Inquilab Logo Happiest Places to Work

رشی کیش مکھرجی نے ایڈیٹر، ہدایتکار اور فلمساز بن کرخوب شہرت حاصل کی

Updated: May 04, 2025, 12:00 PM IST | Anis Amrohvi | Mumbai

۱۹۵۷ء میں دلیپ کمار کے مشورے پر انہوں نے فلم ’مسافر‘ کی ہدایتکاری کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس فلم میں دلیپ کمار نے لتامنگیشکر کے ساتھ ایک گیت بھی گایا تھا اور بغیر کوئی معاوضہ لئے کام کیا تھا، یہ فلم باکس آفس پر بھی کامیاب رہی اور ناقدین کو بھی پسند آئی۔

Director Hrishikesh Mukherjee, who specializes in making family films. Photo: INN.
خاندانی فلمیں بنانے میں مہارت رکھنے والے ہدایت کار رشی کیش مکھرجی۔ تصویر: آئی این این۔

مغربی بنگال کی راجدھانی کلکتہ کے ایک متوسط خاندان میں ۳۰؍ستمبر۱۹۲۲ء کو رشی کیش مکھرجی کا جنم ہوا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد کلکتہ یونیورسٹی سے انہوں نے بایولوجی کے مضامین میں گریجویشن کیا اور لڑکیوں کے ایک اسکول میں ٹیچر ہو گئے۔ اُن کے دادا کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ اُن کا خیال تھا کہ لڑکیوں کی قربت سے رشی کیش بگڑ جائے گا اور اس کا مستقبل ختم ہو جائے گا۔ 
داداجی کا حکم مانتے ہوئے انہوں نے ملازمت ترک کر دی اور وہ فری لانس جرنلسٹ کے طور پر آل انڈیا ریڈیو کیلئے لکھنے کا کام کرنے لگے۔ اُدھر داداجی بھی اُن کیلئے زور و شور سے ملازمت کی تلاش کر رہے تھے۔ ۶؍ ماہ کے بعد ہی انہوں نے کلکتہ کے ’نیو تھیٹر‘ میں رشی کیش کیلئے ملازمت تلاش کر لی۔ ایک ایسے وقت میں جب فلموں سے وابستگی کو معیوب سمجھا جاتا تھا، خود اُن کے داداجی نے رشی کیش سے اسکول کی باعزت ملازمت چھڑواکر فلم اسٹوڈیو کی لیب میں ملازم بنواد یا۔ اس طرح یکم اپریل۱۹۴۵ء کو وہ نیوتھیٹر میں لیب اسسٹنٹ بنے اور پھر وہیں سے فلمی دُنیا کا اُن کا۵۰؍ سالہ طویل سفر کا آغاز ہوا۔ نیو تھیٹر کے لیب اسسٹنٹ کے بطور۶۰؍ روپے ماہوار کی ملازمت کے ساتھ فلم ایڈیٹر بی این سرکار کے ساتھ ہی انہوں نے ایڈیٹنگ کا کام بھی سیکھا اور۲؍ سال بعد ہی۱۹۴۷ء میں اُنہیں آزادانہ طور پر ایک بنگالی فلم تتھاپی کی ایڈیٹنگ کا موقع ملا۔ اس کے بعد وہ مقبول ہدایتکار بمل رائے کے معاون اور اُن کی فلموں کے مستقل ایڈیٹر بن گئے۔ ۱۹۵۱ء میں جب بمل کلکتہ سے بمبئی آئے تو رشی کیش بھی بمبئی آگئے۔ یہاں سب سے پہلے بمبئی ٹاکیز کی فلم ’ماں ‘ بمل رائے کو ملی اورجس کی ایڈیٹنگ رشی کیش نے کی۔ اس کے بعد فلم ’دو بیگھہ زمین‘ کی اسکرپٹ بھی انہوں نے لکھی۔ اس کی تکمیل کے دوران وہ بمل رائے کے چیف اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھی تھے اور فلم کے ایڈیٹر بھی۔ اسی دوران وہ بمل رائے کے ساتھ ایک فلمی تقریب میں سوویت یونین بھی گئے۔ اس کے بعد فلم ’مدھومتی‘ تک بمل رائے کی تمام فلموں کی ایڈیٹنگ رشی کیش نے ہی کی۔ خود بمل رائے بھی کیمرہ مین سے ہدایتکار بنے تھے اور رشی کیش لیب اسسٹنٹ سے ایڈیٹر اور پھر ہدایتکار اور فلمساز بنے۔ راجندر سنگھ بیدی بھی اپنی فلموں کی ایڈیٹنگ رشی کیش ہی سے کراتے تھے۔ 
وہ اندھیری میں کرائے کے ایک مکان میں رہا کرتے تھے۔ اُس وقت وہ صرف بمل رائے کے معاون ہوا کرتے تھے۔ بمبئی میں اُن کی دوستی دلیپ کمار سے ہو گئی جو عمر میں اُن سے صرف دو سال چھوٹے تھے اور اکثراندھیری میں ان کے روم پر آیا کرتے تھے۔ ۱۹۵۷ء میں دلیپ کمار کے مشورے پر ہی انہوں نے فلم ’مسافر‘ کی ہدایتکاری کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس فلم میں دلیپ کمار نے لتامنگیشکر کے ساتھ ایک گیت بھی گایا تھا اور بغیر کوئی معاوضہ لئے کام کیا تھا۔ فلم ’مسافر‘ کی نمائش کے ساتھ ہی اِس نوجوان ہدایتکار کے الگ طرز واَنداز کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس فلم میں اُنہوں نے الگ قسم کا ایک تجربہ کیا تھا۔ تین مختصر کہانیوں کو جوڑکر یہ فلم بنائی گئی تھی۔ تینوں کہانیوں کے موڈ الگ الگ تھے، مگر ایک ہی لوکیشن تھی جو ایک کرائے کا مکان تھا۔ تینوں کہانیاں اس ایک مکان میں ایک کے بعد ایک رونما ہوتی ہیں۔ ہدایتکار نے اس لوکیشن کو ایک وسیع استعارے کے طور پر اس دُنیاکی علامت بناکر پیش کیا تھا اور کرایہ دار اِس دُنیا میں آتے جاتے انسان تھے جو دُکھ سکھ، خوشی اور غم، ہر طرح کے احساسات سے گزرتے ہیں۔ رشی کیش کا اپنی بات کو سمجھانے کا انداز بالکل آسان تھا اور اثردار تھا، جو لوگوں کو ہنساتا بھی تھا اور رُلاتا بھی تھا۔ اس فلم میں دلیپ کمار کے ساتھ سچترا سین ہیروئن تھیں، ساتھ ہی اوشا کرن، ڈیزی ایرانی، کشور کمار، نروپا رائے اور نذیر حسین بھی خاص کرداروں میں تھے۔ یہ فلم اور اِس کا پیش کرنے کا انداز فلم شائقین کو بہت پسند آیا۔ اس فلم کو نیشنل فلم فیسٹیول میں ’سرٹیفکیٹ آف میرٹ‘ ملا تھا۔ 
اس کے بعد رشی کیش مکھرجی نے دلیپ کمار کے اصرار پر ہی راج کپور کی فلم ’اناڑی‘ کی ہدایت کی۔ بعد میں رشی دا اور راج کپور کی دوستی کا یہ عالم ہوا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی راج کپور کو اپنی فلم ’آنند‘ میں نہیں لے پائے کیونکہ وہ اپنے دوست کو فلمی زندگی میں بھی مرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ فلم ’اناڑی‘۱۹۵۹ء میں ریلیز ہوئی اور اس فلم کو بہترین ہندی فلم کا نیشنل ایوارڈ ملا۔ امیر ہیروئن اور غریب ہیرو نوتن اور راج کپور کی پریم کہانی کو رشی کیش نے کئی نئے انداز دے کر ایک الگ ہی قسم کی فلم بنائی تھی۔ کرداروں کے آپسی تعلقات، سچائی، ایمانداری اور انصاف کے پہلوئوں کو نہایت سادگی اور دلچسپی سے پیش کیا گیاتھا۔ 
’اناڑی‘ کی کامیابی کے بعد انہیں کئی بڑے بجٹ کی فلموں کے آفر آئے مگر وہ فلمیں اُن کے ذہن سے میل نہیں کھاتی تھیں۔ انہوں نے کلکتہ واپس جانے کے بارے میں بھی سوچا مگر بلراج ساہنی نے انہیں روک لیا اور اُن سے اپنی فلم ’انورادھا‘ ڈائریکٹ کرائی۔ اس طرح۱۹۶۰ء میں رشی کیش نے فلم ’انورادھا‘ پیش کی۔ ایک عورت کے ایثار اور جذبۂ قربانی کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کرنے کے ساتھ موسیقار روی شنکر کی موسیقی کی وجہ سے بھی اس فلم کو بہت پسند کیا گیا۔ بلراج ساہنی، لیلا نائیڈو اور نوتن کی بہترین اداکاری سے سجی اس فلم کو صدر جمہوریہ کا سونے کا تمغہ پیش کیا گیا۔ اب رشی کیش مکھرجی کی ہدایتکار کے طور پر ایک خاص پہچان بن گئی تھی اور اُن کے انداز اور طرز کو لوگ پہچاننے لگے تھے۔ اس درمیان انہوں نے اشوک کمار پروڈکشن کی فلم ’پرنیتا‘ کی ایڈیٹنگ بھی کی۔ اس فلم میں اشوک کمار کے ساتھ مینا کماری نے اپنی جذباتی اداکاری سے اس فلم کو بے مثال بنایا تھا۔ 
دلیپ کمار اور راج کپور کے بعد رشی کیش مکھرجی نے ۱۹۶۲ء میں دیوآنند کے ساتھ اداکارہ سادھنا کو لے کر فلم ’اصلی نقلی‘ بنائی۔ اس فلم میں اداکارہ سندھیا رائے نے بھی اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ اس طرح رشی کیش نے اپنے زمانے کے فلمی دُنیا کے تین اہم ستون، دلیپ، راج اور دیو کو اپنی ہدایتکارانہ صلاحیتوں سے فیضیاب کیا۔ 
اِس کے بعد فلم ’چھایا، میم دیدی، عاشق، سانجھ اور سویرا اوردو دل‘ کے بعد رشی کیش نے۱۹۶۶ء میں فلم ’انوپما‘ پیش کی۔ اس فلم میں مکالمے کم تھے مگر دھرمیندر کا الگ قسم کا کردار بھی اس فلم کی خصوصیت تھی اور باپ بیٹی کے درمیان کی نفسیاتی اُلجھنیں سلجھانے کی دلچسپ اور آسان سی کوشش کی گئی تھی۔ اس فلم کو سلور میڈل عطا کیا گیا۔ فلم’انوپما‘ کے بعد ’بیوی اور مکان‘ اور پھر منشی پریم چند کے مشہور ناول پر مبنی فلم ’غبن‘ اور اس کے بعد فلم ’منجھلی دیدی‘ رشی کیش نے پیش کیں۔ ۱۹۶۸ء میں ان کی ایک اہم فلم ’آشیرواد‘ نمائش کیلئے پیش کی گئی اور اس فلم کو بھی سلور میڈل ملا۔ یہ فلم شاعرانہ انداز کے باپ اور اُس کی بیٹی کے حساس رشتوں کی سچائی کا احساس کراتی ہے۔ اس کے فوراً بعد۱۹۶۹ء میں فلم ’ستیہ کام‘ اور۱۹۷۰ء میں فلم’آنند‘ کو بھی سلور میڈل عطا کیا گیا۔ 
فلم ’ستیہ کام‘ کا ہیرو دھرمیندر نہ صرف اپنی بدچلن بیوی کے کردار کی اصلاح کرتا ہے بلکہ سماج میں ہر طرف بڑھتی ہوئی بدعنوانیوں کے خلاف بھی لڑتا ہے۔ رشی دا خود بھی آزادی کے بعد معاشرے میں پھیلتی بدعنوانیوں سے بہت فکرمند رہتے تھے لہٰذا انہوں نے اپنے دل کی وہ سب باتیں دھرمیندر کے کردار کے ذریعہ سماج کے سامنے رکھی ہیں۔ دھرمیندر نے بھی اس کردار میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرکے الگ انداز سے فلم بینوں کو اپنی موجودگی کا احساس کرایا ہے۔ 
فلم ’آنند‘ میں کینسر کا مریض راجیش کھنہ اپنی جلد آنے والی موت سے واقف ہوتے ہوئے بھی خوشیاں بانٹتا پھرتا ہے اور اُمید پر قائم رہنے کا پیغام دے جاتا ہے۔ اس فلم میں رشی کیش نے جذبات کی ایسی عکاسی کی تھی کہ جب یہ فلم راجیش کھنہ کی ماں نے دیکھی تو وہ فلم میں راجیش کھنہ کی موت کے منظر کو برداشت نہ کر سکیں اور بیہوش ہو گئیں۔ بعد میں انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ فلم ’آنند‘ سے امیتابھ بچن پر بابو موشائے کی ایسی مہر ثبت ہوئی کہ لوگ آج بھی امیتابھ بچن کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ فلم ’آنند‘ کے اسی خیال کو فلم ’مِلی‘ میں رشی کیش نے اداکارہ جیا بہادری کے ذریعہ مختلف انداز میں پیش کیا۔ فلم ’ستیہ کام‘ نے دھرمیندر اور فلم ’آنند‘ اور ’نمک حرام‘ نے راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن کو مقبولیت اور شہرت کے سنہرے دروازے پر لاکھڑا کیا۔ 
۱۹۷۱ء میں رشی کیش مکھرجی نے ایک اور بہترین فلم ’گڈی‘ کے ذریعہ فلم انڈسٹری میں جیا بہادری جیسی اداکارہ کو روشناس کرایا۔ زمانہ طالب علمی میں فلموں اور اداکاروں کیلئے نوجوانوں میں جو دیوانگی ہوتی ہے، اُس کو موضوع بناکر بڑی آسانی سے انہوں نے یہ پیغام عوام تک پہنچا یا کہ یہ لوگ بھی ہماری اور آپ کی طرح عام انسان ہی ہیں۔ اس کے بعد رشی کیش نے نئے زمانے کے ازدواجی رشتوں میں فنکارانہ ’اَنا‘ کو موضوع بناتے ہوئے ۱۹۷۳ء میں فلم ’ابھیمان‘ پیش کی، جس میں امیتابھ اور جیانےجذباتی اور غیرت مند کرداروں کے ذریعہ اس نفسیاتی مسئلہ کو حساس انداز میں پیش کیا مگر یہ انداز خود ان کا پیدا کردہ ہے۔ انہوں نے عام فلم بینوں کے جذبات کی ہمیشہ قدر کی اور ان کی دلجوئی کو بھی ملحوظ رکھا۔ 
دوسری اور آخری قسط آئندہ ہفتے ملاحظہ کریں 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK