درد بھرے گیتوں کیلئے مشہور گلوکار مکیش کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے محمد رفیع، منّا ڈے اورکشور کمار کے ساتھ ایک زمانے تک فلمی دُنیا پر راج کیا۔
EPAPER
Updated: July 22, 2025, 12:34 PM IST | Agency | Mumbai
درد بھرے گیتوں کیلئے مشہور گلوکار مکیش کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے محمد رفیع، منّا ڈے اورکشور کمار کے ساتھ ایک زمانے تک فلمی دُنیا پر راج کیا۔
درد بھرے گیتوں کیلئے مشہور گلوکار مکیش کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے محمد رفیع، منّا ڈے اورکشور کمار کے ساتھ ایک زمانے تک فلمی دُنیا پر راج کیا۔ ان کے غمگین گیتوں کااپنا حُسن ہے جو آج بھی بڑے شوق سے سُنے جاتے ہیں۔ فلمساز ہدایتکار و اداکار راج کپور کیلئے اُن کی آوازاِنتہائی موزوں تھی۔ حالانکہ راج کپور پر اور بھی کئی لوگوں نےگیت گائے مگر مکیش کی آواز سے جو تاثرملتا وہ کسی اور کی آواز سے نہیں ملتا تھا۔ اس باصلاحیت گلوکار کی پیدائش ۲۲؍ جولائی ۱۹۲۳ء کو پنجاب کے شہر لُدھیانہ میں مکیش چند ماتھُر کی حیثیت سے ہوئی۔ اُن کے والد زورآور چند ماتھر ایک انجینئر تھے جبکہ اُن کی والدہ کا نام چاند رانی تھا۔ مکیش بھائی بہنوں میں چھٹے نمبر پر تھے۔
دہلی میں ملازمت ہی کے دوران اُنہوں نے اپنی آواز کی ریکارڈنگ کر کے خود اپنی آزمائش بھی کی اور خود ہی اپنی گلوکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار بھی لائے۔ اُن میں سے چند گیت بعد کی فلموں میں استعمال بھی کئے گئے جن میں ۱۹۷۱ء کی فلم ’آنند‘ کے گیت ’کہیں دور جب دن ڈھل جائے‘ اور ’میں نے تیرے لئے ہی سات رنگ کے سپنے چُنے‘ شامل ہیں۔
مکیش کی گلوکارانہ صلاحیت کو سب سے پہلے موتی لال نے پہچانا جو مکیش کے قریبی رشتہ دار تھے اور انہوں نے مُکیش کو اُن کی بہن کی شادی کے موقع پر گاتے ہوئے سُنا تھا۔ جس کے بعد موتی لال انہیں بمبئی لے آئے اور انہیں پنڈت جگن ناتھ پرساد کی شاگردی میں دے دیا۔ اسی دوران مکیش کو فلموں میں اداکاری کی پیشکش ہوئی اور انہوں نے ۱۹۴۱ء کی فلم ’نِردوش‘ میں بطور اداکار کام کیا۔ بحیثیت اداکار و گلوکار اُن کا پہلا گیت ’دل ہی بُجھا ہوا ہو تو‘ اسی فلم میں تھا۔
پلے بیک سِنگر کی حیثیت سے پہلا گیت انہوں نے ۱۹۴۵ء کی فلم ’پہلی نظر‘ کیلئے گایا، جو موتی لال پر فلمایا گیا۔ آہ سُلطانپوری کے لکھے ہوئے اس گیت کی موسیقی انِل بسواس نے ترتیب دی، جس کے بول تھے ’دل جلتا ہے تو جلنے دے۔ ‘
وہ کُندن لال سہگل کے بہت بڑے مدّاح تھے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے ابتدائی دور کے گیتوں میں اُن کے انداز کا اپنایا جس کا ثبوت اُن کی درج بالا گیت میں واضح طور پر ملتا ہے۔ اس گیت کے بارے میں مشہور ہے کہ جب سہگل نے اس گیت کو سُنا تو وہ حیران ہو گئے اور انہوں نے کہا ’’مجھے حیرت ہے کہ یہ گیت میں نے کب گایا۔ ‘‘ ۱۹۷۴ء میں انہیں فلم ’رجنی گندھا‘ کے گیت ’کئی بار یوں بھی دیکھا ہے‘ کیلئے بہترین گلوکار کے زمرے میں قومی ایوارڈسے نوازا گیا تھا۔ علاوہ ازیں انہیں درج ذیل گیتوں کیلئےفلم فیئر ایوارڈ بھی دئیے گئے:’سب کچھ سیکھاہم نے نہ سیکھی ہوشیاری‘ (اناڑی۔ ۱۹۵۹ء)، ’سب سے بڑا نادان وہ ہی ہے جو سمجھے نادان مجھے‘ (پہچان۔ ۱۹۷۰ء)، ’جئے بولو بے ایمان کی‘(بے ایمان۔ ۱۹۷۲ء) اور ’کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے‘ (کبھی کبھی۔ ۱۹۷۶ء)۔
مکیش کی موت دورۂ قلب کے سبب ۲۷؍ اگست ۱۹۷۶ء کو امریکی ریاست ’مِشی گن‘ کے شہر ’ڈیٹرائٹ‘ میں ہوئی جہاں وہ اسٹیج پروگرام پیش کرنے گئے ہوئےتھے۔ اُن کا جسد خاکی لتا منگیشکر اپنے ساتھ ہندوستان لےکر آئیں جس کے بعد بمبئی میں فلمی دُنیا کی معروف شخصیات کی موجودگی میں اُن کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔