائے کیونکہ وہ اپنے دوست کو فلمی زندگی میں بھی مرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ فلم ’اناڑی‘۱۹۵۹ء میں ریلیز ہوئی اور اس فلم کو بہترین ہندی فلم کا نیشنل ایوارڈ ملا۔ امیر ہیروئن اور غریب ہیرو نوتن اور راج کپور کی پریم کہانی کو رشی کیش نے کئی نئے انداز دے کر ایک الگ ہی قسم کی فلم بنائی تھی۔ کرداروں کے آپسی تعلقات، سچائی، ایمانداری اور انصاف کے پہلوئوں کو نہایت سادگی اور دلچسپی سے پیش کیا گیاتھا۔
’اناڑی‘ کی کامیابی کے بعد انہیں کئی بڑے بجٹ کی فلموں کے آفر آئے مگر وہ فلمیں اُن کے ذہن سے میل نہیں کھاتی تھیں۔ انہوں نے کلکتہ واپس جانے کے بارے میں بھی سوچا مگر بلراج ساہنی نے انہیں روک لیا اور اُن سے اپنی فلم ’انورادھا‘ ڈائریکٹ کرائی۔ اس طرح۱۹۶۰ء میں رشی کیش نے فلم ’انورادھا‘ پیش کی۔ ایک عورت کے ایثار اور جذبۂ قربانی کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کرنے کے ساتھ موسیقار روی شنکر کی موسیقی کی وجہ سے بھی اس فلم کو بہت پسند کیا گیا۔ بلراج ساہنی، لیلا نائیڈو اور نوتن کی بہترین اداکاری سے سجی اس فلم کو صدر جمہوریہ کا سونے کا تمغہ پیش کیا گیا۔ اب رشی کیش مکھرجی کی ہدایتکار کے طور پر ایک خاص پہچان بن گئی تھی اور اُن کے انداز اور طرز کو لوگ پہچاننے لگے تھے۔ اس درمیان انہوں نے اشوک کمار پروڈکشن کی فلم ’پرنیتا‘ کی ایڈیٹنگ بھی کی۔ اس فلم میں اشوک کمار کے ساتھ مینا کماری نے اپنی جذباتی اداکاری سے اس فلم کو بے مثال بنایا تھا۔
دلیپ کمار اور راج کپور کے بعد رشی کیش مکھرجی نے ۱۹۶۲ء میں دیوآنند کے ساتھ اداکارہ سادھنا کو لے کر فلم ’اصلی نقلی‘ بنائی۔ اس فلم میں اداکارہ سندھیا رائے نے بھی اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ اس طرح رشی کیش نے اپنے زمانے کے فلمی دُنیا کے تین اہم ستون، دلیپ، راج اور دیو کو اپنی ہدایتکارانہ صلاحیتوں سے فیضیاب کیا۔
اِس کے بعد فلم ’چھایا، میم دیدی، عاشق، سانجھ اور سویرا اوردو دل‘ کے بعد رشی کیش نے۱۹۶۶ء میں فلم ’انوپما‘ پیش کی۔ اس فلم میں مکالمے کم تھے مگر دھرمیندر کا الگ قسم کا کردار بھی اس فلم کی خصوصیت تھی اور باپ بیٹی کے درمیان کی نفسیاتی اُلجھنیں سلجھانے کی دلچسپ اور آسان سی کوشش کی گئی تھی۔ اس فلم کو سلور میڈل عطا کیا گیا۔ فلم’انوپما‘ کے بعد ’بیوی اور مکان‘ اور پھر منشی پریم چند کے مشہور ناول پر مبنی فلم ’غبن‘ اور اس کے بعد فلم ’منجھلی دیدی‘ رشی کیش نے پیش کیں۔ ۱۹۶۸ء میں ان کی ایک اہم فلم ’آشیرواد‘ نمائش کیلئے پیش کی گئی اور اس فلم کو بھی سلور میڈل ملا۔ یہ فلم شاعرانہ انداز کے باپ اور اُس کی بیٹی کے حساس رشتوں کی سچائی کا احساس کراتی ہے۔ اس کے فوراً بعد۱۹۶۹ء میں فلم ’ستیہ کام‘ اور۱۹۷۰ء میں فلم’آنند‘ کو بھی سلور میڈل عطا کیا گیا۔
فلم ’ستیہ کام‘ کا ہیرو دھرمیندر نہ صرف اپنی بدچلن بیوی کے کردار کی اصلاح کرتا ہے بلکہ سماج میں ہر طرف بڑھتی ہوئی بدعنوانیوں کے خلاف بھی لڑتا ہے۔ رشی دا خود بھی آزادی کے بعد معاشرے میں پھیلتی بدعنوانیوں سے بہت فکرمند رہتے تھے لہٰذا انہوں نے اپنے دل کی وہ سب باتیں دھرمیندر کے کردار کے ذریعہ سماج کے سامنے رکھی ہیں۔ دھرمیندر نے بھی اس کردار میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرکے الگ انداز سے فلم بینوں کو اپنی موجودگی کا احساس کرایا ہے۔
فلم ’آنند‘ میں کینسر کا مریض راجیش کھنہ اپنی جلد آنے والی موت سے واقف ہوتے ہوئے بھی خوشیاں بانٹتا پھرتا ہے اور اُمید پر قائم رہنے کا پیغام دے جاتا ہے۔ اس فلم میں رشی کیش نے جذبات کی ایسی عکاسی کی تھی کہ جب یہ فلم راجیش کھنہ کی ماں نے دیکھی تو وہ فلم میں راجیش کھنہ کی موت کے منظر کو برداشت نہ کر سکیں اور بیہوش ہو گئیں۔ بعد میں انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ فلم ’آنند‘ سے امیتابھ بچن پر بابو موشائے کی ایسی مہر ثبت ہوئی کہ لوگ آج بھی امیتابھ بچن کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ فلم ’آنند‘ کے اسی خیال کو فلم ’مِلی‘ میں رشی کیش نے اداکارہ جیا بہادری کے ذریعہ مختلف انداز میں پیش کیا۔ فلم ’ستیہ کام‘ نے دھرمیندر اور فلم ’آنند‘ اور ’نمک حرام‘ نے راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن کو مقبولیت اور شہرت کے سنہرے دروازے پر لاکھڑا کیا۔
۱۹۷۱ء میں رشی کیش مکھرجی نے ایک اور بہترین فلم ’گڈی‘ کے ذریعہ فلم انڈسٹری میں جیا بہادری جیسی اداکارہ کو روشناس کرایا۔ زمانہ طالب علمی میں فلموں اور اداکاروں کیلئے نوجوانوں میں جو دیوانگی ہوتی ہے، اُس کو موضوع بناکر بڑی آسانی سے انہوں نے یہ پیغام عوام تک پہنچا یا کہ یہ لوگ بھی ہماری اور آپ کی طرح عام انسان ہی ہیں۔ اس کے بعد رشی کیش نے نئے زمانے کے ازدواجی رشتوں میں فنکارانہ ’اَنا‘ کو موضوع بناتے ہوئے ۱۹۷۳ء میں فلم ’ابھیمان‘ پیش کی، جس میں امیتابھ اور جیانےجذباتی اور غیرت مند کرداروں کے ذریعہ اس نفسیاتی مسئلہ کو حساس انداز میں پیش کیا مگر یہ انداز خود ان کا پیدا کردہ ہے۔ انہوں نے عام فلم بینوں کے جذبات کی ہمیشہ قدر کی اور ان کی دلجوئی کو بھی ملحوظ رکھا۔
۱۹۷۳ء میں رشی کیش مکھرجی نے عالمی شہرت یافتہ ناٹک ’بیکٹ فرم‘ (Baket Firm) پر اپنی فلم’نمک حرام‘ بنائی جس میں زندگی کی دو سچائیوں کے درمیان سنگھرش کی داستان بیان کی گئی ہے۔ مالک اور نوکر، یہ ایسی دو سچائیاں ہیں جن میں دوستی اور محبت کے جذبے بھی ماند پڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح سماجواد اور سرمایہ دارانہ نظام کی بڑی عمدہ عکاسی اس فلم میں ہوئی ہے۔ امیتابھ بچن اور راجیش کھنہ کی اسٹار ویلیو کو بھی اس فلم میں تولا گیا تھا۔ فلم ’نمک حرام‘ میں رشی کیش مکھرجی نے ہیروئن کے طور پر اداکارہ ریکھا کو لیا تھا اور فلم بین یہ دیکھ کر حیران رہ گئے تھے کہ بولڈ اداکارہ کے طور پر اپنی پہچان بنا لینے والی ریکھا کو انہوں نے بالکل نئے انداز میں پیش کیا تھا۔ اس فلم میں ریکھا کی اداکارانہ صلاحیتوں کو نکھار نے کے بعد میں فلم ’آلاپ‘ (۱۹۷۷ء) اور’خوبصورت‘ (۱۹۸۰ء) میں بھی اُن کے بہترین کردار پیش کئے۔ فلم ’خوبصورت‘ کی شوٹنگ انہوں نے اپنے گھر میں ہی کی تھی تاکہ فنکاروں کو گھر کا سا ماحول میسر ہو اور وہ اپنی بہترین اداکارانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کر سکیں۔ ریکھا کو وہ چِنا پنّو یعنی چھوٹی بیٹی کہہ کر بلاتے تھے۔ ریکھا نے باصلاحیت فنکارہ کے بطور اپنی پہچان رشی دا کی فلموں ہی سے بنائی تھی۔
اس کے بعد ہلکی پھلکی خوشگوار کامیڈی کے ساتھ رشی کیش مکھرجی کی ایک اور فلم ’چپکے چپکے‘ ۱۹۷۵ء میں پردۂ سیمیں کی زینت بنی۔ یہ فلم رشی کیش کی اُسی روایت پر مبنی تھی جو وہ ’گول مال، رنگ برنگی‘ اور’خوبصورت‘ جیسی فلموں میں پیش کر چکے تھے مگر یہاں ایک بہت سنجیدہ معاملے کو انہوں نے بہت سلیقے سے مزاح کے روپ میں پیش کیا تھا۔ رشی کیش نے اپنی لمبی فلمی زندگی میں کئی اداکاروں کو ایک نئی سمت ورفتار عطا کی ہے۔ راجیش کھنہ کے فلم ’آنند، باورچی‘ اور’نمک حرام‘ جیسے کرداروں کو پیش کرنے میں رشی کیش مکھرجی کا ہی کمال ہے۔ فلم ’آنند‘ کے زمانے سے ہی رشی دا نے راجیش کھنہ کا نام پنٹو بابا رکھ دیا تھا اور آخر تک انہیں اسی نام سے پُکارتے رہے۔
اسی طرح ایکشن فلموں میں ضائع ہورہے سنجیو کمار کی صلاحیتوں کو انہوں نے فلم ’آشیرواد‘ کے چھوٹے سے کردار میں بڑی خوبی کے ساتھ پیش کیا تھا۔ آگے چل کر سنجیو کمار کی ان ہی صلاحیتوں کو فلمساز وہدایتکار گلزار نے فلم ’کوشش، پریچے، آندھی‘ اور’موسم‘ میں اور رمیش سپی نے فلم ’شعلے‘ میں استعمال کرکے فائدہ اُٹھایا۔ ۱۹۷۶ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’ارجن پنڈت‘ میں سنجیو کمار کیلئے جو گنجائش رشی کیش نے پیدا کی ہے، وہ یادگار بن گئی ہے۔
دھرمیندر، جو کبھی اداکارانہ صلاحیتوں سے نہیں پہچانے جاتے تھے، اُن کو بھی رشی کیش نے ’انوپما، ستیہ کام‘ اور’چپکے چپکے‘ میں اُجاگر کردیا ہے۔ انہوں نے فلم ’ستیہ کام‘ میں اشوک کمار کے کردار کو جس بلندی پر پہنچایا، وہ بھی اُن کی ہدایتکارانہ صلاحیت کا کمال ہے۔ جیہ بہادری کے کردار کو ایک خاص امیج سے نکال کر جس طرح ایک نئی امیج ’گڈی‘ میں رشی کیش مکھرجی نے پیدا کی ہے، اس کی یادیں آج بھی فلم بینوں کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ اُن کے ساتھ کام کرنا سبھی فنکار اپنی خوش نصیبی سمجھتے تھے کیونکہ اُن کے کردار زندگی سے بھرپور ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سُپر اسٹار سے لے کر قطار کے آخر میں کھڑا ہوا کوئی بھی فنکار اُن کی فلم میں چھوٹا سا چھوٹاکردار ادا کرنے کیلئے بھی ہمیشہ تیار رہتا تھا۔ رشی کیش نے ہمیشہ لیک سے ہٹ کر ہی فلمیں بنائیں مگر کئی بار انہوں نے فلمساز کی مرضی کے مطابق بھی فلمیں بنائیں، جن میں اُن کا اپنا رنگ کہیں گم سا ہو گیا۔ اس بات کا اعتراف وہ خود بھی کھلے دل سے کرتے تھے کہ اُن کی اس طرح کی فلمیں ناکام ہوئیں ، جس کی وجہ سے ان کے نام اور کام کو نقصان پہنچا۔ اُن کا خیال تھا کہ اپنی پہلی ہی فلم ’مسافر‘ سے انہوں نے الگ قسم کی فلمیں بنانے کی ٹھان لی تھی، لیکن بیچ بیچ میں انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے وہ فلمسازی کی بے مقصد اور بیہودہ دوڑ میں خود بھی شامل ہو گئے ہیں اور جب بھی انہیں ایسا لگا، انہوں نے خود کو سنبھالا اور اپنی مرضی کے مطابق فلمیں بنائیں۔ رشی کیش مکھرجی نے۱۹۸۵ء میں فلم ’جھوٹی‘ پیش کی اور اس کے بعد مسلسل اپنی بیماری کے سبب وہ کوئی فلم نہیں بنا سکے۔ ۱۹۹۸ء میں انہوں نے انل کپور اور جوہی چاولہ کو لے کر فلم ’جھوٹ بولے کوا کاٹے‘ پیش کی، مگر یہ فلم باکس آفس پر ناکام ہو گئی۔ اپنے استاد بمل رائے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے رشی کیش بھی اپنی فلموں کے ذریعہ ہندوستانی عوام کو کوئی پیغام یا تحریک دینے کی کوشش کرتے تھے۔ انہوں نے آرٹ اور کمرشیل سنیما کو درمیان کاایک ایسا راستہ دکھایا جو کامیاب بھی رہا اور مقبول بھی۔
اپنی آخری فلم ’جھوٹ بولے کو ا کاٹے‘ سے پہلے انہوں نے دھرمیندر کے ساتھ ایک فلم ’لاٹھی‘ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس فلم کے ایک یا۲؍ شیڈیول کی شوٹنگ بھی کی گئی تھی مگر اس کے بعد بعض وجوہات سے یہ فلم جو ڈبے میں بند ہوئی تو پھر بند ہی ہوکر رہ گئی۔ رشی کیش مکھرجی نے اپنی تقریباً ۵۰؍ سالہ فلمی زندگی میں کل۴۲؍فلموں کی ہدایت دی اور کئی فلموں کا اسکرپٹ بھی خود ہی تیار کیا۔ انہوں نے دور درشن کیلئے بھی کئی سیریل بنائے اور کئی سیریلوں کی ہدایت کاری بھی کی ہے۔ ’ہم ہندوستانی، دھوپ چھاؤں، تلاش، رشتے‘ اور’اُجالے کی اُور‘ ایسے ہی چند پروگرام ہیں، جن میں زمانے کے ساتھ چلتے ہوئے انہوں نے اپنی چھاپ بھی چھوڑی ہے۔ دراصل سستی شہرت اور تجارتی مقابلے کے اِس دَور میں جس قسم کے سیریلوں کی روایت قائم ہو گئی ہے، ایسے میں رشی کیش جیسے باصلاحیت ہدایتکار کی آج بھی ضرورت ہے، جن کا مقصد صرف پیسہ کمانا نہیں بلکہ جو معاشرے کیلئے بھی اپنے ذہن ودل میں ایک ذمہ داری محسوس کرتے ہیں۔ رشی کیش ایک نیک دل انسان تھے اور اپنی ذاتی زندگی میں وہ شروع سے آخر تک ایک جیسے رہے۔ وقت کے نشیب وفراز بھی اُن میں کوئی تبدیلی پیدا نہ کر سکے۔ اُن کی فلمیں بھی ان کی ذاتی زندگی کی طرح صاف ستھری اور بامقصد ہی رہیں۔
رشی کیش مکھرجی نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (این ایف ڈی سی) اور سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن (سی بی ایف سی) کے چیئرمین بنائے گئے اور فلم فائننس کارپوریشن (ایف ایف سی) کے ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ ان کے دور میں متذکرہ اداروں میں بڑی خوبی سے کام چلا۔ حالانکہ اس کے بعد بھی ان کو کئی فلمی عہدوں کیلئے پیش کش کی گئی مگر انہوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ انہیں مسترد کر دیا۔ ۱۹۶۰ء میں ریلیز فلم ’انورادھا‘ اور۱۹۶۶ء میں ریلیز فلم ’انوپما‘ کو پریسیڈنٹ کا گولڈ میڈل ملا تھا۔ ۱۹۶۸ء میں فلم ’آشیرواد‘ اور۱۹۶۹ء میں فلم ’ستیہ کام‘ اور پھر۱۹۷۱ء میں فلم ’آنند‘ کو فلم فیئر کے ساتھ ہی کئی دوسرے ایوارڈ بھی ملے۔ خیال رہے کہ اُن کی۱۴؍ فلموں نے سلور جبلی منائی تھی۔ ۱۸؍ستمبر۲۰۰۰ء کو۱۹۹۹ء کا فلمی دُنیا کا سب سے بڑا سرکاری اعزاز ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ اُس وقت کے صدر جمہوریۂ کےآر نارائنن کے ہاتھوں رشی کیش مکھرجی کو پیش کیا گیا۔ ۲۰۰۱ء میں سرکار کی طرف سے اُن کو ’پدم وبھوشن‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔
اپنی زندگی کے آخری برسوں میں رشی دا گھر پر اکیلے ہی رہتے تھے۔ سب سے پہلے اُن کی اہلیہ نے داغ مفارقت دیا، پھر اُن کا ایک بھائی چل بسا اور جون۲۰۰۰ء میں ان کا چھوٹا بیٹا سندیپ مکھرجی، جو دستاویزی فلمیں بناتا تھا، کے اچانک انتقال کی وجہ سے وہ ٹوٹ کر رہ گئے تھے۔ سندیپ ٹرین سے دہلی جا رہا تھا کہ راستے میں دمہ کا حملہ ہوا اور وہ جانبر نہ ہو سکا۔ اُن کا بڑا بیٹا امریکہ میں سائنسداں ہے۔ رشی دا اپنی طویل بیماری کی وجہ سے لمبے عرصے تک فلم میکنگ سے دُور رہے مگر وہ کچھ ایسا کرنا چاہتے تھے جو اُن کی زندگی کا ماحصل ہو اور صدیوں تک کیلئے یادگار بن جائے۔
رشی کیش مکھرجی کو۵؍جون۲۰۰۶ء کو ممبئی کے لیلاوتی اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، وہ کئی ماہ سے بیمار تھے۔ دراصل گردے متاثر ہوجانے سے وہ مستقل بیمار رہتے تھے۔ انہیں بیماریوں کے بیچ ۲۷؍اگست۲۰۰۶ء کی شام اسپتال میں ہی انہوں نے آخری سانس لی اور کئی کامیاب اور بامقصد فلموں کا یہ خالق اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ اُن کا بیٹا امریکہ میں تھا، لہٰذا اُس کے آنے کے بعد ۲۹؍اگست کو ہزاروں پُرنم آنکھوں کی دھندلکی چھائوں میں اُن کی آخری رسومات ادا کی گئیں ۔