جانی واکرہندی سنیما کے ابتدائی اور مشہور مزاحیہ اداکاروں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنےمزاحیہ تاثرات اور نرالے مکالموں سےسامعین کو مسحورکیا جو مخصوص لہجے کے ساتھ پیش کیےگئے۔
EPAPER
Updated: July 30, 2025, 12:06 PM IST | Agency | Mumbai
جانی واکرہندی سنیما کے ابتدائی اور مشہور مزاحیہ اداکاروں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنےمزاحیہ تاثرات اور نرالے مکالموں سےسامعین کو مسحورکیا جو مخصوص لہجے کے ساتھ پیش کیےگئے۔
جانی واکرہندی سنیما کے ابتدائی اور مشہور مزاحیہ اداکاروں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنےمزاحیہ تاثرات اور نرالے مکالموں سےسامعین کو مسحورکیا جو مخصوص لہجے کے ساتھ پیش کیےگئے۔ بالی ووڈ میں اپنی زبردست مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کے دلوں میں گدگدی پیدا کرنے والے، ہنسی کے شہنشاہ جانی واکر کو بطور اداکار اپنے خوابوں کو پورا کرنے کیلئےبس کنڈکٹر کی نوکری بھی کر نی پڑی تھی۔جانی واکر کی پیدائش مدھیہ پردیش کے اندور شہر میں ۱۱؍ نومبر۱۹۲۶ءکوایک متوسط مسلم خاندان میںہوئی تھی۔ ان کا حقیقی نام بد ر الدین جمال الدین قاضی عرف جانی تھا۔ انہیں بچپن سے ہی اداکار بننے کا شوق تھا ۔ ۱۹۴۲ءمیں ان کا خاندان ممبئی آ گیا ۔ یہاں ان کے والد کے ایک دوست پولس انسپکٹر تھے جن کی سفارش پرانہیں بس کنڈکٹر کی نوکری مل گئی۔یہ نوکری پا کروہ کافی خوش ہوگئے کیوں کہ انہیں مفت میں ہی پوری ممبئی گھومنے کا موقع مل گیاتھا۔ اس کے ساتھ ہی انہیںممبئی کے فلم اسٹوڈیو میں بھی جانے کا موقع مل جایا کرتا تھا۔ ان کا بس کنڈکٹری کرنے کا انداز بھی کافی دلچسپ تھا۔وہ اپنے خاص انداز میں آ واز لگاتے ’’ماہم والے پسنجر اتر نے کو ریڈی ہوجاؤ لیڈیز لوگ پہلے‘‘۔اسی دوران ان کی ملاقات فلمی دنیا کے مشہور ویلین این اے انصاری اور کے آ صف کے سکریٹری رفیق سے ہوئی۔
ایک دن جانی واکر کی ملاقات اپنے دور کےممتاز اداکار بلراج ساہنی سے ہوئی جو ان کی بس میں سفر کر رہے تھے۔ وہ جانی واکر کی خوش مزاجی اور دلچسپ انداز سے کافی متاثر ہوئے اور انہیں گرودت سےملنے کی صلاح دی جو ان دنوں فلم ’بازی‘ بنارہے تھے۔گرودت نے جانی واکر کی صلاحیت سے خوش ہوکر اپنی فلم بازی میں انہیں کام کرنے کا موقع دیا۔۱۹۵۱ءمیںریلیز ہونے والی فلم بازی کے بعد جانی واکر بطور مزاحیہ اداکار اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہے اور گرودت کے پسندیدہ اداکاروں میںشامل ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے گرودت کی کئی فلموں میں کام کیا جن میں آر پار، مسٹر اینڈ مسز ۵۵؍،پیاسا، چودھویں کا چاند، کاغذ کے پھول جیسی سپر ہٹ فلمیں شامل ہیں۔جانی واکر کی شہرت کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی ہر فلم میں ایک یا دو نغمے ان پر ضرور فلمائے جاتے تھے۔ ۱۹۵۶ء میں گرو دت کی فلم سی آئی ڈی میں ان پر فلمایا نغمہ ’ اے دل ہے مشکل جینا یہاں،ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے یہ ہے ممبئی میری جاں‘ نے پورے ملک میں دھوم مچا دی تھی۔ اس بعد ہر فلم میں ان پر ایک نغمہ ضرور فلمایا جا تا تھا یہاں تک کہ اس کی مقبولیت کودیکھتے ہوئے فائننسر اور پروڈیوسر کی بھی یہ شرط ہوتی تھی کہ فلم میں جانی واکر پر ایک گیت ضرور ہونا چاہئے۔ان پر فلمائے نغمے فلم نیا دور کا ’’ میں بمبئی کا بابو‘‘ مدھومتی کا’’جنگل میں مور ناچا کسی نے نہ دیکھا‘‘ فلم مسٹر اینڈ مسز۵۵؍کا ’’ جانے کہاں میرا جگر گیا جی‘‘ فلم پیاسا کا ’’سرجو ترا چکرائے یا دل ڈوبا جائے‘‘ فلم چودھویں کا چاندکانغمہ ’’میرا یار بنا ہے دولہا ‘‘ بھی ناظرین میں کافی مقبول ہوئے۔جانی واکر پر فلمائے گئےزیادہ تر نغمے محمد رفیع کی آ واز میں ہیں لیکن فلم ’بات ایک رات کی‘ میں ان پر فلمایا نغمہ ’’کس نے چلمن سے مارا نظارہ مجھے‘‘ میں منا ڈے نے اپنی آواز دی تھی۔جانی واکر نے تقریباً ۵؍دہائیوں پر مشتمل اپنے طویل فلمی کریئرمیں ۳۰۰؍سے زائد فلموں میں کام کیا۔ اپنے خاص اور دلفریب انداز سےناظرین کو مسحور کرنے والایہ عظیم مزاحیہ اداکار ۲۹؍جولائی ۲۰۰۳ء کواس دنیا کو الوداع کہہ گیا۔