Updated: May 25, 2025, 12:21 PM IST
| Mumbai
انہوں نے ہندوستانی کلاسیکی گائیکی کا استعمال ہندی فلموں کے نغموں میں بہترین انداز میں کیا پھر بھی فلم انڈسٹری میں انہیں وہ مقام نہیں مل سکا، جس کے وہ حقدار تھے، اس کے باوجود انہوں نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی اور اس کیلئے کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرا یا۔
مناڈے نے ۱۹۴۳ء میں سب سے پہلے فلم ’تمنا‘ سے فلمی پلے بیک گانے کا باقاعدہ کام شروع کیا تھا۔ تصویر: آئی این این۔
کولکاتہ کے ایک مہذب خاندان کے پورن چندر جی کے یہاں یکم مئی ۱۹۱۹ء کو گلوکار وموسیقار مناڈے کا جنم ہوا۔ ان کا گھر کا نام ’پربودھ چندر ڈے‘ تھا۔ ان کے ذہن پر بچپن ہی سے اپنے چچا سنگیت آچاریہ کےسی ڈے کا زبردست اثر تھا۔ مناڈے نے ابتدائی تعلیم قریب ہی کے ایک چھوٹے سے اسکول اندو بابور پاٹھ شالہ میں حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے اسکوٹش چرچ کالج میں داخلہ لے لیا اور پھر وِدیا ساگر کالج سے گریجویشن کیا۔ اپنے طالب علمی کے زمانے ہی سے مناڈے کو باکسنگ اور کشتی میں بڑی دلچسپی تھی۔
کولکاتا کے وِدیا ساگر کالج سے گریجویٹ ہونے کے بعد پربودھ چندر ڈے ایک دوراہے پر کھڑے تھے۔ گھر والوں کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا قانون کی تعلیم حاصل کرے جبکہ خود مناڈے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ آخر ان کے والد کو بیٹے کی خواہش کے سامنے نرم ہونا پڑا اوربادل ناخواستہ ہی سہی انہوں نے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی۔ اس طرح ان کے چچا کی شاگردی میں ان کی تعلیم شروع ہو گئی۔ پہلے ہی دن ان کے ہاتھوں میں تان پورہ پکڑا دیا گیا اور آواز کا ریاض بھی شروع ہو گیا۔
کے سی ڈے یعنی کرشنا چندر ڈے نیو تھیٹر کے اسٹار گلوکار اور موسیقار فنکار تھے۔ پربودھ چندر کو ’منا‘نام انہوں نے ہی دیا تھا۔ کےسی ڈے راگوں میں نغمگی لانے کیلئے مشہور تھے، یہی چیز بعد میں مناڈے کو وراثت میں ملی۔ ’’تیری گٹھری میں لاگا چور مسافر‘‘ اور ’’بابا من کی آنکھیں کھول‘‘ کےسی ڈے کے دل کی آواز تھی۔ جب مناڈے ’’لاگا چنری میں داغ چھپائوں کیسے، گھر جائوں کیسے‘‘ اور ’’ندیا چلے، چلے رے دھارا‘‘ گاتے ہیں تو اس میں ایسے ڈوب جاتے ہیں جیسے وہ کوئی گیت نہیں گا رہے ہوں بلکہ کسی کی عقیدت میں بھجن گا رہے ہوں۔
نیو تھیٹر ٹوٹنے کے بعد ۱۹۴۰ء میں کے سی ڈے نے بمبئی کا رُخ کیا۔ مناڈے بھی ان کے ساتھ بمبئی آگئے، جہاں مناڈے موسیقار ایچ پی داس کے معاون بن گئے۔ ۱۹۴۳ء میں انہیں پہلا بریک فلم ’رام راجیہ‘ میں ملا۔ پرکاش پکچرس کے وجے بھٹ نے اس فلم کیلئے کےسی ڈے سے گانے کی فرمائش کی، لیکن انہوں نے پلے بیک دینے سے منع کر دیا اور ساتھ ہی مناڈے کی سفارش کی۔ موسیقار شنکر رائو کو مناڈے پر یقین نہیں تھا مگر چند آڈیشن ٹیسٹ کے بعد مناڈے کی صلاحیتوں کا اعتراف کر لیا گیا۔
مناڈے جب کالج میں زیر تعلیم تھے، انہی دنوں اپنے کالج کی طرف سے تین سال تک تین مختلف کالجوں کے گلوکاری کے مقابلوں میں حصہ لیا اور انعامات بھی حاصل کی تھی۔ ۱۹۴۲ء میں اپنے چچا کے ساتھ جب وہ بمبئی آئے تھے تو پہلے انہی کے اسسٹنٹ کے طور پر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ کچھ عرصے بعد وہ موسیقار سچن دیو برمن کے اسسٹنٹ ہو گئے۔ برمن دا بھی بنگال ہی سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی اپنی الگ شناخت بھی قائم ہو چکی تھی۔ اُن کے علاوہ بھی مناڈے نے کئی موسیقاروں کے معاون کے طور پر کام کیا۔ موسیقار کے طور پر آزادانہ کام شروع کرنے کے بعد انہوں نے کئی ہندی فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور اسی کے ساتھ وہ کلاسیکل ہندوستانی موسیقی کی تعلیم استاد امان علی خاں اور استاد عبدالرحمان خان سے حاصل کرتے رہے۔
۱۹۴۳ء میں مناڈے نے سب سے پہلے فلم ’تمنا‘ سے فلمی پلے بیک گانے کا باقاعدہ کام شروع کیا تھا۔ اس فلم میں کے سی ڈے کی موسیقی تھی اور پہلا گانا مناڈے نے ثریا کے ساتھ گایا تھا۔ یہ گانا کافی مقبول ہوا تھا۔ اس کے بعد سچن دیو برمن کی موسیقی میں فلم ’مشعل‘ کیلئے ایک نغمہ’اوپر گگن وشال‘ مناڈے نے سولو گایا تھا۔ ۱۹۵۰ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی فلم ’مشعل‘ میں جب مناڈے نے اپنی آواز کا جادو جگایا تو یہ فلم بعد میں بنگالی اور مراٹھی میں بھی بنائی گئی اور مناڈے نے ہی اس کے گانے ریکارڈ کرائے۔ ۱۹۵۲ء میں فلم ’امر بھوپالی‘ کے گانوں سے ان کی ایک الگ پہچان بنی۔
مناڈے نے بھیم سین جوشی کے ساتھ بھی ایک دو گانا ’کیتکی گلاب جوہی‘ ریکارڈ کرایا۔ کشور کمار کے ساتھ منا ڈے نے کئی مقبول گانے گائے۔ خاص طور پر فلم ’پڑوسن‘ کا گانا ’’ایک چتر نار کرکے سنگھار‘‘ اور فلم ’شعلے‘ کا گانا ’’یہ دوستی ہم نہیں توڑیں گے‘‘ کشور کمار کے ساتھ گائے ہوئے گانوں میں سب سے زیادہ مقبول ہوئے۔ مناڈے نے بنگالی فلموں کیلئے ہیمنت کمار کے ساتھ بھی کئی گانے ریکارڈ کرائے اور دوسرے بنگالی موسیقاروں کے ساتھ بھی انہوں نے بنگالی فلموں کیلئے اپنی آواز کا استعمال کیا۔ ایک بنگالی فلم ’سندھیا بیلا‘ کیلئے مناڈے نے لتا منگیشکر کے ساتھ دو گانا ’’کے پروتھوم کاچے ایسےچی‘‘ ریکارڈ کرایا جو کافی مقبول ہوا۔ مناڈے کی آواز میں اور ان کی موسیقی میں رابندرا سنگیت کی جھلک نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے ہندوستانی کلاسیکی گائیکی کا استعمال ہندی فلموں کے نغموں میں بہترین انداز میں کیا ہے۔ انہوں نے اپنے فلمی کریئر میں چار ہزار سے زائد فلمی نغمے ریکارڈ کرائے ہیں۔
۸؍دسمبر ۱۹۵۳ء کو ان کی شادی کیرلا کے ایک متوسط خاندان کی لڑکی سلوچنا کمارن سے ہو گئی۔ ۱۹؍اکتوبر ۱۹۵۴ء کو ان دونوں کے یہاں ایک لڑکی کا جنم ہوا، جس کا نام انہوں نے’شوروما‘ رکھا اور پھر ۲۰؍جون ۱۹۵۸ء کو دوسری لڑکی کی پیدائش ہوئی تو اس کا نام سمیتا رکھا گیا۔
مناڈے کافی عرصے تک بڑے پیمانے پر دنیا بھر میں موسیقی کے پروگرام کرنے جاتے رہے اور اِس طرح وہ نہ صرف ہندوستانی موسیقی کو دُنیا بھر میں پھیلا رہے تھے بلکہ ہندوستان کا نام بھی روشن کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی مادری زبان بنگالی میں اپنی سوانح بھی تحریر کی ہے جو ’’جبونر جلسا گھورے‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہے جس کا بعد میں کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔
مناڈے نے ۱۹۴۴ء میں شہنشاہ جذبات دلیپ کمار کی پہلی فلم ’جوار بھاٹا‘ کیلئے بھی گانے ریکارڈ کرائے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے گانوں سے سجی مقبول فلموں میں ’’مہاکوی کالی داس (۱۹۴۴ء)، گیت گووند (۱۹۴۷ء)، آوارہ (۱۹۵۱ء)، دو بیگھہ زمین (۱۹۵۳ء)، پرنیتا (۱۹۵۳ء)، بوٹ پالش (۱۹۵۴ء)، شری چار سو بیس (۱۹۵۵ء)، کابلی والا (۱۹۶۱ء)، وقت (۱۹۶۵ء)، تیسری قسم (۱۹۶۶ء)، اُپکار (۱۹۶۷ء)، پالکی، پڑوسن، میرے حضور، نیل کمل (۱۹۶۷ء)، ایک پھول دو مالی (۱۹۶۹ء)، میرا نام جوکر، آنند (۱۹۷۰ء)، ریشما اور شیرا (۱۹۷۱ء)، باورچی (۱۹۷۲ء)، ہندوستان کی قسم، ستیم شیوم سندرم (۱۹۷۸ء)، عبداللہ، کرانتی (۱۹۸۰ء)، لاوارث (۱۹۸۱ء) اور پرہار (۱۹۹۰ء) وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
ان کے گائے ہوئےمقبول نغموں میں چند نغمے، جن سے ان کی پہچان بنی ہوئی ہے، درج ذیل ہیں۔
’’اے میری زہرہ جبیں ....‘‘ (فلم: وقت)، ’’اے میرے پیارے وطن‘‘ (فلم: کابلی والا)، ’’بھؤ بھنجنا‘‘ (فلم: بسنت بہار)، ’’اے بھائی ذرا دیکھ کے چلو‘‘ (فلم: میرا نام جوکر)، ’’جوڑی ہماری جمے گا کیسے جانی‘‘ (فلم: اولاد)، ’’قسمیں وعدے پیار وفا سب‘‘ (فلم: اُپکار)، ’’نہ تو کارواں کی تلاش ہے‘‘ (فلم: برسات کی رات)، ’’اوپر گگن وشال ‘‘ (فلم: مشعل)، ’’پردہ اُٹھے سلام ہو جائے‘‘ (فلم: دل ہی تو ہے)، ’’تو پیار کا ساگر ہے‘‘ (فلم: سیما)، ’’جھنک جھنک توری باجے پایلیا‘‘ (فلم: میرے حضور) وغیرہ وغیرہ۔
مناڈے کو فلم انڈسٹری میں وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا جس کے وہ حقدار تھے حالانکہ انہوں نے ایسے مشکل گیت بھی بڑی عمدگی اور فنکارانہ چابکدستی سے ریکارڈ کرائے ہیں جو دوسرے فنکار ادا کرنے سے قاصر رہے، لیکن بعض موسیقاروں کے ذریعہ کئی دہائیوں تک تقریباً فراموش کر دیئے گئے گلوکار مناڈے نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔
مناڈے کو اپنی فلمی موسیقی کی خدمات کے اعتراف میں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔ ۱۹۶۹ء میں فلم ’’میرے حضور‘‘ کے نغمے ’’جھنک جھنک توری باجے پایلیا‘‘ کیلئے بہترین گلوکار کا نیشنل فلم ایورڈ دیا گیا۔ ۱۹۷۰ء میں فلم ’’میرا نام جوکر‘‘ کے گیت ’’اے بھائی ذرا دیکھ کے چلو‘‘ کیلئے فلم فیئر ایوارڈ اور ۱۹۷۱ء میں بنگالی فلم’نشی پدما‘ کے گانوں کیلئے نیشنل فلم ایوارڈ دیا گیا۔ اسی سال ۱۹۷۱ء انہیں ’پدم شری‘ سے نوازا گیا۔ ۱۹۸۵ء میں مدھیہ پردیش حکومت نے لتا منگیشکر ایوارڈ سے نوازا۔ ۲۰۰۳ء میں مغربی بنگال حکومت نے اُستاد علاء الدین خان ایوراڈ سے نوازا۔ منا ڈے کو۲۰۰۴ء میں رابندر بھارتی یونیورسٹی، ۲۰۰۵ء میں بردوان یونیورسٹی اور ۲۰۰۸ء میں جادو پور یونیورسٹی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ ۲۰۰۵ء میں حکومت نے پدم وبھوشن اور مہاراشٹر نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے سرفراز کیا۔ اسی طرح ۲۰۰۹ء میں فلمی دُنیا کا سب سے بڑا اعزاز ’’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔
۲۴؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کی نصف شب میں ۳؍ بجکر ۵؍ منٹ پر انہوں نے آخری سانس لی۔