اس فلم کیلئے فلمساز اے آر کاردار کو ایک ایسے شاعر کی تلاش تھی جو اپنے نغموں میں مغلیہ دَور کی تہذیب اور شان وشوکت کا خصوصی طور پر خیال رکھ سکے اور پھر اُن کی نگاہ مجروح پر جاکر ٹھہری، اس کے بعد انہوں نے ’جب دل ہی ٹوٹ گیا‘ جیسا نغمہ لکھ کر خو د کو ثابت بھی کردیا۔
مجروح سلطانپوری۔ تصویر: آئی این این۔
یکم اکتوبر۱۹۱۹ء کو اعظم گڑھ کے قصبہ نظام آباد میں ایک پولیس انسپکٹر کے گھر میں اسرار حسین خاں مجروحؔ سلطانپوری کا جنم ہوا۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ مجروحؔ جب پرائمری اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو نصابی کتابوں کی نظموں میں سے اسکول ماسٹر نے کبھی کوئی مصرع غلط پڑھ دیا تو ٹوک دیا کرتے تھے کہ ماسٹر صاحب! اِس کو اس طرح پڑھا جائے تو زیادہ اچھا رہے گا۔ اُس وقت اسرار حسین خاں کے ذہن کے کسی بھی گوشہ میں یہ بات نہیں تھی کہ بڑے ہوکر اُن کو شاعر بننا ہے۔
۱۹۲۱ء میں جب مجروحؔ صرف ڈھائی برس کے تھے، اُن کے والد نےخلافت تحریک میں شامل ہوکر انگریزوں سے اپنی نفرت کا اظہار کچھ اِس طرح کیا کہ اپنے اکلوتے بیٹے اسرار حسین کو انگریزی تعلیم دلوانے سے صاف انکار کر دیا۔ اس طرح مجروحؔ سلطانپوری کی تعلیم عربی، فارسی اور اُردو میں ہوئی۔ عربی، فارسی کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے مجروحؔ کو مولانا بن کر سند پانے میں صرف دو سال باقی رہ گئے تھے کہ ایک مذاق کرنے کی وجہ سے مجروحؔ کو مدرسے سے نکال دیا گیا۔ اس حادثے کے بعد مجروحؔ نے طب کی تعلیم حاصل کرنی شروع کر دی اور۱۹۳۶ء میں لکھنؤ کے طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا۔ پہلی بار وہیں پر ایک شخص پر کچھ مزاحیہ رنگ میں شعر کہے جس کی وجہ سے طبیہ کالج میں مشہور ہوگئے۔
طب کی تعلیم مکمل کرکے مجروحؔ فیض آباد کے قصبہ ٹانڈہ چلے گئے اور وہیں ’حکیم صاحب‘ بن کر لوگوں کا علاج کرنے لگے۔ اُس زمانے میں مذہبی قسم کی شاعری کرنے کا بڑا چلن تھا لہٰذا مجروحؔنے بھی تقریباً اسی انداز میں شاعری کی مگر اپنی شاعری میں انہوں نے جو تیور اختیار کیا، وہ اُن کی شخصیت کا حصہ بن گیا لہٰذا اُن کی بعد کی شاعری میں اور اُن کے مزاج میں بھی وہی تیور آخری عمر تک موجود رہا۔
مجروحؔ نے اپنی ابتدائی شاعری کو کہیں محفوظ نہیں کیا، مگر اُس شاعری کا ایک اثر یہ ضرور ہوا کہ اُسی دوران ٹانڈہ میں ہی مجروحؔ کو عشق ہو گیا۔ حالانکہ مجروحؔ کو یہ عشق راس نہیں آیا اور وہ ٹانڈہ سے ہجرت کرکے سلطانپور آگئے۔ سلطانپور میں ہر ہفتے ایک ادبی نشست کا اہتمام ہوتا تھا، جہاں مجروحؔ نے ایک بار اپنی ایک غزل ترنم کے ساتھ پڑھی۔ شاید اُن کی آواز کا جادو تھا یا غزل کے مصرعوں کا طلسم کہ اِسی چھوٹی سے نشست نما مشاعرے میں مجروحؔ کو خوب خوب داد ملی۔ اس کے بعد مجروحؔ پر شاعری کا ایسا جادو چڑھا کہ باقاعدہ شاعری کے دَور کا آغاز ہو گیا۔ پھر انہوں نے اپنی حکیمی بند کر دی اور مکمل طور پر شاعر ہی بن کر رہ گئے۔
تھوڑے ہی عرصے بعد سلطانپور میں ایک بڑا مشاعرہ ہوا، جس میں آس پاس کے شہروں سے بھی شعرائے کرام کو مدعو کیا گیا تھا۔ مجروحؔ بھی مدعو تھے۔ انہوں نے جب اپنی غزل پڑھی تو اتنی داد ملی کہ محسوس ہوا، جیسے مجروحؔ نے مشاعرہ لوٹ لیا ہے۔ یہ اُن کی شاعرانہ زندگی کی پہلی بڑی کامیابی تھی۔ مجروحؔ کا ترنم بہت دلکش تھا، لہٰذا وہ مشاعرے پر چھا گئے تھے۔ اُس غزل کا ایک شعر اِس طرح تھا:
ہم ہیں کعبہ، ہم ہیں بت خانہ، ہمیں ہیں کائنات
ہو سکے تو خود کو بھی ایک بار سجدہ کیجئے
اَب مجروحؔ باقاعدہ مشاعروں میں شریک ہونے لگے۔ اُن ہی دنوں علی گڑھ میں اُن کی ملاقات اُردو کے مشہور ادیب رشید احمد صدیقی اوردیگر شعرا سے ہوئی۔ ۱۹۴۱ء میں ایک مشاعرے کے دوران جگرؔ مراد آبادی نے مجروحؔ کی شاعری سنی تو انہیں بہت پسند آئی۔ اُس کے بعد مجروحؔ، جگرؔ مرادآبادی کے قریب آتے گئے اور اُنہیں اَپنے اُستاد کی طرح عزت دینے لگے۔ حالانکہ بہت کم غزلوں پر اُنہوں نے جگرؔ مرادآبادی سے اصلاح لی ہوگی مگر وہ ان کے چہیتے بن گئے اور ان کے ساتھ مشاعروں میں بھی جانے لگے۔
۱۹۴۵ءمیں جگرؔ مرادآبادی ممبئی کے ایک مشاعرے میں مجروحؔ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ مشاعرے کے سامعین کی اگلی قطار میں مشہور فلمساز وہدایتکار عبدالرحمان کاردار بھی تشریف رکھتے تھے۔ اے آر کاردار اُن دنوں تاریخی فلم ’شاہجہاں ‘ بنانے کی تیاری کر رہے تھے اور اُس فلم کیلئے کسی ایسے اُردو شاعر سے نغمے لکھوانا چاہتے تھے، جو اپنے نغموں میں مغلیہ دَور کی تہذیب اور شان وشوکت کا بھی خصوصی طور پر خیال رکھ سکے۔ پہلے تو کاردار صاحب نے جگر مراد آبادی سے اِس فلم کے نغمے لکھوانے کی خواہش ظاہر کی اور ۵؍ ہزار روپے پیشگی بھی ادا کر دئیے مگر جب انہوں نے مجروحؔ کو مشاعرے میں غزل پڑھتے ہوئے سنا تو بہت پسند کیا۔ کاردار صاحب فلمی دُنیا میں فلمی جوہری کی حیثیت رکھتے تھے۔ اُنہوں نے جگرؔ صاحب سے کہا کہ وہ اُن کی فلم کے گیت مجروحؔ سلطانپوری سے لکھوا دیں۔
مجروح سے کاردار کی پہلی ملاقات میں ہی ۵؍ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر معاملات طے پاگئے۔ اُس وقت اتنی تنخواہ ڈپٹی کلکٹر کی ہوا کرتیتھی۔ اس طرح مجروح سلطانپوری نے پہلی بار فلم ’شاہجہاں ‘ کے گیت، موسیقارِ اعظم نوشاد صاحب کی میٹھی دُھنوں پر لکھے۔ اُن کا پہلا گیت تھا:
کر لیجئے چل کر میری جنت کے نظارے
جنت بھی بنائی ہے محبت کے سہارے
یہ گیت کندن لال سہگل کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اِس فلم کے دوسرے گیت بھی مجروحؔ نے بہت خوبصورت لکھے ’’جب دل ہی ٹوٹ گیا، غم دئیے مستقل، کتنا نازک تھا دل‘‘ وغیرہ۔ فلم ’شاہجہاں ‘ سپر ہٹ ثابت ہوئی اور مجروحؔ نے ثابت کر دیا کہ وہ کمال کر سکتے ہیں مگر مجروحؔ اِس فلم کی کامیابی سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکے۔
کچھ دنوں بعد ہی وہ بیمار ہوکر علاج کیلئے لکھنؤ چلے گئے اور کئی ماہ تک وہیں رہے۔ اُسی درمیان فلم کیلئے دو گیتوں کی مزید ضرورت پڑی جو جگر مرادآبادی ہی کے دوسرے شاگرد خمارؔ بارہ بنکوی سے لکھوائے گئے۔ اس طرح اس فلم کے ۱۰؍ میں سے ۸؍ گانے مجروحؔ کے لکھے ہوئے تھے، مگر وہ ان گیتوں کی کامیابی کا فائدہ اسلئے نہیں اُٹھا سکے کیونکہ۱۹۴۷ء کے فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے لگ بھگ چھ ماہ تک فلم انڈسٹری بند رہی۔ ایک برس کے لمبے عرصے کے بعد نوشاد صاحب کی رضامندی کے بعد فلمساز ہدایتکار محبوب خان نے مجروحؔ سلطانپوری کو بلایا اور کہا ’’میرے کو تیرے ’شاہجہاں ‘ والے گانے بہت پسند ہیں۔ ‘‘
اس طرح محبوب خان کی فلم ’انداز‘ کے نغمے مجروحؔ نے لکھے۔ اس فلم میں دلیپ کمار اور راج کپور پہلی اور آخری بار ایک ساتھ آئے تھے۔ یہ فلم کامیاب رہی اور اس کے گیت بھی مقبول ہوئے۔ ملاحظہ کریں نغموں کی فہرست:
اُٹھائے جا ان کے ستم....
کوئی میرے دل میں .....
ہم آج کہیں دل کھو بیٹھے.....
تو کہے اگر جیون بھر......
توڑ دیا دل میرا......
میری لاڈلی او میری لاڈلی.....
ٹوٹے نہ دل ٹوٹے نہ.....
جھوم جھوم کے ناچو آج......
اِس کے بعد مجروحؔ کسی ایک موسیقار کے ساتھ جڑے نہیں رہے۔ وہ سبھی کیلئے گیت لکھتے رہے۔ فلم ’انداز‘ کے گانوں کی مقبولیت سے بھی اُن کو خاص فائدہ نہیں ہوا۔ کیونکہ اُنہی دِنوں ممبئی کے چیف منسٹر مرارجی دیسائی نے ایک سیاسی اور جوشیلی نظم پڑھنے کی وجہ سے مجروحؔ کے نام گرفتاری کا وارنٹ جاری کر دیا۔ مجروح جیل سے رِہا ہوئے تو سب سے پہلے فلمساز، ہدایتکار کمال امروہوی نے۱۹۵۳ءمیں اپنی فلم ’دائرہ‘ کے نغمے اُن سے لکھوائے۔ اِس کے بعد گرودت نے اُن کا انتخاب کیا اور پھر اُنہوں نے موسیقار او پی نیّر کے ساتھ کئی مقبول ترین نغموں کی تخلیق کی۔ او پی نیّر کو پہلی بار مجروح کے گیتوں ہی سے کامیابی ملی تھی۔ فلم ’پھر وہی دل لایا ہوں ‘ کے مشہور گیت ’’بندہ پرور، تھام لو جگر؛ لاکھوں ہیں نگاہ میں ؛ آنچل میں سجا لینا کلیاں ؛ آنکھوں سے جو اُتری ہے دل میں ؛ میری بے رُخی تم نے دیکھی ہے لیکن؛ ہمدم میرے مان بھی جائو؛ زُلف کی چھائوں میں چہرے کا اُجالا لے کر‘‘ وغیرہ مجروح کے نغمے آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔
اِس کے بعد اُنہوں نے ایس ڈی برمن اور آر ڈی برمن کیلئے بھی گیت لکھے۔ اوشا کھنہ، خیام، لکشمی کانت پیارے لال، مدن موہن، چتر گپت اور بہت سےنئے موسیقاروں کیلئے بھی مجروحؔ گیت لکھتے رہے۔ مجروح ہمیشہ وقت کے ساتھ چلے اور فلموں کی سچویشن کے مطابق اُنہوں نے بہترین نغمے تخلیق کئے مگر اُنہوں نے کبھی اپنی ادبی شاعری کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اُنہوں نے کبھی اپنے آپ کو صرف فلمی نغمہ نگار کہلوانا پسند نہیں کیا بلکہ ایک شاعر کے طور پر اپنی پہچان ہمیشہ قائم رکھی۔
مجروحؔ سلطانپوری کو شکار کھیلنے کا بھی بہت شوق تھا اور اُن کی الماری میں بندوق یا رائفل ہمیشہ صاف ستھری حالت میں رکھی رہتی تھی اور مچھلی کے شکار کا سامان بھی اُن کی الماری میں موجود رہتا تھا۔ انہوں نے اپنی ۵۵؍ سالہ فلمی زندگی میں لگ بھگ چار سو سے زائد فلموں کے نغمے لکھے۔ ۱۹۹۳ء میں انہیں ملک کے سب سے بڑے فلمی اعزاز ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ مجروح ملک کے پہلے شاعر وادیب ہیں، جن کو فلمی دُنیا کا یہ اہم اعزاز دیا گیا۔ ۹۲۔ ۱۹۹۱ء میں انہیں مدھیہ پردیش سرکار کا سب سے اہم ادبی اعزاز ’اقبال سمان‘ مبلغ ایک لاکھ روپے کے ساتھ پیش کیا گیا۔ ۱۹۵۶ء میں اُن کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ’غزل‘ ہی کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ اِس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
۲۴؍مئی۲۰۰۰ء کی شب میں ممبئی کے لیلاوتی اسپتال میں وہ اِس جہان فانی سے رُخصت ہو گئے۔ ۸۰؍برس سے زائد عمر میں بھی وہ فعال زندگی گزار رہے تھے۔ اُن کے نغموں سے سجی آخری فلم تھی ’ہم تو محبت کرے گا‘، جو اُن کے اِنتقال کے ایک ہفتہ بعد نمائش کیلئے پیش کی گئی تھی۔