Inquilab Logo

کیفی کے لکھے نغمے آج بھی شائقین کو محظوظ کر رہے ہیں

Updated: May 10, 2020, 12:06 PM IST | Agency | Mumbai

اردو کے مشہور شاعر اور فلمی دنیا کے معروف نغمہ نگار کیفی اعظمی کی شعرو شاعری کی صلاحیت بچپن کے دنوں سے ہی نظر آنے لگی تھی۔

Kaifi Azmi - Pic : INN
کیفی اعظمیٰ ۔ تصویر : آئی این این

 اردو کے مشہور شاعر اور فلمی دنیا کے معروف نغمہ نگار کیفی اعظمی کی شعرو شاعری کی صلاحیت بچپن کے دنوں سے ہی نظر آنے لگی تھی۔
 ۱۴؍ جنوری ۱۹۱۹ء کو اتر پردیش میں اعظم گڑھ ضلع کے مجواں گاؤں میں پیدا ہوئے سید اطہر حسین رضوی عرف کیفی اعظمی کے والد زمیندار تھے۔ والد حسین انہیں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے تھے اور اسی مقصد سے انہوں نے ان کا داخلہ لکھنؤ کے ’سلطان المدارس‘ میں کرایا تھا۔
 کیفی اعظمی کے اندر کا شاعر بچپن سے زندہ تھا۔ محض ۱۱؍ سال کی عمر سے کیفی اعظمی نے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا جہاں انہیں بہت داد بھی ملا کرتی تھی لیکن بہت سے لوگ جن میں ان کے والد بھی شامل تھے ایسا سوچا کرتے تھے کہ کیفی اعظمی مشاعروں کے دوران خود کی نہیں بلکہ اپنے بڑے بھائی کی غزلوں کو سنایا کرتے ہیں۔ ایک بار بیٹے کا امتحان لینے کیلئے والد نے انہیں گانے کی ایک لائن دی اور اس پر انہیں غزل لکھنے کو کہا۔ کیفی اعظمی نے اسے ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور اس لائن پر ایک غزل کی تخلیق کی۔ ان کی یہ غزل ان دنوں کافی مقبول ہوئی اور بعد میں معروف پلے بیک گلوکار بیگم اختر نے اسے اپنی آواز دی۔ غزل کے بول کچھ اس طرح سے تھے ’’اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے، ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے۔‘‘
کیفی اعظمی محفلوں میں شرکت کرتے وقت نظموں کو بڑے پیار سے سنایا کرتے تھے۔ اس کیلئے انہیں کئی بار ڈانٹ بھی سننی پڑتی تھی جس کے بعد وہ روتے ہوئے اپنی والدہ کے پاس جاتے اور کہتے ’’اماں دیکھنا ایک دن میں بہت بڑا شاعر بن کر دکھاؤں گا۔ ‘‘
 کیفی اعظمی کبھی بھی اعلیٰ تعلیم کی خواہش مند نہیں رہے۔ مدرسہ میں اپنے تعلیمی سفر کے دوران وہاں کے نظام کو دیکھ کر انہوں نے طلبہ یونین قائم کی اور اپنے مطالبات کی تکمیل نہ ہونے پر طلبہسے ہڑتال پر جانے کی اپیل کی۔ ان کی اپیل پر طلبہ ہڑتال پر چلے گئے اور اس دوران ان کا دھرنا تقریباً ڈیڑھ سال تک چلا۔ لیکن اس ہڑتال کی وجہ سے کیفی اعظمی کو مدرسہ سے نکال دیا گیا۔
 اس ہڑتال سے کیفی اعظمی کو فائدہ بھی پہنچا اور اس دوران اس وقت کے کچھ ترقی پسند مصنفین کی نظر ان پر پڑی جو ان کی قیادت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے تھے۔ ان کے اندر انہیں ایک ابھرتا ہوا شاعر دکھائی دیا اور انہوں نے ان کو حوصلہ افزائی کرنے اور ہر ممکن مدد دینے کی پیشکش کی اس کے بعد ایک طالب علم لیڈر اطہر حسین کے اندر شاعر کیفی اعظمی نے جنم لے لیا۔ 
 ۱۹۴۲ء میں کیفی اعظمی اردو اور فارسی کی اعلیٰ تعلیم کیلئے لکھنؤ اور الہ آباد بھیجے گئے لیکن کیفی نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکنیت حاصل کرکے پارٹی کارکن کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا اور پھر ہندوستان چھوڑو تحریک میں شامل ہو گئے۔
 اس درمیان مشاعروں میں کیفی اعظمی کی شرکت جاری رہی۔ ۱۹۴۷ء میں ایک مشاعرے میں شرکت کیلئے وہ حیدرآباد پہنچے جہاں ان کی ملاقات شوکت اعظمی سے ہوئی اور ان کی یہ ملاقات جلد ہی شادی میں تبدیل ہو گئی۔ آزادی کے بعد ان کے والد اور بھائی پاکستان چلے گئے لیکن کیفی اعظمی نے ہندوستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔
 شادی کے بعد بڑھتے اخراجات کو دیکھ کر کیفی اعظمی نے ایک اردو اخبار کیلئے لکھنا شروع کر دیا جہاں سے انہیں ۱۵۰؍ روپے ماہانہ تنخواہ ملا کرتی تھی۔ ان کی پہلی نظم ’سرفراز‘ لکھنؤ میں شائع ہوئی تھی۔ شادی کے بعد ان کے گھر کا خرچ بہت مشکل سے چل پاتا تھا۔ انہوں نے ایک دوسرے روزنامہ اخبار میں طنزو مزاح کا کالم بھی لکھنا شروع کیا۔ اس کے بعد اپنے گھر کے بڑھتے اخراجات کو دیکھ کیفی اعظمی نے فلمی نغمے لکھنے کا فیصلہ کیا۔ کیفی اعظمی نے سب سے پہلے ہدایتکار شاہد لطیف کی فلم ’بزدل‘ کیلئے ۲؍ نغمے لکھے جس کے بدلے میں انہیں ایک ہزار روپے ملے۔ اس کے بعد ۱۹۵۹ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’کاغذ کے پھول‘کیلئے کیفی اعظمی نے ’وقت نے کیا کیا حسیں ستم ، تم رہے نہ تم ہم رہے نہ ہم‘ جیسا سدا بہار گیت لکھا۔ ۱۹۶۵ء کی فلم ’حقیقت‘ میں ’کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو، اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو‘ کی کامیابی کے بعد کیفی اعظمی کامیابی کی چوٹی پر جا پہنچے۔ کثیر الجہت صلاحیت کے مالک کیفی اعظمی نے فلم ’گرم ہوا‘ کی کہانی، مکالمے اور اسکرین پلے بھی لکھے جن کیلئے انہیں فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ فلم ’ہیر رانجھا‘ کے منظوم مکالمے کیفی اعظمی ہی نے لکھے تھے جبکہ نے شیام بینیگل کی فلم ’منتھن‘ کا اسکرپٹ بھی انہی نے لکھا تھا۔ تقریباً ۷۵؍  سال کی عمر کے بعد کیفی اعظمی نے اپنے گاؤں مجوا ں ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے مشہور گیتوں سے سامعین کو محظوظ کرنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی ۱۰؍ مئی ۲۰۰۲ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

kaifi azmi Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK