فلم انڈسٹری میں آنے سے قبل خواجہ احمدعباس بطور صحافی اپنی شناخت بنا چکے تھے۔ بعد ازاں فلمی مبصر کے طور پر بھی انہوں نے اپنی ایک واضح پہچان بنائی اور یہیں سے ان کے باضابطہ فلموں میں داخلے کا راستہ ہموار ہوا۔ انہوںنے غیرارادی طور پر’ وی شانتارام‘ کو اپنا فلمی استاد بنایا تھا لیکن ان کی بیشتر فلموں پر صحافت کا پہلو پوری طرح سے حاوی ہوتا تھا۔
خواجہ احمد عباس۔ تصویر: مڈڈے
اُردو کے مشہور شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کے شاگرد خواجہ الطاف حسین حالیؔ کے نواسے خواجہ احمد عباس ۷؍جون ۱۹۱۴ء کو غیرمنقسم ہندوستان کے صوبہ پنجاب، (اب ہریانہ) کے پانی پت شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ اُن کے والد غلام السبطین نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرکے معلمی کا پیشہ اختیار کر لیا تھا۔خواجہ غلام السبطین کی شادی خواجہ سجاد حسین کی بیٹی مسرورہ خاتون سے ہوئی جو مولانا الطاف حسین حالیؔ کی پوتی تھیں۔ مسرورہ خاتون کے بطن سے خواجہ احمد عباس تین بہنوں کے بعد پیدا ہوئے، لہٰذا سب سے چھوٹے ہونے کی وجہ سے وہ گھر کے تمام افراد کے لاڈلے تھے۔ خواجہ احمد عباس نے پرائمری تعلیم اپنے ہی خاندان کے حالیؔ مسلم اسکول میں حاصل کی۔ آزادی کے بعد اس اسکول کا نام آریہ ہائی اسکول کر دیا گیا۔ خواجہ احمد عباس کا مکان ریلوے اسٹیشن کے بہت قریب تھا اور وہ بچپن ہی سے ریل سے کافی متاثر تھے لہٰذا انہوں نے ریلوے ڈرائیور بننے کی آرزو دل میں پال لی تھی۔ انہی دنوں قصبے میں چلتے پھرتے سنیما گھروں کی آمد و رفت شروع ہو گئی تو ان کے دل میں سنیما آپریٹر بننے کی خواہش پروان چڑھنے لگی۔ اس وقت کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ بڑے ہوکر خواجہ احمد عباس فنِ سنیماگری سے اس قدر جڑ جائیں گے کہ عالمی شہرت ان کو حاصل ہوگی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد خواجہ احمد عباس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے اور وہیں سے ۱۹۳۳ء میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ انہی دنوں وہ حصول تعلیم کے ساتھ عملی طور پر صحافت سے وابستہ ہو گئے اور دہلی سے شائع ہونے والے اخبار’نیشنل کال‘ کیلئے کام کرنے لگے۔
خواجہ احمد عباس کے والد خواجہ غلام السبطین ان کو وکالت کی تعلیم دلانا چاہتے تھے لیکن وہ فطری طور پر صحافت کی طرف رجحان رکھتے تھے لہٰذا انہوںنے عبداللہ بریلوی کے قوم پرست ’بامبے کرانیکل‘ اور پوتھن جوزف کے نئے اخبار ’ہندوستان ٹائمس‘ کی جزوقتی نامہ نگاری کا کام شروع کر دیا۔ زمانہ طالب علمی ہی میں عباس نے ہم خیال دوستوں کے تعاون سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ کا اخبار ’علی گڑھ اوپینین‘ نکالنا شروع کیا۔ اس چھوٹے سے اخبار کی اشاعت کے ساتھ ساتھ عباس ’بامبے کرانیکل‘ اور’نیشنل کال‘ میں نامہ نگاری بھی کرتے رہے۔
علی گڑھ میں احمد عباس نے برنارڈ شاہ کے ایک ڈرامے میں فوجی افسر کا کردار ادا کیا تھا۔ یہیں پر اُن کی ملاقات فلمساز و ہدایتکار نجم نقوی امروہوی سے بھی ہوئی تھی جو اسٹیج ڈراموں میں زنانہ کردار ادا کیا کرتے تھے۔ مسلم یونیورسٹی کے اس زمانے کے ماحول میں کسی لڑکی کا اسٹیج پر جاکر کردار ادا کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ نجم نقوی بعد کے دنوں میں بمبئی کی فلم انڈسٹری میں بطور ہدایتکار اور فلمساز مقبول ہوئے۔
ابتدائی دنوں میں خواجہ احمد عباس کو نیشنل کال میں بغیر تنخواہ کے تربیتی ملازمت ملی تھی، جس میں بارہ گھنٹے روزانہ کام کرنا پڑتا تھا۔ اتنی محنت مشقت کے باوجود تین ماہ کی تربیت کے بعد عباس کو اپنے والد کے حکم کے مطابق اکتوبر ۱۹۳۳ء میں دوبارہ علی گڑھ جاکر وکالت کے کورس میں داخلہ لینا پڑا۔علی گڑھ میں اس زمانے تک لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ انہوںنے لڑکیوں کی تعلیم کو قومی سطح پر موضوع بحث بنانے کیلئے ایک دلچسپ طریقہ اپنایا اور ’جہاں آرا‘ کے فرضی نام سے ملک کے تین بڑے انگریزی روزناموں میں خطوط لکھنے شروع کر دیئے لہٰذا عباس کی اس کوشش سے یونیورسٹی میں جہاں آرا فرضی نام کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور حوصلہ مند لڑکی کے اقدام نے ہلچل مچا دی اور بہت سے مرد بھی اس مطالبے کی حمایت کرنے لگے۔
ایل ایل بی کے دوران چار ماہ کیلئے خواجہ احمد عباس نے عبداللہ بریلوی کے انگریزی روزنامے ’بامبے کرانیکل‘ میں بیس روپے ماہوار تنخواہ پر سب ایڈیٹر کی ملازمت کر لی اور ایک دن انصار ہروانی کے ساتھ ٹین کا ایک بکس اور ہولڈال لے کر بمبئی پہنچ گئے۔ وہاں اُن کا قیام بھنڈی بازار کی ایک چال میں رہا۔ ان دنوں بمبئی تاجروں اور فلم اداکاروں کے علاوہ اردو ادیبوں اور شاعروں کا بھی بڑا مرکز بنتا جا رہا تھا۔ وکالت کی ڈگری حاصل کرکے عباس ایک بار پھر بامبے کرانیکل کی ملازمت میں پہنچ گئے مگر تنخواہ وہی بیس روپے ماہانہ تھی۔ اس مرتبہ بامبے کرانیکل کے اتوار ایڈیشن کی ادارت بھی عباس کے ذمہ تھی۔ عباس کے والد نے تین ماہ تک اس شرط پر ان کو ۵۰؍ روپے منی آرڈر سے بھیجنے منظور کئے کہ اگر اس مدت میں اخبار کے کام میں کامیاب نہ ہو سکے تو ان کو وکالت کرنی پڑے گی۔ تین ماہ کے بعد عبداللہ بریلوی نے ان کے حالات کو دیکھتے ہوئے تنخواہ پچاس روپے ماہانہ کر دی۔ تب جاکر ان کے سر سے زندگی بھر کیلئے وکالت کرنے کے والد صاحب کے احکامات کا خطرہ ٹلا۔
اپریل ۱۹۳۶ء میں لکھنؤ میںجب انجمن ترقی پسند مصنّفین کا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا، جس کی صدارت منشی پریم چند نے کی تھی، تب تک عباس کا اولین افسانہ ’ابابیل‘ رسالہ جامعہ (نئی دہلی)میں شائع ہو چکا تھا اور وہ علی گڑھ کے ایک جلسے میں منشی پریم چند سے متعارف بھی ہو چکے تھے۔ اپنی تحریروں کے مزاج اور اپنے سیاسی نظریات کی بنیاد پر خواجہ احمد عباس فطری طور پر ترقی پسندوں کے حلقے میں شامل ہوتے چلے گئے۔ ۱۹۳۷ء میں جب ان کا اولین افسانوی مجموعہ ’ایک لڑکی‘ شائع ہوا تو ان کا شمار باقاعدہ ترقی پسند ادیبوں میں کیا جانے لگا۔ ترقی پسندمصنّفین سے وابستہ ہونے کے ساتھ ہی اس کی ذیلی تنظیم ’اِپٹا‘ میں بھی عباس نے شمولیت اختیار کر لی اور پہلا ڈرامہ ’یہ امرت ہے‘ لکھا، جو کامیاب ہوا۔ اسی کے بعد انہوںنے ’زبیدہ‘ لکھا جو ایک مسلم لڑکی سے متعلق تھا، جس نے پردہ ترک کرکے سماجی خدمت کا راستہ اختیار کیا تھا۔
اُن دنوں پونا میں وی شانتارام کی ایک فلم مراٹھی اور ہندی دونوں زبانوں میں ایک ساتھ بنی تھی۔ مراٹھی میں اس فلم کا نام’کنکو‘ اور ہندی میں ’دنیا نہ مانے‘ تھا۔ بمبئی کرانیکل اخبار میں کنہیا لال وکیل فلموں پر تبصرے کا کالم لکھا کرتے تھے۔ جب فلم ’دنیا نہ مانے‘کی نمائش کا دعوت نامہ کنہیا لال وکیل کو ملا تو انہیں اسی شام کسی خاص کام سے کہیں اور جانا تھا لہٰذا فلم کی نمائش کا دعوت نامہ انہوںنے خواجہ احمد عباس کو دے دیا اور کہا کہ یہ فلم دیکھ کر اس پر تبصرہ بھی تم ہی لکھ دینا۔
یہ ایک ایسا اتفاق تھا جس نے خواجہ احمد عباس کی زندگی کا رُخ ہی موڑ دیا۔’دنیا نہ مانے‘ کیونکہ وی شانتارام کی فلم تھی، اسلئے فلم میں زندگی کی سچائیوں کو جس بے باکی سے فلمبند کیا گیا تھا اور جس خوبصورتی سے مناظر کو پیش کیا گیا تھا، اُس نے خواجہ احمد عباس کو بہت متاثر کیا۔ اس فلم کی ہیروئین شانتا آپٹے کا کردار بھی بڑا بولڈ قسم کا تھا جو اپنی زبردستی کی شادی پر رضامند نہیں ہوتی اور اپنے فیصلے پر قائم رہتی ہے۔اس طرح وہ نہ صرف اس فلم سے متاثر ہوئے بلکہ وی شانتارام کے تخلیقی ذہن سے بھی متاثر ہوئے۔ اس فلم پر خواجہ احمد عباس کا تبصرہ جب ’بمبئی کرانیکل‘ میں شائع ہوا تو اس کے مدیر کو بھی بہت پسند آیا اور خواجہ احمد عباس مستقل طور پر فلمی تبصرہ نگار بنا دیئے گئے۔
۱۹۳۹ء میں یورپ کے کئی ممالک کے سفر سے واپسی پر عباس پھر ’بامبے کرانیکل‘ کی ٹیم میں شامل ہو گئے۔ اس مرتبہ فلم نقاد کی ذمہ داری بھی ان کو سونپی گئی جس کی بنا پر ان کو تین برس کی مدت میں تقریباً ایک ہزار ملکی اور غیرملکی فلمیں دیکھنے کا بہترین موقع ملا۔ کمزور فلموں پر عباس کی تنقید نہایت تیکھی اور لہجہ سخت ہوتا تھا۔ اخبار کے مدیر عبداللہ بریلوی نے ان کو اپنی رائے شائع کرنے کی مکمل آزادی دے رکھی تھی لیکن ایک مشورہ بھی دیا تھا کہ فلموں پر نکتہ چینی کرتے وقت سخت قسم کے الفاظ کے بجائے ہلکے پھلکے الفاظ استعمال کیا کریں۔ اس کے ساتھ ہی عباس نے اخبار کے آخری صفحے پر اپنا ہفتہ وار کالم ’لاسٹ پیج‘ لکھنا شروع کر دیا، جس میں موضوع کی کوئی قید نہیں ہوتی تھی۔ ۱۹۴۷ء سے خواجہ احمد عباس کا یہی کالم اسی عنوان کے ساتھ انگریزی ہفت روزہ اخبار’بلٹز‘ میں منتقل ہو گیا تھا۔اس واقعہ کے ایک سال بعد وی شانتارام کی فلم’آدمی‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم سے بھی وہ بہت متاثر ہوئے۔ انہوںنے اس فلم پر جو بیباک اور مفصل تبصرہ لکھا اس نے لوگوں کو چونکا دیا۔ خود خواجہ احمد عباس نے فلم ’دنیا نہ مانے‘ ۱۸؍مرتبہ اور فلم ’آدمی‘ ۲۴؍مرتبہ دیکھی اور اِنہی فلموں کو بار بار دیکھ کر کہانیاں اور منظرنامے لکھنے کی مشق کی۔ اس طرح خواجہ نے غیرارادی طور پر وی شانتارام کو اپنا فلمی استاد بنا لیا تھا البتہ ان کی فلموں پر صحافت کا پہلو پوری طرح سے نمایاں رہتا تھا۔
۱۹۴۱ء میں خواجہ احمد عباس کی کہانی پر سب سے پہلے جو فلم بنی، وہ ’نیا سنسار‘ تھی۔ یہ فلم بمبئی ٹاکیز نے بنائی تھی۔ این آر آچارکی ہدایت میں اشوک کمار، رینوکا دیوی، مبارک اور شاہ نواز جیسے اداکاروں نے کام کیا تھا۔ سرسوتی دیوی اور رام اگروال نے اس فلم کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ اس فلم کی کامیابی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں اس فلم نے جبلی منائی تھی۔اسی فلم کی کامیابی سے متاثر ہوکر ۱۹۴۳ء میں انہوں نے ’نئی دنیا،نئی کہانی اورنیا ترانہ‘ کے نام سے فلموں کی کہانیاں لکھیں اور ان تینوں کہانیوں پر بھی فلمیں بنیں۔
فروری۱۹۴۳ء میں عباس نے وکٹوریہ گارڈن کی رہائش ترک کرکے شیواجی روڈ پر ایک قدرے بہتر فلیٹ کرائے پر لے لیا۔ ان دنوں وہ بامبے کرانیکل کا اتوار ایڈیشن مرتب کرتے تھے اور ادبی کام بھی پہلو بہ پہلو جاری تھا۔ صحافت، ڈراما، ادب اور فلموں کے اتنے سارے شعبوں میں کام کرنے کے جنون میں ان کی اہلیہ مجتبائی بیگم کا ہمہ وقتی تعاون بھی انہیں حاصل رہتا تھا ورنہ اتنی کامیاب تخلیق زندگی گزارنا ان کیلئے ممکن نہ ہوتا۔۱۹۴۴ء میں قحط بنگال کے چند ماہ بعد جب دوبارہ عباس کلکتہ گئے تو واپس آکر انہوں نے فلم ’دھرتی کا لال‘ تحریر کی جو اُن کی ہدایت میں ۱۹۴۶ء میں تیار ہوئی۔ ان کی فلموںمیں چمک دمک اور ناچ گانوں کے برعکس سنجیدہ عوامی مسائل بڑی صداقت اور ایمانداری سے پیش کئے جاتے تھے، لہٰذا ان کی فلمیں باکس آفس پر زیادہ تر ناکام ہو جاتی تھیں۔ احمد عباس کی تقریباً تمام فلمیں کبھی سرکاری قرض سے اور کبھی دوستوں کے اُدھار یا چندے سے مکمل ہوتی تھیں۔
خواجہ احمد عباس کے ذہن میں زندگی کی سچائیوں کو اُجاگر کرنے والی فلمیں بنانے کی تڑپ پہلی بار اُس وقت جاگی، جب وہ بنگال میں قحط کے دوران ایک اخبار کیلئے رپورٹ تیار کرنے گئے ہوئے تھے اور انہوںنے وہاں اس موضوع پر ایک ڈراما دیکھا تھا۔ اس کے بعد ۱۹۴۶ء میں انہوںنے سوکھا (خشک سالی) جیسے موضوع پر انڈین پیپلز اسوسی ایشن کے بینر سے فلم ’دھرتی کے لال‘ بنائی تھی۔ حالانکہ اس فلم میں تجارتی سنیما کے کامیاب اداکاروں نے کام کیا تھا مگر یہ اپنے زمانے کی پہلی تجرباتی فلم تھی۔اس میں بلراج ساہنی تھے جو دو سال بی بی سی میں کام کرنے کے بعد نئے نئے ہندوستان آئے تھے۔ کیمرے کے سامنے اپنے نیم عریاں جسم کو ایک فاقہ زدہ شخص کے طور پر پیش کرنے کیلئے انہوںنے کئی ماہ تک ایک وقت کا کھانا کھایا۔ اس فلم میں بلراج ساہنی کی بیوی دمینتی ساہنی بھی تھیں۔ یہ فلم بے حد پسند کی گئی اور اب اس فلم کا ذکر حوالے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
۱۹۴۸ء میں خواجہ احمد عباس نے ہندی زبان میں ایک فلمی رسالہ ’سرگم‘ جاری کیا جو اُن کی عدیم الفرصتی کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکا اور تین سال بعد بند ہو گیا۔ رسالہ’’سرگم‘ میں عباس نے سرکردہ اردو ادیبوں فراق گورکھپوری، کرشن چندر، رام لعل، راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی وغیرہ کی تخلیقات کو شائع کرکے ہندی قارئین سے متعارف کرایا تھا اور ان دونوں زبانوں کے درمیان فاصلہ کم کرنے کی کوشش کی تھی۔
جس زمانے میں عباس ’بلٹز‘ کیلئے لکھ رہے تھے، اُن کے خاندان کے ایک واقعے نے ان کے ذہن کو اس قدر متاثر کیا کہ انہوں نے فلم ’آوارہ‘ (۱۹۵۱ء)کی کہانی لکھی۔پرتھوی راج کپور اس زمانے میں اپنے تھیٹر کے ذریعہ ’پٹھان، غدار‘ اور ’دیوار‘ جیسے ہندو مسلم بھائی چارے پر مبنی ڈرامے پیش کرکے شہرت حاصل کر رہے تھے۔ عباس کی خواہش تھی کہ’آوارہ‘ کو فلمساز و ہدایتکار محبوب خان پروڈیوس کریں، لیکن یہ اعزاز راج کپور کو حاصل ہواجو بطور فلمساز اور ہدایتکار ’آگ‘ اور ’برسات‘ جیسی کامیاب فلموں سےشہرت و دولت حاصل کر چکے تھے۔
اس فلم کا اصل واقعہ کچھ اس طرح تھا کہ محبوب خان کی فلم ’انداز‘ خواجہ احمد عباس کو بہت پسند آئی تھی۔ اسلئےخواجہ احمد عباس نے ’آوارہ‘ کی کہانی محبوب خان کو سنائی جو انہیں بہت پسند آئی مگر محبوب صاحب راج کپور اور پرتھوی راج کپور کو لے کر فلم بنانے کے حق میں نہیں تھے لہٰذا بات ختم ہو گئی۔ یہی کہانی جب انہوںنے راج کپور کو سنائی تو وہ کہانی سے بہت متاثر ہوئے اور انہوںنے عباس کی کہانی پر فلم ’آوارہ‘ خود بنائی جو، ۱۹۵۱ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی۔ اس طرح خواجہ اور راج کپور کی فلمی جوڑی ہمیشہ کیلئے بن گئی۔’آوارہ‘ کے بعد ان کے اور راج کپور کے درمیان ایسی ہم آہنگی قائم ہوئی کہ آر کے فلمز کی آخری فلم’حنا‘ تک راج کپور کیلئے تمام کہانیاں خواجہ ہی نے لکھیںجن میں بیشترکامیاب رہیں۔ ان میں ’شری چار سو بیس، جاگتے رہو، جس دیش میں گنگا بہتی ہے، میرا نام جوکر، بابی، ستیم شوم سندرم اور رام تیری گنگا میلی‘ کے نام قابل ذکر ہیں۔
ان فلموں کے ساتھ خواجہ نے اپنی فلمسازی کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ انہوں نے ’دھرتی کے لعل‘ کے بعد ’آوارہ‘ کے مرکزی خیال میں کچھ ترمیم کرکے ایک فلم ’انہونی‘ (۱۹۵۲ء) بنائی۔ اس فلم کو معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ فلم کی تقسیم کے حقوق مدن موہن اور گلشن رائے کو فروخت کئے تھے۔ مدن موہن نے ’انہونی‘ سے کمائے پچاس ہزار روپے دوستی کی خاطرعباس کی اگلی فلم میں لگادیئے۔ ۱۹۵۲ء میں فلم’انہونی‘، ۱۹۵۹ء میں ’چار دل چار راہیں‘ اور ۱۹۶۳ء میں فلم ’شہر اور سپنا‘ کیلئے خواجہ کو صدر جمہوریہ کا بہترین فلموں کا گولڈ میڈل عطا کیا گیا۔ اُن کی فلم ’دو بوند پانی‘ (۱۹۷۲ء) کو بھی قومی اعزاز سے نوازا گیا۔ بچوں کیلئے خواجہ کی فلم ’ہمارا گھر‘ (۱۹۶۴ء) کو چیکوسلوواکیہ فلم فیسٹیول میں بہترین فلم کے اعزاز سے نوازا گیا۔ خواجہ احمد عباس نے ٹیلی ویژن کیلئے بھی ایک سیریل لکھا تھا جسے پریم جی نے پروڈیوس کیا تھا۔ ’آج کی تازہ خبر‘ نام کے اس سیریل میں ایک صحافی کی زندگی کی مختلف مصروفیات کو قریب سے دکھایا گیا تھا۔
۱۹۵۲ء میں عباس نے آسام کے چائے باغان میں انگریز مالکان کے ذریعہ مزدوروں کے استحصال پر فلم ’راہی‘ بنائی۔ مرکزی کردار نلنی جیونت اور دیوآنند نے اداکئے تھے اور دونوں نے شوٹنگ کے دوران عباس کو کافی پریشان بھی کیا۔ یہ فلم بُری طرح فلاپ ہوئی۔ عباس اور من موہن کو ایک لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ انگریز مالکان نے فلم پر پابندی لگانے کی مہم چلائی لیکن نہرو حکومت نے ان کا مطالبہ یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ انگلستان کی طرح ہندوستان بھی ایک جمہوری ریاست ہے اور یہاں کے ہر شہری کو تحریر و تقریر کی آئینی آزادی حاصل ہے۔
اس کے بعد خواجہ نے ۱۹۵۴ء میں بچوں کیلئے ایک فلم ’مُنّا‘ بنائی جس میںبچہ اداکار رومی نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ یہ فلم عوام کو پسند نہیں آئی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں کوئی گانا نہیں تھا۔اس کے بعد خواجہ نے ۱۹۵۹ء میں اپنے ہی ناول پر بنی اگلی فلم ’چار دل چار راہیں‘ بنائی۔ بمبئی ٹاکیز میں کمال امروہی اسٹوری ڈپارٹمنٹ کے سربراہ تھے، اور عباس بھی بمبئی ٹاکیز کیلئے کام کرتے تھے لہٰذا کمال امروہی کی تجویز پر عباس نے یہ فلم بنائی تھی۔ اس فلم کی مرکزی کہانی میں ایک برہمن لڑکی اور ایک اہیر لڑکے کی شادی کو موضوع بنایا گیا تھا۔ بڑے ستاروں کو لے کر فلم بنانے میں عباس کو کافی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ فلم’چار دل چار راہیں‘ کی تکمیل کے دوران ہی مجتبائی بیگم بیمار ہو گئیں اور کافی علاج کے باوجود ۴؍جولائی ۱۹۵۶ء کو عارضۂ قلب سے ان کا انتقال ہو گیا۔ عباس کا نہ صرف دل ٹوٹ گیا بلکہ ان کی ہمتیں بھی جواب دینے لگیں۔
۱۹۶۴ء میں خواجہ احمد عباس کی فلم ’شہر اور سپنا‘ کو صدر جمہوریہ کی طرف سے بہترین کہانی کیلئے طلائی تمغہ ملا تو وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے فلم کے سارے یونٹ کو مبارکباد دی اور ناشتے پر تین مورتی ہائوس پر مدعو کیا۔خواجہ نے دوسرے فلمسازوں کیلئے ایسی کہانیاں نہیں لکھیں جن میں تجارتی نقطۂ نظر سے نقصانات کے امکان تھےبلکہ انہوںنے جو فلمیں خود بنائیں وہ سب ایسے موضوعات پر مبنی تھیں جن میں فلمساز کا تجارتی پہلو کمزور ہوتا ہے۔ خواجہ احمد عباس کی فلم ’سات ہندوستانی‘ کو لوگ سپر اسٹار امیتابھ بچن کی پہلی فلم کے طور پر جانتے ہیں، مگر ایسے لوگ کم ہوںگے جو یہ بھی جانتے ہوں کہ یہ فلم ’گوا‘ کی جنگ آزادی کی حقیقت پر مبنی ایک تجرباتی فلم تھی۔ اسی طرح فلم ’فاصلہ‘ اور’نکسلائٹ‘ بھی موضوعاتی فلمیں تھیں۔ فلم ’بمبئی رات کی بانہوں میں‘ اور’شہر اور سپنا‘ میں انہوںنے بمبئی شہر کی زندگی کو موضوع بنایا تھا اور اس طرح بڑے شہروں کی زندگی کا ہر وہ پہلو سلولائڈ پر اتار دیا تھا جس سے عام انسان واقف نہیں ہوتا۔ نہرو کی یہ خواہش تھی کہ خواجہ بچوں کیلئے بھی ایک فلم بنائیں، لیکن یہ فلم ’ہمارا گھر‘ نہرو کی وفات کے بعد ہی ریلیز ہو سکی۔ ’ہمارا گھر‘ کا پہلا شو دہلی میں ہوا، جس میں ملک کے دوسرے وزیر اعظم لال بہادر شاستری آخر تک موجود رہے۔ اس کے بعد ۱۹۶۶ء میں عباس نے اپنے دوست اندر راج آنند کی کہانی پر اگلی فلم ’آسمان محل‘ بنائی۔ اس فلم کی تین ماہ کی لگاتار شوٹنگ ایک بنگلے میں ہوئی تھی اور اس دوران یونٹ کے کسی بھی آدمی نے نہ ہی گوشت کھایا اور نہ ہی شراب کو ہاتھ لگایا۔
۱۹۶۴ء میں عباس نے دو نئے چہروں، دلیپ راج اور سریکھا کو لے کر’شہر اور سپنا‘ بنائی۔ اس فلم کیلئے عباس نے حکومت ہند کے فلم فائنانس کارپوریشن کو قرض کی درخواست دی تھی لیکن درخواست مسترد ہو گئی تاہم جب ’شہر اور سپنا‘ کو حکومت کی طرف سے طلائی تمغہ ملا تو عباس کی مالی مشکلات کا چندے ازالہ ہوا۔۱۹۶۵ء میں خواجہ احمد عباس کو ایک بین الاقوامی اعزازیہ ملا کہ مغربی برلن کے فلم فیسٹیول میں بطور جیوری ممبر اُن کو مدعو کیا گیا۔ اس میلے میں تین فلموں کے درمیان اعلیٰ ترین ایوارڈ کا فیصلہ کرنا تھا، جن میں سے ایک ستیہ جیت رے کی ’نائک‘ تھی۔ برلن کے آرام دہ قیام میں عباس نے اپنی اگلی فلم ’بمبئی رات کی بانہوںمیں‘ کا اسکرپٹ لکھ ڈالا۔ اس موقعے پر کمیونزم اور سرمایہ داری کی بنیاد پر شہر کو تقسیم کرنے والی ’دیوار برلن‘ بھی دیکھی۔ عباس نے اس دیوار کو جو بہت بعد میں منہدم کی گئی، اُسی وقت ناپسندیدہ قرار دیا تھا۔
خواجہ احمد عباس کو اپنی کئی فلموں کی وجہ سے سنسر بورڈ کے عتاب کا بھی شکار ہونا پڑا۔ ۱۹۸۰ء میں ریلیز ہوئی فلم ’نکسلائٹ‘ بہت دنوں تک سنسر بورڈ میں پھنسی رہنے کے بعد ہی نمائش کیلئے پیش کی جا سکی تھی۔ ان کی ایک فلم’اے ٹیل آف فور سٹیز‘ تو مقدمہ جیت جانے کے بعد بھی فلم بینوں تک نہیں پہنچ پائی تھی۔ اس کے بعد’ گوا‘ کو پرتگال کے قبضے سے آزادی حاصل کرنے کی تحریک پر عباس نے ’سات ہندوستانی‘ بنائی، جس میں انہوں نے اُتپل دت، نئے اداکار امیتابھ بچن، جلال آغا، اپنے اسسٹنٹ مدھوکر، کامیڈین محمود کے چھوٹے بھائی انور علی، جلال آغا کی بہن شہناز اور ملیالم اداکار مدھو کو لیا۔ ’سات ہندوستانی‘ کو صدر جمہوریہ کا ’فلم ایوارڈ برائے قومی اتحاد‘ ملا۔یہیں سے عباس کے ذہن میں فلم ’دو بوند پانی‘ بنانے کا خیال پیدا ہوا۔ ’دو بوند پانی‘کی فلم بندی راجستھان کے ضلع جیسلمیر میں ہوئی۔ عباس کی سابق فلموں کی طرح ’دو بوند پانی‘ بھی باکس آفس پر کامیاب نہ ہو سکی لیکن قومی ہم آہنگی کا حکومتی انعام ملنے سے نقصان کی کچھ تلافی ہو گئی۔اپنے۴۶؍ سالہ فلمی زندگی کے سفر میں خواجہ احمد عباس نے تقریباً ۲۵؍فلموں کو تکمیل تک پہنچایا اور تقریباً اتنی ہی فلمیں انہوںنے دوسرے فلمسازوں کیلئے لکھیں۔ اس کے علاوہ انہوںنے لگ بھگ ۷۲؍ کتابیں بھی لکھیں۔
آخری دَور میں عباس نے متھن چکرورتی اور سمیتا پاٹل کو لے کر ۱۹۸۰ء میں ’نکسلائٹ‘ فلم بنائی تھی، جو پردے پر زیادہ نہیں چل سکی۔ عباس کی ہدایت میں آخری فلم ’ایک آدمی‘ (۱۹۸۸ء) تھی جس کیلئے این ایف ڈی سی سے سرکاری قرض لیا گیا تھا۔ یہ فلم ان کے اپنے لکھے ہوئے افسانے ’دسمبر میں جون‘ پر مبنی تھی، جس میں ایک بوڑھا اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہے۔ فلم میں سعید جعفری، انوپم کھیر اور شرون پربھاکر نے اداکاری کی تھی لیکن فلم عباس کی بیماریوں اور اسپتالوں کے چکروں کی نذر ہو گئی۔۴؍ مارچ ۱۹۸۷ء کو عباس کو دل کا دورہ پڑا۔ ان کی ٹانگ میں بھی تکلیف رہنے لگی تھی جو بمبئی میں ہوئے ایک کار حادثے کا نتیجہ تھی۔ بیماری کی اسی حالت میں ان کاانتقال ہوا۔ انتقال سے پہلے انہوں نےجو وصیت نامہ تیار کیا تھا، ان کے انتقال کے بعد ’بلٹز‘ میں شائع ہوا تھا۔
ایک صحافی سے فلمساز، ہدایتکار، کہانی کار اور مکالمہ نویس بننے اور اپنے کردار کو یادگار بنانے کیلئے خواجہ احمد عباس نے کافی جدو جہد کی۔ اس دوران انہوں نےکئی اداکاروں کو پردہ سیمیں سے روشناس کرایا جن میں امیتابھ بچن، شبانہ اعظمی اور متھن چکرورتی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ہندوستان میں پہلی مرتبہ بچوں کی فلم ’ہمارا گھر‘ بنا کر انہوںنے نہ صرف بچوں کی فرمائش پوری کی بلکہ بچوں کیلئے الگ سے فلموں کی راہ بھی کھولی۔ اسٹار سسٹم کے باوجود وہ اپنی فلموں میں نئے چہروں کو پیش کرتے رہے۔ ۱۹۸۷ء میں قلم کا یہ سپاہی دنیا کے پردے سے روپوش ہو گیا مگر ہندوستانی فلموں کی تاریخ میں انہیں ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔