Inquilab Logo

محمد رفیع کے وہ نغمے جنہیں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا

Updated: December 24, 2023, 12:47 PM IST | Ahmed Zia Ansari | Mumbai

ہماری فلم انڈسٹری میں محمد رفیع کو ایک ایسے گلوکار کے طورپر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی آواز کے جادو سے سامعین کو مسحور کیا۔

The film `Chodhahu Ka Chand`, for which Muhammad Rafi received the Filmfare Award for the first time. Photo: INN
فلم ’چودہویں کا چاند‘ جس کیلئے محمد رفیع کو پہلی مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ تصویر : آئی این این

 ہماری فلم انڈسٹری میں محمد رفیع کو ایک ایسے گلوکار کے طورپر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی آواز کے جادو سے سامعین کو مسحور کیا۔ محمد رفیع کے تعلق سے یہ بات مشہور ہے کہ وہ اپنی آواز سے فلموں میں اداکاری کرتے تھے۔ یعنی پردے پر جو اداکار ایکٹنگ کر رہا ہوتا تھا، محمد رفیع اسی کے انداز میں گاتے تھے اور سامعین اگر پردے پر نظر نہ ڈالیں تب بھی انہیں اس کا اندازہ ہوجاتا تھا کہ یہ نغمہ کس ایکٹر پر فلمایا گیا ہوگا۔
 محمد رفیع کو ہم سے رخصت ہوئے ۴؍دہائی سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن شائقین کے دلوں میں وہ آج بھی اپنی آواز کی بدولت زندہ ہیں ۔ آج بھی ان کی بے پناہ مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ آئندہ بھی برسہا برس نہ صرف ان کی آواز گونجتی رہے گی بلکہ آنے والی نسلیں بھی ان کے نغمے گنگناتی رہیں گی۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ محمد رفیع کی آواز پرانی شراب کی مانند ہے جس میں گزرتے وقت کے ساتھ سرور میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔آج بھی کسی بڑے شہر یا دور دراز علاقوں میں کوئی موسیقی کا پروگرام یا آرکیسٹرا کا انعقاد کیا جاتا ہے تو اس میں گائے جانے والے نغموں کی زیادہ تعداد تر محمد رفیع کے نغموں ہی کی ہوتی ہے۔نئی نسل کے نوجوان بھی جو محمد رفیع صاحب کو بہت زیادہ نہیں جانتےلیکن ان کے نغمے برابر ان کی زبان پر ہوتے ہیں۔
محمد رفیع نے اپنے کریئر کے دوران ہزاروں فلمی گیت گائے ہیں جن میں ایک سے بڑھ کر ایک گیت شامل ہیں ۔ان کو ۶؍مرتبہ بہترین پلے بیک سنگر(گلوکار)کےفلم فیئر ایوارڈسے نوازا گیا ۔ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں اُن نغموں پرجنہیں فلم فیئر ایوارڈ کیلئے منتخب کیا گیا تھا۔
چودھوی کا چاند ہو یا آفتاب ہو
 ’کاغذ کے پھول‘کی ناکامی کے بعد گرو دت نے ۱۹۶۰ء میں ’چودھویں کا چاند‘ بنائی تھی جو باکس آفس پر زبردست کامیاب ہوئی ۔یوں تو اس فلم کے سبھی گانے مشہور اور مقبول ہوئے تھےلیکن محمد رفیع کی آواز میں گایا ہوا گیت ’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو‘ کا کوئی مقابلہ نہیں ۔ روی کی موسیقی اور شکیل بدایونی کے تحریر کردہ اس نغمے کو رفیع صاحب نے اپنی آواز سے چار چاند لگا دیا تھا۔ اپنا فلمی کریئر شروع کرنے کے ۱۵؍سال بعد محمد رفیع کو فلم فیئر کا پہلا ایوارڈاسی گانے کیلئے دیا گیا تھا۔
تیری پیاری پیاری صورت کو
 ٹی پرکاش راؤ کی ہدایت کاری میں بنی فلم ’سسرال‘ کے نغموں نے اپنے زمانے میں کافی مقبولیت حاصل کی تھی۔ اس فلم میں جنوبی ہند کی اداکارہ سروجا دیوی نے ہیروئن کا رول ادا کیا تھا۔ حسرت جےپوری کے اس گیت کی طرز کو شنکر جے کشن نے بہت ہی خوبصورت انداز میں بنایا تھا۔ ۱۹۶۱ء میں اسی گانے کیلئے محمد رفیع کو ان کا دوسرا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا تھا۔
چاہوں گا میں تجھے سانج سویرے
 ۱۹۶۴ء میں ریلیز ہونے والی فلم’دوستی‘ میں ۶؍گانے تھے اورسبھی ایک سے بڑھ کرایک تھے۔ فلم کے ۵؍نغموں کو محمد رفیع نے اپنی آواز دی تھی۔فلم کےموسیقارلکشمی کانت پیارے لال تھے۔ پیارے لال اس فلم سے ’چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے‘ کو ہٹانا چاہتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ اس طرح کے گانے ہیرو اپنی بچھڑی ہیروئن کیلئے گاتا تو اچھا تھا لیکن یہاں تو ایک دوست اپنے دوسرے دوست کو یاد کرکے یہ گانا گا رہا ہے۔ رفیع صاحب کو جب یہ بات پتہ چلی تو انہوں نے لکشمی کانت پیارے لال کو یہ گانا فلم میں شامل کرنے کیلئے کہا اور یہ بھی کہا کہ یہ گانا سپر ہٹ ثابت ہوگا۔ ان کی یہ بات سچ ثابت ہوئی اور اس گانے کیلئے محمد رفیع کو جہاں فلم فیئر کا بیسٹ پلے بیک سنگر کا ایوارڈ حاصل ہوا وہیں مجروح سلطان پوری کو بھی اسی گیت کیلئے فلم فیئر کا بہترین نغمہ نگار کا ایوارڈ سے نوازاگیا۔اس فلم کو کُل ۶؍ا یوارڈ ملے تھے جن میں لکشمی کانت پیارے لال کو بہترین موسیقار کا ایوارڈ بھی شامل تھا۔
بہارو پھول برساؤ
 گلوکار محمد رفیع کو فلم فیئر کا چوتھا ایوارڈ فلم ’سورج‘ کے گانے بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے کیلئے ملا تھا۔فلم ’سورج‘ ۱۹۶۶ء میں ریلیز ہوئی تھی ۔رفیع صاحب کا یہ گانا نہ صرف بر صغیر میں بلکہ پوری دنیا میں کافی مقبول ہوا تھا۔ اس گیت کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۲۰۱۳ء میں بی بی سی نے ہندی سنیما کے ۱۰۰؍ سال مکمل ہونے پر شائقین سے ہندی فلموں میں صدی کا بہترین گانا منتخب کرنے کیلئے کہا تھا اور اس میں پہلے نمبر پر ’بہارو پھول برساؤ میرا...‘ تھا۔
دل کے جھروکے میں تجھ کو بٹھاکر
 یوں تو محمد رفیع ہر اداکار کیلئے اسی کے انداز میں گاتے تھے لیکن عام طور پر انہیں شمی کپور کی آواز کہا جاتا تھا۔شمی کپور پر فلمائے نغموں کو اگر آپ سنیں اور دیکھیں تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود گا رہے ہیں ۔۱۹۶۸ء میں آئی فلم’برہمچاری‘ میں کام کرنے کیلئے شمی کپور پس و پیش میں تھے کیوں کہ ان کی شبیہ ایک مست قلندر اور اچھل کود سے بھرے لاپروااداکار کی بن چکی تھی اور اس فلم میں انہیں قدرے سنجیدہ رول ادا کرنا تھا اور وہ بھی تقریباً ایک درجن بچوں کی کفالت کرنے والے کا رول تھا ۔ انہوں نے اس فلم کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور اس گانے کو فلم فیئر ایوارڈ کیلئے منتخب کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کو ایک دو نہیں بلکہ ۵؍فلم فیئر ایوارڈ مختلف زمروں میں ملے تھے اور یہ فلم بلاک بسٹر ثابت ہوئی تھی۔
کیا ہوا تیرا وعدہ وہ قسم وہ ارادہ
محمد رفیع کو اپنے چھٹے فلم فیئر ایوارڈ کیلئے کافی انتظار کرنا پڑا۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی کہ اس دوران کشور کمار اپنے عروج پر تھے۔پروڈیوسر ڈائریکٹر ناصرحسین کی۱۹۷۷ء میں ریلیزہونے والی فلم ’ہم کسی سے کم نہیں ‘ کے نغمے مجروح سلطان پوری نے لکھے تھے جبکہ ان نغموں کو موسیقی سے سجایا تھا آر ڈی برمن نے ۔اس فلم کا گانا’کیا ہوا تیرا وعدہ‘ کافی مقبول ہوا اور اسی گانے کیلئے محمد رفیع کو بہترین گلوکار کا فلم فیئر ایوارڈ حاصل ہوا۔یہ ان کا چھٹا اور آخری فلم فیئر ایوارڈ تھا۔قابل ذکر ہے کہ محمد رفیع کے اسی نغمہ کو قومی ایوارڈ کیلئے بھی منتخب کیا گیا تھا۔
 پدم شری محمد رفیع نے مذکورہ ۶؍ فلم فیئر ایوارڈ کے علاوہ سیکڑوں انعامات اور اعزازات حاصل کئے ہیں ۔ ان کے مداح انہیں ’بھارت رتن‘ایوارڈ دینے کیلئے آج بھی مطالبہ کررہےہیں لیکن قدرت نےشاید انہیں اس ایوارڈ سے اسلئے دور رکھا ہے کیونکہ وہ صرف بھارت ہی کے رتن نہیں بلکہ پوری دنیا کے ’رتن‘ ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK