Inquilab Logo Happiest Places to Work

فلم شعلے سے متعلق اسرانی کی گفتگو کے اہم اقتباسات

Updated: August 17, 2025, 11:26 AM IST | Mumbai

اسرانی نے بتایا شروع میں ان کے کردار کو بہت معمولی سمجھا گیا اور اسے ہٹا نے کے بارے میں سوچ لیا گیا تھا لیکن پھر یہ کردار اتنا ہٹ ہوا کہ لوگ انہیں آج بھی جیلر کے نام سے پکارتے ہیں۔

Asrani, in the film Sholay. Photo: INN
اسرانی، فلم شعلے میں۔ تصویر: آئی این این

’ہم انگریزوں کے زمانے کا جیلر ہیں۔ ‘‘فلم’شعلے‘ کا یہ ڈائیلاگ آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ اس فلم میں کئی ایسے مکالمے تھے جو فلم شائقین کو از بر ہیں بلکہ یہ مکالمے کچھ ایسے لوگوں کو بھی یاد ہیں جنہوں نے فلم نہیں دیکھی ہے۔ ان مکالموں میں ’’کتنے آدمی تھے؟‘‘.... ’’ہولی کب ہے؟‘‘... ’’بسنتی ان کتوں کے سامنے مت ناچنا‘‘.... اور ’’یہ ہاتھ مجھے دے دے ٹھاکر‘‘ قابل ذکر ہیں۔ دو دن قبل اس فلم نے اپنی ریلیز کے ۵۰؍ سال مکمل کئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ایک بار پھر ’شعلے‘ موضوع بحث ہے۔ اس فلم نے کئی ایسے کرداروں کو جاودانی بخش دی ہے جو اُس سے قبل بہت زیادہ مشہور نہیں تھے یا اس کے بعد بھی کسی فلم میں اس طرح کی مقبولیت حاصل نہیں کر سکے۔ ان میں امجد خان اور اسرانی کا نام خاص طور پر لیا جاسکتا ہے۔ اسرانی کا شمار بالی ووڈ کے تجربہ کار اداکاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے زیادہ تر فلموں میں مزاحیہ اور معاون کردار کئے ہیں۔ لیکن، اپنی اداکاری کی مہارت سے انہوں نے اپنے بیشتر کرداروں میں جان ڈال دی ہے۔ شائقین اسرانی کی اداکاری کی صلاحیتوں سے واقف ہیں لیکن شاید کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ ان میں گلوکاری کا بھی ہنر ہے۔ جی ہاں، اسرانی نے ’الاپ‘ اور ’پھول کھلے ہیں گلشن گلشن‘ جیسی فلموں میں اپنی آواز کا جادو بکھیرا ہے۔ فلم کی ریلیز کی ۵۰؍ویں سالگرہ کی مناسبت سے گزشتہ دنوں انہوں نے ایک ہندی روزنامے’دینک بھاسکر‘ کو انٹرویو دیا ہے، جس میں انہوں نے کئی دلچسپ باتوں کاانکشاف کیا ہے۔ ملاحظہ کریں ان کی گفتگو کے بعض اقتباسات۔ 
 اسرانی نے بتایا شروع میں ان کے کردار کو بہت معمولی سمجھا گیا اور اسے ہٹا نے کے بارے میں سوچ لیا گیا تھا لیکن پھر یہ کردار اتنا ہٹ ہوا کہ لوگ انہیں آج بھی جیلر کے نام سے پکارتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ’’ آپ یقین نہیں کریں گے کہ گبر سنگھ کا کردار سب سے پہلے ڈینی کو آفر کیا گیا تھا۔ وہ ہمارے دوست ہیں۔ فلم انسٹی ٹیوٹ میں وہ مجھ سے بہت جونیئر تھے۔ جب میں فلم انسٹی ٹیوٹ میں انسٹرکٹر تھا، ڈینی وہاں کے طالب علم تھے۔ اس وقت جیابہادری، شتروگھن سنہا، شبانہ اعظمی، ریحانہ سلطان اور نوین نشچل میرے شاگرد تھے۔ ڈینی اس وقت فیروز خان کی فلم’دھرماتما‘ کر رہے تھے۔ جب ڈینی نے فیروز خان کو فلم’شعلے‘ کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا کہ کیا تم پاگل ہو گئے ہو؟ زندگی میں تمہیں ایسا کردار کوئی نہیں دے گا جو میں نے تمہیں دیا ہے اور تم ڈاکو کا کردار ادا کرنے جا رہے ہو۔ ڈینی بہت سادہ انسان ہیں۔ فیروز خان کی بات سن کر انہوں نے’شعلے‘ کی پیشکش ٹھکرا دی۔ ‘‘
فلم کے تعلق سے اسرانی نے بتایا کہ’’ سنیل دت نے محبوب خان کی فلم ’مدر انڈیا‘ میں ڈاکو کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم سے سنیل دت کا کریئر بنا۔ ڈینی کے بعد سنیل دت کو گبر سنگھ کا کردار آفر کیا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ چونکہ فلم میں دھرمیندر اور امیتابھ بچن ہیں، اسلئے ان کا نام فلم میں پہلے آنا چاہئے لیکن ’شعلے‘ کے فلمسازوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا، اسلئے سنیل دت نے فلم چھوڑ دی۔ اس کے اس کردار کیلئے رمیش سپی شترو گھن سنہا کے پاس گئے۔ کوئی نہیں جانتا کہ انہوں نے کیا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے بھی گبر سنگھ کا کردار کھو دیا۔ بالآخر سلیم جاوید نیشنل کالج میں ڈراما دیکھنے گئے جہاں انہوں نے امجد خان کا ایک ڈراما دیکھا اور پھر گبر سنگھ کے کردار کیلئے امجد خان کا نام رمیش سپی کو تجویز کیا۔ پہلے ان کی آواز کے ساتھ مسئلہ بتایا گیا لیکن ریکارڈسٹ نے کہا کہ ان کی آواز میں کوالیٹی ہے تو انہیں فائنل کرلیا گیا۔ ‘‘
اسرانی نے بتایا کہ ’’میں گجرات کے شہربڑودہ میں ایک پروگرام میں جا رہا تھا۔ میں گجراتی فلموں میں کام کر رہا تھا۔ امجد خان کے ساتھ مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ امجد خان کا چھوٹا بچہ بھی ساتھ گیا۔ اسے پیاس لگی تو ہم کولڈ ڈرنک لینے راستے میں ایک چھوٹی سی دکان پر رک گئے۔ جیسے ہی بچے نے کولڈ ڈرنک کی بوتل کھولی پیچھے سے آواز آئی’کتنے آدمی تھے‘۔ میں چونک گیا کہ یہ آواز کہاں سے آئی؟امجد خان کی آواز کی کیسٹ ہر طرف بج رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ امجد کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اسی آواز کو پہلے ٹھکرا دیا گیا تھا۔ 
اسرانی نے فلم میں اپنے کردار کے بارے میں بتایا کہ میں فلم کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ میں نے سوچا کہ پروڈیوسر ڈائریکٹر مجھے ایک کردار کیلئے بلا رہے ہیں۔ جب میں ان سے ملنے گیا تو میری ملاقات رمیش سپی کے ساتھ سلیم جاوید سے ہوئی۔ جاوید صاحب نے اسکرپٹ سنایا کہ اٹینشن ہم انگریزوں کے زمانے کے جیلر ہیں۔ یہ کرداربے وقوف ہے لیکن اسے لگتا ہے کہ وہ دنیا کا ذہین ترین آدمی ہے۔ میں نے سوچا کہ میں نے ایسا کردار کبھی ادا نہیں کیا تھا۔ اس نے مجھے دوسری جنگ عظیم کے دوران پڑھنے کیلئے ایک کتاب دی جس میں ہٹلر کی کچھ تصویریں تھیں۔ شروع میں مجھے لگا تھاکہ یہ کردار میں نہیں کرپاؤں گا لیکن مجھے اشوک کمار کی بات یاد آئی کہ تم صرف مکالمےیاد کرلو باقی سب کچھ ہدایتکارپر چھوڑ دو۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK