Updated: November 25, 2025, 9:04 PM IST
| Windhoek
نمیبیا میں سیاستداں ایڈولف ہٹلر ملک کے اگلے صدر ہوسکتے ہیں، انہوں نے ملکی انتخاب میں دوسری مرتبہ فتح حاصل کی۔حالانکہ رشوت کے الزام کے بعد ان کی پارٹی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے ، اور جس کے نتیجے میں اس نے ۳۰؍ بڑے قصبوں اور شہروں پر اپنا کنٹرول کھو دیا ہے۔
نمیبیا کے سیاستداں ایڈولف ہٹلر۔ تصویر: ایکس
نمیبیا میں سیاستداں ایڈولف ہٹلر ملک کے اگلے صدر ہوسکتے ہیں، انہوں نے ملکی انتخاب میں دوسری مرتبہ فتح حاصل کی۔ایڈولف ہٹلر کے نام پر نام رکھے گئےاس نمیبیائی سیاستدان کا کہنا ہے کہ مقامی انتخابات میں زبردست فتح کے بعد بھی دنیا پر حکومت کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔واضح رہے کہ ایڈولف ہٹلر اونونا گزشتہ ہفتہ اویمپونڈجا حلقہ کے کونسلر منتخب ہوئے ہیں۔جرمن اخبار’’ بلڈ ‘‘کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے اصرار کیا کہ نازی نظریے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اور دیگر جرمن ناموں کی طرح، ایڈولف کا نام بھی اس ملک میں غیر معمولی نہیں ہے، جو کبھی ایک جرمن نوآبادی ہوا کرتا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں اسرائیل کا بائیکاٹ دوگنا ہو گیا ہے: رپورٹ
ہٹلر حکمران جماعت سواپو کے لیے منتخب ہوئے ہیں، جس نے نوآبادیاتی اور سفید فام اقلیتی حکومت کے خلاف مہم چلائی تھی۔مسٹر اونونا نے تسلیم کیا کہ ان کے والد نے ان کا نام نازی لیڈر کے نام پر رکھا تھا، لیکن کہا کہ ’’شاید انہیں سمجھ نہیں آئی تھی کہ ایڈولف ہٹلر کس چیز کی نمائندگی کرتا تھا۔‘‘انہوں نے کہا، ’’بچپن میں میں اسے ایک بالکل عام نام سمجھتا تھا۔اور جوان ہونے تک انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ آدمی تو پوری دنیا کو اپنے تابع کرنا چاہتا تھا۔تاہم میرا ان چیزوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘مسٹر اونونا نے بتایا کہ ان کی اہلیہ انہیں ایڈولف کہہ کر بلاتی ہیں اور وہ عوامی طور پر اسی نام سے جاتے ہیں، اور اسے تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
واضح رہے کہ ۱۸۸۴ء سے۱۹۱۵ء کے درمیان، نمیبیا جرمن جنوب مغربی افریقہ نامی جرمن علاقے کا حصہ تھا۔جرمن حکومت نے۱۹۰۴ء سے ۸ء کے دوران مقادی ناما، ہیریرو اور سان لوگوں کی بغاوت کے دوران ہزاروں افراد کو ہلاک کیا، جسے بعض مؤرخین ’’فراموش کردہ نسل کشی‘‘ کہتے ہیں۔اس سال کے شروع میں، نمیبیا نے جرمنی کی معاوضے کی۱۰؍ ملین یورو کی پیشکش کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ وہ ’’ترمیم شدہ پیشکش‘‘ کے لیے مذاکرات جاری رکھے گا۔
یہ بھی پڑھئے: سوڈان: نیم فوجی دستے کا تین ماہ کی انسانی ہمدردی کی جنگ بندی کا اعلان
بعد ازاں پہلی جنگ عظیم کے بعد، نمیبیا جنوبی افریقہ کے کنٹرول میں آگیا اور۱۹۹۰ء میں آزاد ہوا۔ لیکن اس میں اب بھی بہت سے جرمن ناموں والے شہر اور ایک چھوٹی جرمن بولنے والی آبادی موجود ہے۔دراصل سواپو پارٹی نمیبیا کی آزادی کی تحریک سے ابھری اور۱۹۹۰ء سے ملک پر حکمرانی کر رہی ہے۔تاہم، ماہی گیری کی صنعت میں رشوت کے الزامات کے بعد پارٹی کی حمایت میں کمی آئی ہے۔تاہم گزشتہ ماہ کے انتخابات میں، سواپو نے۳۰؍ بڑے قصبوں اور شہروں پر اپنا کنٹرول کھو دیا۔