Inquilab Logo

خورشید بانو ہندی فلموں کے ابتدائی دور کی اداکارہ اور گلوکارہ تھیں

Updated: April 16, 2024, 10:54 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ہم اکثر سوچتے ہیں کہ ہندی فلموں کے ابتدائی دور میں وہ کون سے اداکار یا اداکارائیں رہی ہونگی۔ آج ہم ابتدائی دور کی ایک اداکارہ کا تعارف پیش کررہے ہیں۔ یہ اداکارہ اور گلورکارہ خورشید بانو کے نام سے مشہور ہیں۔

Early actress and singer Khursheed Bano. Photo: INN
ابتدائی دور کی اداکارہ اور گلوکارہ خورشید بانو۔ تصویر : آئی این این

ہم اکثر سوچتے ہیں کہ ہندی فلموں کے ابتدائی دور میں وہ کون سے اداکار یا اداکارائیں رہی ہونگی۔ آج ہم ابتدائی دور کی ایک اداکارہ کا تعارف پیش کررہے ہیں۔ یہ اداکارہ اور گلورکارہ خورشید بانو کے نام سے مشہور ہیں۔ انہیں عام طور پر صرف خورشید کےنام سے جانا جاتاہے۔ ۱۹۴۸ء میں پاکستان ہجرت کرنےسےقبل ان کا کریئر ۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۰ء کی دہائیوں پر مشتمل تھا۔ ان کی پہلی فلم لیلیٰ مجنوں (۱۹۳۱ء)تھی۔ انھوں نے ہندوستان میں ۳۰؍سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ وہ اپنی فلم تان سین (۱۹۴۳ء)کے لیے مشہور ہیں جس میں ان کے مد مقابل اداکار کندن لال سہگل تھے۔ اس فلم کے کئی گانے بہت مشہور ہیں۔ خورشید بانو لاہور کے قریب ضلع قصور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام ارشاد بیگم تھا۔ ان کا بچپن بھاٹی دروازہ کے علاقے میں علامہ اقبال کے گھر کے قریب گذرا۔ 
 عالم آرا ہندوستان کی پہلی باآواز فلم، جو۱۴؍ مارچ ۱۹۳۱ءکوممبئی کے میجسٹک تھیٹر میں پیش کی گئی۔ اسی سال خورشید بانوکی پہلی فلم لیلی مجنوں (۱۹۳۱ء)بھی ریلیزہوئی تھی اس کے علاوہ اسی سال ان کی ایک اور فلم شکنتلا بھی ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بعد۱۹۳۲ء میں ان کی فلمیں چتر بکائولی، ہٹیلی دلہن، مفلس عاشق اور رادھے شیام ریلیز ہوئیں۔ ۱۹۳۳ء میں نقلی ڈاکٹر، ۱۹۳۵ء میں سورگ کی سیڑھی، بم شیل، چراغ حسن اور مرزا صاحباں ریلیز ہوئیں۔ اگلے سال یعنی ۱۹۳۶ء میں ان کی دو فلمیں کیمیاگر اور اعلان جنگ ریلیز ہوئیں۔ ۱۹۳۷ء میں ایمان فروش، ۱۹۳۸ء میں مدھر ملن کے بعد ۱۹۳۹ء میں مراد، کون کسی کا اور ستارہ نامی فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ 
 ۱۹۳۱ءسے۱۹۴۲ءکےدوران انھوں نے کلکتہ اور لاہور کے اسٹوڈیوز کی بنائی ہوئی فلموں میں کام کیا وہ گلوکارہ-اداکارہ کے طور پر پہچانی جاتی تھیں تاہم اس دور کی ان کی فلمیں فلم بینوں پر کوئی خاص اثر نہ چھوڑ سکیں۔ ان کے عروج کا دور اس وقت آیا جب وہ رنجیت مووی ٹون فلمزمیں کندن لال سہگل، موتی لال اور جے راج کےمد مقابل کام کیلئے بمبئی منتقل ہو گئیں۔ ۱۹۴۱ء میں ان کی فلم مسافر اور ہولی ریلیز ہوئیں جبکہ ۱۹۴۱ء میں پردیسی، بیٹی اور شادی ریلیز ہوئی۔ کندن لال سہگل کےساتھ چتوربھوج دوشی کی فلم جگت سورداس اور اس کے بعد تان سین میں کام کرنےبعد وہ اپنے عروج پر پہنچیں۔ انھیں ’پہلی گلوکار ستاروں کی جوڑی‘ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ 
 ان کے چند مشہور گیتوں میں ۱۹۴۰ء کی فلم مسافر کا گیت’پیا جی آن ملو…‘، ۱۹۴۱ء کی فلم شادی میں ’بھگوئی موری ساری رے‘اسی سال ریلیز ہونے والی فلم پردیسی کا گیت’پہلے جو محبت سے انکار کیا ہوتا‘، ۱۹۴۲ء کی فلم بھکت سورداس کا گیت ’مدھر مدھر گا رے…‘ ۱۹۴۳ء کی فلم تان سین سے گیت’گھٹا گھن گھور گھور…‘تان سین ہی سے کے ایل سہگل کے ساتھ ڈویٹ گیت ’مورے بال پن کے ساتھی…‘۱۹۴۳ء ہی کی فلم نرس سے کہانی بن گئی موری…‘، ۱۹۴۴ء کی فلم شاہ جہاں بابر سے گیت ’محبت میں سارا جہاں جل رہا ہے…‘ اور اسی سال فلم ممتاز محل کیلئے ’جو ہم پہ گزرتی ہے…‘گایا۔ اس کے بعد ۱۹۴۵ء میں انہوں نے فلم مورتی کیلئے مکیش کے ساتھ ڈوئٹ گیت ’بدریا برس گئی رے اس پار…‘ اور ۱۹۴۷ء کی فلم آگے بڑھو کیلئے گیت ’ساون کی گھٹا دھیرے دھیرے آنا جیسے گیت گاکر اس دور میں خوب نام کمایا تھا۔ خورشید بانو۱۸؍اپریل۲۰۰۱ءکواپنی ۸۷؍ ویں سالگرہ سے ۴؍ دن بعد پاکستان کے شہر کراچی میں انتقال کر گئیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK