مدرسے میں ایم ایف حسین پڑھتے پڑھاتے نہیں تھے بلکہ خطاطی کرتے تھے اور ممبئی کے آرٹ اسکول میں طالب علمی کے دوران ہی فلموں کی ایسی لت پڑی کہ فلموں کےپوسٹر بنانے شروع کردیئے تھے۔
EPAPER
Updated: June 09, 2025, 5:58 PM IST | Mumbai
مدرسے میں ایم ایف حسین پڑھتے پڑھاتے نہیں تھے بلکہ خطاطی کرتے تھے اور ممبئی کے آرٹ اسکول میں طالب علمی کے دوران ہی فلموں کی ایسی لت پڑی کہ فلموں کےپوسٹر بنانے شروع کردیئے تھے۔
دنیا میں بہت کم ایسی ہستیاں پیدا ہوتی ہیں جنہوں نے زندگی میں توبے پناہ شہرت حاصل کی ہو، مرنے کے بعد بھی برسوں تک لوگ انہیں بھلا نہیں پائے ہوں۔ ۱۷؍ستمبر۱۹۱۵ءکو ہندستان کے ایک چھوٹے سے علاقے میں پیدا ہونےوالے عظیم مصور مقبول فدا حسین بھی ان شخصیات میں سے ایک تھے۔ گھرانہ مذہبی سلیمانی بوہری تھا جو داؤدی بوہریوں سے جدا ایک چھوٹا سا فرقہ ہے۔ مادری زبان گجراتی تھی۔ مصوری کا شوق مدرسے سےپروان چڑھا۔ مدرسے میں حسین پڑھتے پڑھاتے نہیں تھے بلکہ خطاطی کرتے تھے اور ممبئی کے آرٹ اسکول میں طالب علمی کے دوران ہی فلموں کی ایسی لت پڑی کہ فلموں کےپوسٹر بنانے شروع کردیئے تھے۔ جس سے انکی پڑھائی کا اور رہن سہن کا خرچہ نکل آتا تھا۔
حسین کے والد نے بہت چاہا کہ وہ کاروبار کی طرف مائل ہو جائیں لیکن ان کا رجحان تو پیٹنگ کی طرف تھا۔ وہ دکان پربیٹھتےتو بھی پنسل سے خاکے بناتےرہتےتھے۔ انہوں نے اپنی پہلی آئل پینٹنگ دکان پرہی بیٹھ کر بنائی۔ ان کے چچا جنہیں یہ دکان ان کےباپ ہی نے بنا کر دی تھی، یہ دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور ان کے والدکو بتایا۔ جب ان کے والدنےوہ تصویر دیکھی تو مقبول حسین کو گلے لگا لیا۔ مقبول چند دنوں بعد بیندرے صاحب (مشہور مصور) کو اپنے باپ سے ملانے لے گئے۔ بیندرے بھی اندور سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے ان کے والد کو صلاح دی کہ حسین اچھے مصور بن سکتے ہیں اور انہوں نے یہ بات مان لی۔ مقبول خود حیران ہوئے کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔ ان کے باپ کے ان الفاظ کےساتھ حسین کی پیشہ ورانہ فنی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ ان کے باپ نے ان کا حوصلہ بڑھایا اورکہا ’’بیٹا جاؤ اور اپنی زندگی کو رنگوں سے بھر دو۔ ‘‘ ۱۹۳۴ء میں اندور کی ایک سڑک کنارےحسین کی پہلی تصویر دس روپے میں فروخت ہوئی تھی۔ ا س کے بعد حسین نے مانو مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ ایم ایف حسین نے۴؍ آنے سے ایک کروڑ ۲۳؍ لاکھ روپے کمانے تک کا سفر یوں ہی اور آسانی سےطے نہیں کیا بلکہ برسوں کی محنت اور اپنے کام سے لگن کی بدولت وہ اس مقام تک پہنچے۔ جس دورمیں وہ فلمی پینٹرہوا کرتے تھے اس وقت۶؍بائی ۱۰؍فٹ کےپوسٹر بنانے کے انہیں صرف ۴؍ آنے ملتے تھے۔ اس پر بھی تنگ دستی کا حال یہ تھا کہ ایک بار معاشی حالات کی بہتری کیلئے انہیں ایک فیکٹری میں مزدور کی حیثیت سے کام کرنا پڑا۔ اس فیکٹری میں کھلونے تیار ہوتے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے ایک مصور کی حیثیت سے ان کی پہچان ۱۹۴۰ء میں ہوئی تھی جبکہ ان کی بنائی ہوئی تصاویرکی پہلی باقاعدہ نمائش ۱۹۴۷ء میں ہوئی تھی۔ ۵۰ءکی دہائی سے وہ ترقی پسند فنکاروں کی صف میں شامل ہوئے۔ ۶۰؍کے عشرےسے انہیں ہندستان کانہایت تجربہ کاراور منجھا ہوا مصور شمار کیا جانے لگا۔ ان کااپنا مخصوص لائف اسٹائل تھا۔ وہ ننگے پاوٴں رہاکرتےتھے۔ اپنی گاڑی کو بھی انہوں نے اپنی پسند کے مختلف رنگوں میں خود پینٹ کیا ہوا تھا۔ انہیں فلموں سے بہت لگائو تھا۔ انہوں نے مادھوری دکشت کی فلم’ہم آپ کے ہیں کون؟‘ ۷۰؍ مرتبہ دیکھی تھی۔ انہوں نے’گج گامنی‘ سمیت کئی فلمیں بنائی تھیں۔ انہیں ہندستان کے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا جس میں ’پدم بھوشن‘ بھی شامل ہے۔ انہیں پارلیمنٹ کےلئے بھی نامزد کیا گیا۔ جس قدر ایوارڈز انہیں ملے، ان کا شماربھی ایک مشکل امر ہے۔ عالمی شہرت یافتہ ہندستانی مصور مقبول فداحسین (ایم ایف حسین) ۹۷؍ سال کی عمر میں ۹؍ جون ۲۰۱۱ءکو لندن کے ایک اسپتال میں انتقال کر گئے۔ دنیا بھر کے اخباروں میں ان کی وفات پر خبریں شائع ہوئی تھیں۔