غلام حیدر کا تعلق پنجابی مسلمان گھرانے سےتھا۔ ان کی پیدائش۱۹۰۸ءمیں قصور (موجودہ پاکستان) میں ہوئی۔ بچپن ہی سےانہیں موسیقی سے غیر معمولی لگاؤ تھا۔
EPAPER
Updated: November 09, 2025, 10:36 AM IST | Mumbai
غلام حیدر کا تعلق پنجابی مسلمان گھرانے سےتھا۔ ان کی پیدائش۱۹۰۸ءمیں قصور (موجودہ پاکستان) میں ہوئی۔ بچپن ہی سےانہیں موسیقی سے غیر معمولی لگاؤ تھا۔
فلمی موسیقی کی تاریخ میں اگر چند ناموں کو بنیاد کی حیثیت حاصل ہے تو ان میں ایک نام ماسٹرغلام حیدر کا ہے، وہ موسیقار جنہوں نے فلمی نغمگی کو محض دھنوں کی ترتیب نہیں بلکہ روح کی زبان بنایا۔ ان کےنغموں میں مٹی کی خوشبو، عوام کی سادگی، اور دل کی دھڑکن ایک ساتھ محسوس ہوتی ہے۔ غلام حیدر وہ نام ہیں جنہوں نے ہندوستانی فلمی موسیقی کو عوامی ترنم کا رنگ دیا اور بعد ازاں پاکستان کی فلمی صنعت کو بھی اپنی دھنوں سے مالا مال کیا۔
غلام حیدر کا تعلق پنجابی مسلمان گھرانے سےتھا۔ ان کی پیدائش۱۹۰۸ءمیں قصور (موجودہ پاکستان) میں ہوئی۔ بچپن ہی سےانہیں موسیقی سے غیر معمولی لگاؤ تھا۔ ابتدا میں وہ ہارمونیم بجانے میں ماہر تھے اور اسی کے ذریعے انہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ لاہور کے نیشنل پرفارمنگ آرٹس تھیٹر سے وابستہ ہوئے، جہاں انہیں موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ غلام حیدر کا موسیقی سے رشتہ خالص جذبے اور لگن کا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’نغمہ روح کی زبان ہے، اور ہر دھن انسان کے باطن کا عکس۔ ‘‘ یہی فلسفہ ان کے ہر نغمے میں جھلکتا تھا۔
غلام حیدر نےاپنے فلمی سفر کا آغاز۱۹۳۰ءکےعشرے میں کیا۔ اس وقت لاہور فلم انڈسٹری اپنے ابتدائی دور میں تھی۔ ان کی پہلی نمایاں فلم ’سوراج‘(۱۹۳۶ء)تھی، مگر انہیں شہرت پنجابی فلم ’گل بکاولی‘(۱۹۳۹ء)سےحاصل ہوئی۔ اس فلم کا گیت ’سونو نی گھرمیں گھرمیں ‘ عوامی مقبولیت حاصل کر گیا، اور غلام حیدر کو پہلی بار صنعت کے بڑے موسیقاروں میں شمار کیا جانے لگا۔
ان کی موسیقی میں عوامی سادگی کے ساتھ کلاسیکی ٹھہراؤ کا امتزاج تھا۔ وہ راگوں کی بنیاد پر دھنیں باندھتے مگر ان میں عوامی ترنم شامل کر دیتے تاکہ گیت دل سے اتر کر زبان پر آسکے۔
لاہور میں اپنی پہچان بنانے کےبعد غلام حیدر نے بمبئی(اب ممبئی) کا رخ کیا، جہاں فلمی موسیقی تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔ یہاں ان کی پہلی بڑی فلم ’خزانہ‘(۱۹۴۲ء)تھی، جس کے گیتوں نے انہیں پورے ہندوستان میں مشہور کر دیا۔ مگر وہ لمحہ جس نے ان کا نام امر کر دیا، وہ تھےفلم ’خاندان‘(۱۹۴۲ء)کے گیت تھے۔ اس فلم کے ذریعے غلام حیدر نے ایک نئی گلوکارہ’نور جہاں ‘کو متعارف کرایا۔
غلام حیدر کا ایک اور عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے لتا منگیشکر جیسی گلوکارہ کو پہچان دی۔ جب لتا اپنی ابتدائی جدوجہد میں تھیں اور بڑےموسیقار ان کی نازک آواز کو فلمی موسیقی کے لیے ’نا مناسب‘ سمجھتے تھے، تب غلام حیدر نے ان میں مستقبل کی روشنی دیکھی۔ انہوں نے فلم ’مجاہد‘میں لتا کو موقع دیا اور کہا کہ ’’یہ لڑکی ایک دن ہندوستان کی آواز بنے گی!‘‘ان کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔
غلام حیدر کی زندگی کا سفر۱۹۵۰ءکی دہائی میں اختتام پذیر ہوا۔ ان کاانتقال۹؍نومبر۱۹۵۳ءکو ہوا، مگر ان کا فن وقت کی قید سے آزاد ہے۔ انہوں نے صرف موسیقی نہیں بنائی، انہوں نے ہندوستانی فلمی موسیقی کی بنیاد ڈالی۔ آج جب بھی نورجہاں، لتا منگیشکر یا محمد رفیع کے ابتدائی نغمات گونجتے ہیں، تو غلام حیدر کی روح ان دھنوں میں مسکراتی محسوس ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ یونہی مسکراتی رہے گی۔