تقریباً ۶؍ دہائیوں سے اپنی بے مثال اور سحرانگیز آواز کے ذریعہ۲۰؍ سے بھی زائد زبانوں میں ۵۰؍ ہزار سے بھی زیادہ نغموں کو اپنی آواز دے کر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کروانے والی موسیقی کی ملکہ لتا منگیشکر آج بھی مداحوں کے دلوں پر راج کررہی ہیں۔
لتا منگیشکر۔ تصویر: آئی این این
تقریباً ۶؍ دہائیوں سے اپنی بے مثال اور سحرانگیز آواز کے ذریعہ۲۰؍ سے بھی زائد زبانوں میں ۵۰؍ ہزار سے بھی زیادہ نغموں کو اپنی آواز دے کر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کروانے والی موسیقی کی ملکہ لتا منگیشکر آج بھی مداحوں کے دلوں پر راج کررہی ہیں۔ لتا منگیشکر۲۸؍ستمبر۱۹۲۹ء کو اندور میں پیدا ہوئیں۔ لتا منگیشکر کا اصلی نام ہیما منگیشکر ہے۔ ان کے والد دِینا ناتھ منگیشکر بھی گلوکار اور اداکار تھے۔ چنانچہ وہ شروع سے ہی گلوکاری کی طرف مائل تھیں۔ انہوں نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی۔۱۹۴۲ءمیں ۱۳؍ برس کی عمر میں لتا کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا اور خاندان کی ذمہ داری لتا منگیشکر نے سنبھال لی جس کے بعد ان کا پورا خاندان پونے سے ممبئی آگیا۔ حالانکہ لتا کو فلموں میں کام کرنا بالکل پسند نہ تھا۔اس کے باوجود اپنے گھر والوں کی مالی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے لتا نے فلموں میں کام کرنا شروع کردیا۔لتا نے اپنے والد کے انتقال کے بعد باقاعدہ گلوکاری شروع کردی تھی۔ دینا ناتھ کی بیٹیوں میں نہ صرف لتا نے سروں کی دنیا میں مقبولیت حاصل کی بلکہ ان کی بہن آشا بھوسلے نے بھی گلوکاری میں اہم مقام حاصل کیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دونوں بہنوں کی آوازوں نے ہنددوستانی فلم انڈسٹری پرقبضہ کر لیا۔
۱۹۴۵ء میں لتا کی ملاقات موسیقار غلام حیدر سے ہوئی۔ غلام حیدر لتا کے گانے کے انداز سے کافی متاثر تھے۔ غلام حیدر نے فلم ڈائریکٹر ایس مکھرجی سے یہ گزارش کی کہ وہ لتا کو اپنی فلم شہید میں گانے کا موقع دیں۔ ایس مکھرجی کو لتا کی آواز پسند نہیں آئی اور انہوں نے لتا کو اپنی فلم میں لانے سے انکار کردیا، اس بات پر غلام حیدر کافی غصہ ہوئے اور انہوں نے کہاکہ لڑکی آگے چل کر اتنی شہرت حاصل کرے گے کہ بڑے بڑے ہدایت کاراسے اپنی فلموں میں گانے کے لئے گزارش کریں گے۔
۱۹۴۹ء میں فلم محل کے گیت گانے کے بعد لتا منگیشکر بالی ووڈ میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔ اس کے بعد راج کپور کی فلم برسات کا گانا’ جیا بے قرار ہے۔۔۔‘ ، ’ہوا میں اڑتا جائے ۔۔۔‘ جیسے مقبول گیت گانے کے بعد لتا بالی ووڈ میں ایک کامیاب پلے بیک سنگر بن گئیں۔
سری رام چندر کی موسیقی میں لتا نے پردیپ کے لکھے گیت پر ایک پروگرام کے دوران ایک غیر فلمی گیت ’’ اے میرے وطن کے لوگوں۔۔‘‘ گایا۔ اس نغمے کو سن کر وزیراعظم جواہر لعل نہرو اتنے متاثر ہوئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو آگئے۔ لتا منگیشکر کے اس گانے کو سن کر آج بھی لوگوں کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ لتا کی سریلی آواز سے نوشاد کی موسیقی میں چار چاند لگ جاتے تھے۔ موسیقار نوشاد، لتا کی آواز کے اس قدر دیوانے تھے کہ وہ اپنی ہر فلم کے لئے لتا کو ہی منتخب کیا کرتے تھے۔ ۱۹۶۰ء میں ریلیز ہوئی فلم مغل اعظم کا مشہور نغمہ’ موہے پنگھٹ ۔۔‘ گیت کی ریکارڈنگ کے دوران نوشاد نے لتا سے کہا تھا کہ میں نے یہ گیت صرف تمہارے لئے ہی بنایا ہے اس گیت کو کوئی اور نہیں گا سکتا ہے۔ ہندی سنیما کے شومین کہے جانے والے راج کپور کو ہمیشہ اپنی فلموں کے لئے لتا منگیشکر کی آواز کی ضرورت رہا کرتی تھی۔ راج کپور لتا کی آواز سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے لتا منگیشکر کو سرسوتی کا درجہ تک دے رکھا تھا۔۶۰ء کی دہائی میں لتا منگیشکر پلے بیک سنگرس کی مہارانی کہی جانے لگیں۔لتا منگیشکرنے ۱۹۶۹ء میں لکشمی کانت پیارے لال کی موسیقی سے سجی فلم انتقام کا گانا ’آ جانے جا۔۔۔۔‘‘ گاکر یہ ثابت کردیا کہ وہ آشا بھوسلے کی طرح ہر دھن پر گاسکتی ہیں۔۹۰ء کی دہائی آتے آتے لتا کچھ چنندہ فلموں کےلئے ہی گانے لگیں۔
۱۹۹۰ء میں اپنے ہی بینر کی فلم ’لیکن ‘کے لئے لتا نے’ یارا سیلی سیلی۔۔۔‘ گانا گایا۔ حالانکہ یہ فلم کامیاب نہیں ہوپائی لیکن یہ گانا آج بھی لتا کے بہترین گانوں میں شمار ہوتا ہے۔ لتا کو ان کے فلمی کریئر میں ۴؍ مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ لتا کو ان کے گائے ہوئے نغموں کے لئے ۱۹۷۲ء میں فلم پریچے، ۱۹۷۵ءمیں کورا کاغذ اور۱۹۹۰ءمیں فلم لیکن کےلئے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیاتھا۔ علاوہ ازیں لتا کو ۱۹۶۹ء میں پدم بھوشن، ۱۹۸۹ءمیں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ، ۱۹۹۹ء میں پدم وبھوشن، ۲۰۰۱ء میں بھارت رتن جیسے کئی اعزازت سے نوازا گیا۔