بعد میں وہ فلموں میں مقبولیت کی بلندی پر پہنچے، آج صورتحال یہ ہے کہ فلم انڈسٹری میں ’کپور خاندان‘ کو سب سے بڑا خاندان تسلیم کیا جاتا ہے، اِن دنوں اس خاندان کی پانچویں نسل فلموں میں سرگرم ہے۔
EPAPER
Updated: June 29, 2025, 11:27 AM IST | Anis Amrohvi | Mumbai
بعد میں وہ فلموں میں مقبولیت کی بلندی پر پہنچے، آج صورتحال یہ ہے کہ فلم انڈسٹری میں ’کپور خاندان‘ کو سب سے بڑا خاندان تسلیم کیا جاتا ہے، اِن دنوں اس خاندان کی پانچویں نسل فلموں میں سرگرم ہے۔
فلمی دُنیا کی چند ایسی شخصیات رہی ہیں جو اپنے کام کی وجہ سے تاریخ میں امر ہو گئی ہیں۔ خواہ وہ تکنیکی اعتبار سے کوئی اہم کام ہو، یا کسی یادگار کردار کی وجہ سے ہو۔ اُن لوگوں میں دادا صاحب پھالکے کا نام سرفہرست ہے، جنہوں نے ہندوستان میں فلموں کی بنیاد ڈالی۔ اِسی لئے اُن کو ہندوستانی فلموں کا جنم داتا کہا جاتا ہے۔ اِسی طرح محبوب خان، سہراب مودی، کے آصف، کمال امروہوی، بلراج ساہنی، اشوک کمار، محمد رفیع، لتا منگیشکر اور دلیپ کمار وغیرہ بھی ایسے نام ہیں جن کو ہندوستانی فلموں کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ انہیں چند ناموں میں ایک اہم نام پرتھوی راج کپور کا بھی ہے۔ انہوں نے نہ صرف خود اپنی زندگی فلموں کیلئے وقف کر دی بلکہ ایک پورا فلمی خاندان ہندوستانی فلموں کو عطا کیا۔ آج اُن کے بیٹے اور پوتے تک اس کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ راج کپور ہیروکے طور پر مقبولیت حاصل کرنے کے بعد ایک کامیاب ہدایتکار اور فلمساز بھی بنے۔ شمی کپور کریکٹر آرٹسٹ ہو گئے، ششی کپور بھی ایک بہترین فلمساز کے طور پر اپنے آپ کو منوا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پرتھوی راج کپور کے پوتوں کی بھی ایک کافی بڑی جماعت ہے جو فلموں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں رندھیر کپور، رشی کپور، راجیو کپور اور کنال کپور کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کی دو پڑپوتیوں (رندھیر کپور کی بیٹیوں )، کرشمہ کپور اورکرینہ کپور نے بھی خاصی کامیابی حاصل کی ہے۔
پرتھوی راج کا جنم۳؍نومبر۱۹۰۶ء کو پشاور کے ایک متمول خاندان میں ہوا۔ ان کے والد کا نام بشیشرناتھ کپور تھا جو پولیس انسپکٹر تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم سمندری اور لائل پور میں ہوئی اور بعدمیں پشاور کے کالج سے گریجویشن کیا۔ وہ ایک وجیہہ اور خوبصورت شکل وصورت کے چھ فٹ سے کچھ نکلتے ہوئےگبرو نوجوان تھے۔ ۱۰؍دسمبر۱۹۲۳ء کو ان کی شادی رمادیوی سے ہوئی۔ شادی کے بعد وہ قانون کی پڑھائی کیلئے لاہور چلے گئے۔ لاہور گورنمنٹ کالج کے ہاسٹل میں ایک دن پرتھوی راج کپور کو اپنی بیوی رمادیوی کا ہندی میں لکھا ہوا خط ملا۔ اُس وقت تک وہ ہندی نہیں جانتے تھے، اسلئے انہوں نے اپنے روم پارٹنر پورن سنگھ سے ایک دن میں کام چلائو ہندی پڑھنا سیکھا اور اپنی بیوی کا خط خود پڑھ کر اس کا جواب بھی ہندی میں ہی لکھ کر بھیجا۔
۱۹۲۹ء کے ابتدائی مہینوں میں ہی وہ کالج کے لڑکوں اور مغرور قسم کے پروفیسروں سے اکتا گئے۔ ان کو یہ احساس ہونے لگا کہ وہ اداکاری کے فن میں ہی زیادہ ذہنی سکون حاصل کر سکیں گے۔ دل میں یہ خیال آتے ہی انہوں نے کالج اور پڑھائی چھوڑدی اور بیوی اور بڑے بیٹے کو پشاور ہی میں چھوڑ کر بمبئی آگئے۔ اُن دنوں گِرگائوں میں اردیشر ایرانی کی ’امپیریل فلم کمپنی‘ تھی۔ وہاں پرتھوی راج کو ایکسٹرا اداکار کے بطور پہلی بار فلم ’چیلنج‘ میں ایک کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔
پرتھوی راج کو جلد ہی ان کی پُروقار شخصیت کی وجہ سے آردیشر ایرانی نے اپنی اگلی فلم ’سنیما گرل‘ میں ہیرو بنا دیا اور ایکسٹرا کا لیبل اُن کے نام سے ہٹ گیا۔ اس فلم میں اِیرملین ان کی ہیروئن تھیں۔ ہدایتکار بی پی مشرا کی فلم ’طوفان‘ میں بھی اسی جوڑی کو دہرایا گیا۔ اس کے بعد مشرا جی کی فلم ’دروپدی‘ میں پرتھوی راج نے ارجن کا کردار ادا کیا۔ فلم’وجے کمار‘ اور’بینڈ فار دی تھرون‘ میں وہ جِلّوبائی کے ساتھ ہیرو بنے اور ’نورانی موتی، لاہور کی بیٹی‘ اور ’دھرتی ماتا‘ میں ان کی ہیروئن زہرہ بنیں۔ اس کے علاوہ ’نمک حرام کون؟‘ اور ’پریم کا دائو‘ پرتھوی راج کی کچھ ایسی خاموش فلمیں تھیں جو ۱۹۳۱ء تک نمائش کیلئے پیش کی جا چکی تھیں۔
۱۴؍مارچ۱۹۳۱ء کو ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں ایک بڑا انقلاب آیا۔ اُس دن ہندوستان کی پہلی بولتی فلم ’عالم آرا‘ نمائش کیلئے پیش کی گئی تھی۔ فلمساز ہدایتکار اردیشر ایرانی کی اس فلم میں پرتھوی راج کپور نے عالم آرا (زبیدہ) کے باپ کا کردار ادا کیا تھا جو بادشاہ کی فوج کا سپہ سالار بھی تھا۔ اس ناچتے گاتے اور بولتے ہوئے کرشمے نے لوگوں پر جادو جیسا اثر کیا۔ حالانکہ اس فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اخبار کے صحافی نے پرتھوی راج کی اداکاری اور خاص طور پر ان کی آواز کی سخت الفاظ میں تنقید کی تھی۔ اس نے لکھا تھا کہ ان کی آواز فلموں کیلئے موزوں نہیں ہے۔ حالانکہ بعد میں یہی آواز ان کی پہچان بنی۔
یہ وہی زمانہ تھا جب پرتھوی راج کا تھیٹر کی طرف رجحان بڑھنے لگاتھا۔ بمبئی کے اوپیرا ہائوس میں انہوں نے ’گرینڈ انڈین نیشنل تھیٹر‘ نام کے ایک گروپ کے ساتھ کام شروع کر دیا، مگر جلد ہی ۴۵۰؍ روپے ماہانہ تنخواہ پر کلکتہ کے ’نیو تھیٹرس‘ کے ساتھ کام کرنے لگے۔ بمبئی میں انہوں نے۱۹۳۲ء میں ’امپیریل فلم کمپنی‘ کی ’دغاباز عاشق‘ میں زہرہ کے ساتھ کام کیا تھا اور۱۹۳۳ء سے لے کر۱۹۳۹ء تک پرتھوی راج نے کلکتہ کے نیو تھیٹرس کی تقریباً ۱۰؍ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس کے علاوہ ۶؍فلمیں نیو تھیٹرس سے باہر کی بھی کیں۔ کلکتہ جانے سے پہلے انہوں نے اپنی شدید خواہش کے مطابق رنجیت اسٹوڈیو کی فلموں میں کام کرنے کیلئے اسٹوڈیو کے مالک چندو لال شاہ ملے مگر چندو لال شاہ نے ان کے ڈیل ڈول کو دیکھتے ہوئے انہیں اسٹنٹ فلموں میں کام کرنے کا مشورہ دے کر ٹال دیا۔ تب پرتھوی راج یہ کہتے ہوئے اُن کے دفتر سے باہر آگئے تھے کہ آپ ہندوستان کے ایک بہت بڑے اداکار کو رجیکٹ کر رہے ہیں۔
۱۹۳۹ء میں پرتھوی واپس بمبئی آگئے اور ایک ہزار روپے ماہوار پر سیٹھ چندو لال شاہ کے رنجیت مووی ٹون سے وابستہ ہو گئے۔ حالانکہ انہوں نے تب تک کافی شہرت، عزت اور پیسہ حاصل کر لیاتھا مگر وہ ہمیشہ ایک سادہ سی زندگی گزارنے کے قائل رہے۔ ایک مہمان نواز کے طور پر بھی ان کی کافی شہرت تھی۔ ماٹونگا (ممبئی) کے ان کے فلیٹ میں ہمیشہ مہمان بھرے رہتے تھے۔
رنجیت مووی ٹون کے ساتھ پرتھوی راج کی سب سے پہلی فلم۱۹۳۹ء میں ’ادھوری کہانی‘ کی نمائش ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ’آج کا ہندوستان‘ اور’پاگل‘ (۱۹۴۰ء)، ’گوری‘ اور ’وش کنیا‘ (۱۹۴۳ء) جیسی فلموں میں کام کیا، جن میں ستارہ دیوی، مادھوری، شمیم اور سادھنا بوس ان کی ہیروئنیں تھیں۔ اس درمیان پرتھوی راج نے ’چنگاری، دیپک، سجنی‘ (۱۹۴۰ء)، ’راج نرتکی، سکندر‘ (۱۹۴۱ء)، ’ایک رات، اُجالا‘ (۱۹۴۲ء)، ’آنکھوں کی شرم، بھلائی، اشارہ‘ (۱۹۴۳ء) فلمیں بھی کیں۔ ان میں ’سکندر‘ اور ’راج نرتکی‘ اُس زمانے کی کامیاب فلمیں تھیں۔ فلم ’پُکار‘ کی بے پناہ کامیابی سے متاثر ہوکر فلمساز سہراب مودی نے فلم ’سکندر‘ کو اور زیادہ عالیشان بنانے کی کوشش کی تھی۔ سکندر کے کردار میں پرتھوی راج کپور، پورس کے کردار میں خود سہراب مودی اور رُخسانہ کے کردار میں وَن مالا نے پورے ہندوستان میں دھوم مچا دی۔ اِن دونوں فلموں نے پرتھوی راج کو شہرت کے نئے آسمان پر پہنچا دیا۔ اس کے بعد پرتھوی راج کی مذہبی، دیومالائی اور تاریخی فلموں کی ایک لمبی فہرست ہے، مگر۱۹۴۴ء میں وی شانتارام کی فلم’شکنتلم‘ میں انہیں کام نہیں ملا۔
اسی درمیان پرتھوی راج نےاسٹوڈیو کی ملازمت اختیار کرنے کے بجائے فری لانسنگ سسٹم شروع کیا۔ یہیں سے اسٹار سسٹم کی ابتدا ہوئی۔ اس سے قبل فلم اداکار اسٹوڈیو یا فلم کمپنی کا تنخواہ دار ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے کسی ایک اسٹوڈیو میں نوکری کرنے کے بجائے الگ الگ کمپنیوں کی فلمیں سائن کیں لہٰذا پرتھوی راج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فری لانسنگ سسٹم کو دوسرے اداکاروں نے بھی اپنایا۔ ۱۹۴۵ء میں اسٹیج کی مقبول اداکارہ عذرا ممتاز کے ساتھ ’شکنتلا‘ ڈراما کرکے انہوں نے ’پرتھوی تھیٹر گروپ‘ کی بنیاد ڈالی اور آئندہ آنے والے۱۵؍ برسوں تک ’پرتھوی تھیٹر گروپ‘ لگاتار اپنے شوز کرتا رہا۔ ۱۹۶۰ء تک۱۶؍ برس کے وقفے میں پرتھوی راج کپور نے تقریباً ایک سو پچاس اداکاروں، ادیب شاعروں، موسیقاروں اور تکنیکی لوگوں کی منڈلی کے ساتھ پورے ملک کا دورہ کیا اور تھیٹر کی طاقت کا احساس عوام کو کرایا۔ اپنے ایک تھیٹر کاقیام اب اُن کا سب سے بڑا خواب بن چکا تھا۔ وہ ہر شو کے بعد ناظرین سے اپنے ایک تھیٹر کے قیام میں تعاون کرنے کی اپیل کرتے تھے اور بعد میں تھیٹر کے باہر چندہ اکٹھا کرنے کیلئے دامن پھیلاکر کھڑے ہو جاتے تھے۔ حالانکہ ان کا یہ خواب اُن کے انتقال کے بعد شرمندۂ تعبیرہوا۔ یہ ۱۹۷۸ء میں تعمیر ہوا۔
ملک بھر میں اسٹیج شوز کرنے کے ساتھ ہی اپنی گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کیلئے انہوں نے بہت سی فلموں میں بھی کام کیا۔ جن میں خاص طور پر ’آزادی کی راہ پر (۱۹۴۸ء)، دہیز، ہندوستان ہمارا (۱۹۵۰ء)، آوارہ، دیپک (۱۹۵۱ء)، آنند مٹھ، انسان (۱۹۵۲ء) آگ کا دریا (۱۹۵۳ء)، احسان (۱۹۵۴ء)، پردیسی، پیسہ (۱۹۵۷ء)، لاجونتی (۱۹۵۸ء)‘ اور ’مغل اعظم‘ (۱۹۶۰ء) خاص طور پر مقبول اور کامیاب فلمیں ثابت ہوئیں۔ ۱۹۵۷ء میں انہوں نے پرتھوی تھیٹر بند کرکے اسے فلمسازی کے ادارے میں تبدیل کردیا تھا اور اس کے بینر سے انہوں نے اپنے ہی ایک مقبول ناٹک ’پیسہ‘ پر فلم بنائی تھی اور اس ہدایتکاری بھی خود پرتھوی راج ہی نے کی تھی۔ اس فلم میں پرتھوی تھیٹر کے خاص خاص اداکاروں کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی پہلی خاموش فلم ’سنیماگرل‘کی ہیروئن اِیرملین کو بھی موقع دیا تھا، مگر یہ فلم بُری طرح ناکام ہو گئی تھی۔ اس کے بعد پرتھوی راج نے پھر کبھی فلمسازی یا ہدایتکاری کاحوصلہ نہیں کیا۔
پرتھوی راج کپور نے اسٹیج سے فلم تک ایک کافی لمبا سفر طے کیا تھا اور اداکاری اُن کے رگ وپے میں رچ بس گئی تھی۔ تھیٹر سے ان کا پیار اور لگائو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں جو کچھ بھی کمایا، اس کا زیادہ حصہ تھیٹر میں لگا دیا اور جہاں تک ہو سکا، تھیٹر کو قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ جب ان کی آمدنی محدود ہو گئی تو مجبوراً ان کو تھیٹر بند کرنا پڑا۔ پھر بھی وہ اپنی جگہ مطمئن تھے کہ انہوں نے تھیٹر کے ذریعہ فلمی دنیا کو کئی بڑے اچھے فنکار دیئے جن میں راج کپور، شمی کپور، ششی کپور، پریم ناتھ، سجن، حسرتؔ جے پوری، شنکر اور جے کشن، رامانند ساگر اور اندرراج آنند کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ سارے لوگ ہی پرتھوی راج کپور جی کے ساتھ تھیٹر سے جڑے ہوئے تھے۔ ایک وقت ایسا آیا تھا کہ تھیٹر میں بہت زیادہ کام کرنے کی وجہ سے ان کی آواز خراب ہو گئی تھی، اسلئے فلم ’تین بہورانیاں ‘ میں اُن کی آواز ڈب کرنی پڑی تھی۔ بعد میں اپنی آواز کی خرابی کو بھی انہوں نے خوبی میں بدل دیا اور جہاں اُن کی آواز ساتھ نہیں دیتی تھی تو وہ ہاتھوں سے کام لیتے تھے اور سین میں جان ڈال دیتے تھے۔
فلمساز کے آصف کی فلم ’مغل اعظم‘ پرتھوی راج کپور کی اداکارانہ صلاحیتوں کی انتہا ہے۔ اس فلم کے کئی منظر ایسے ہیں جن میں پرتھوی راج کی اکبر اعظم کے کردار میں اداکارانہ فنکاری پر تفصیل سے بات ہو سکتی ہے۔ یاد کیجئے شیش محل میں انارکلی کا بیباک ہوکر اکبراعظم کے سامنے رقص اور گانا ’’جب پیار کیا تو ڈرنا کیا....‘‘ کے اختتام پر غصے سے سُرخ ہو جانا اور سانس روک کر آنکھوں اور چہرے، گلے کی نسوں کا پھلاکر غصے کا اظہار کرنا، پوری فلم میں ان کی مخصوص چال اور اپنے لاڈلے بیٹے سلیم سے یہ کہنا کہ ’’سلیم! تجھے بدلنا ہوگا!‘‘ ایک سین میں جب وہ انتہائی مجبوری میں انارکلی کے سرپر ملکۂ ہندوستان کا تاج اپنے ہاتھوں سے رکھتے ہیں تو ان کے ہاتھ کانپتے ہیں اور چہرے پر مجبوری، حقارت اور غصے کے تاثرات ایک ساتھ اُبھر آتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ دیوان خاص میں اپنے درباریوں کی موجودگی میں اپنے باغی بیٹے شہزادہ سلیم کی بغاوت کا اعلان سنتے ہیں تو ان کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جب بہار اکبراعظم کو سلیم انارکلی کی ملاقات کی جانکاری دیتی ہے اور وہ خود شاہی باغ میں جاکر دیکھتے ہیں اور انارکلی خوف کے مارے بیہوش ہو جاتی ہے تو انتہائی غصے کے عالم میں بھی اُن کے چہرے پر حقارت سے دیکھنے کے جو تاثرات ابھرتے ہیں، وہ مثالی ہے۔ اس طرح کی کئی مثالیں صرف اسی ایک فلم سے دی جا سکتی ہیں۔
فلم ’مغل اعظم‘ نے پرتھوی راج کپورکو لازوال بنادیاتھا مگر اس کے بعد ہی وہ سخت علیل ہو گئے اور کئی برسوں تک انہیں کئی سطحی فلموں میں بھی کام کرنا پڑا۔ ’لٹیرا، ڈاکو منگل سنگھ، لال بنگلہ، لَو اینڈ مرڈر، نئی زندگی، بانکے لال‘ وغیرہ چند ایسی ہی فلمیں ہیں۔ ۱۹۶۳ء کے بعد ان کی بہترین اداکاری کی مثال کچھ کامیاب فلمیں بھی بنی، جن میں ’پیار کیا توڈرنا کیا، غزل، راجکمار، زندگی، جانور، یہ رات پھر نہ آئے گی، تین بہورانیاں، انصاف کا مندر، ایک ننھی سی لڑکی تھی، گناہ اور قانون‘ اور’کل، آج اور کل‘ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ایک فلم ’بامبے بائے نائٹ‘ان کے انتقال کے ۴؍ سال بعد ریلیز ہوئی تھی۔
۱۹۶۶ء میں کارلوویری کے پندرہویں عالمی فلمی میلے میں ان کی اداکاری والی فلم ’آسمان محل‘ کی نمائش کے سلسلے میں پراگ(چکوسلوواکیہ) کی موسیقی اکیڈمی کی طرف سے پرتھوی ر اج کپور کو ہندوستانی فلم اور ڈراما میں تخلیقی تعاون دینے کیلئے خاص طور پر اعزاز سے نوازا گیا۔ ۱۹۵۳ء تا ۱۹۶۰ء وہ راجیہ سبھاکے نامزد رکن بھی رہے۔ ۱۹۶۳ء میں حکومت کی طرف سے انہیں ’پدم بھوشن‘ کے اعزاز سے نوازاگیا۔
پرتھوی راج کپور کو لوگ پیار میں اور احتراماً ’پاپاجی‘ کہتے تھے۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ان کو ’پاپاجی، پاپاجی‘ کہتے نہیں تھکتے تھے۔ پاپاجی کے پاس ایک بہت پُرانی اوپل اور اسٹینڈرڈ گاڑی تھی۔ اسٹینڈرڈ گاڑی تو بڑی عجیب تھی۔ اس میں بیٹھ کر پاپاجی گاڑی سے بڑے دکھائی دیتے تھے۔ لوگ ہنستے بھی تھے مگر پرتھوی راج جی اُسی میں بیٹھ کر گھومتے تھے اور خود ہی اُسے چلایا کرتے تھے۔ جب پرتھوی راج جی صبح کو اس گاڑی میں نکلتے تو گلی کے بچوں کو اکٹھا کرکے کہتے۔ ’’چلو بچو! پاپاجی کی گاڑی کو دھکا لگائو۔ ‘‘ بچے دھکا لگاتے اور گاڑی چل پڑتی۔ اگر کہیں راستے میں رک گئی تو راہ چلتے لوگوں کو بلا لیتے اور لوگ بھی پاپاجی کی گاڑی کو دھکا لگاکر خوش ہوتے تھے۔ ان کی زندگی سادہ اور بااصول تھی۔ ایک بار راج کپور نے ان کیلئے ایک بڑی گاڑی خریدنی چاہی مگر انہوں نے یہ کہہ کر گاڑی خریدنے سے اِنکار کر دیا کہ ’’پرتھوی راج کپور اتنی بڑی گاڑی افورڈ نہیں کر سکتا۔ ‘‘
پرتھوی راج کپور میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کی لگن رہتی تھی۔ وہ خود کہا کرتے تھے کہ ہر انسان میں ایک طالب علم ہوتا ہے اور انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر کے طالب علم کو کبھی مرنے نہ دے۔ جب تک زندہ رہو، کچھ نہ کچھ سیکھتے رہو۔ زندگی کا ہر دن کچھ نہ کچھ سیکھنے کیلئے ہوتا ہے۔ انہوں نے خود کئی زبانیں سیکھیں، تیلگو اور کنڑ فلموں میں بھی کام کیا۔ اسی طرح مذہبی کتابیں پڑھنے کا بھی ان کو بڑا شوق تھا۔ گیتا، قرآن اور بائبل نہ صرف پڑھتے تھے بلکہ لوگوں کو ان کتابوں کے حوالے دے کر انسانیت کے صحیح راستے پر چلنے کی تلقین بھی کیا کرتے تھے۔ دنیا کے ہر مذہب کیلئے ان کے دل میں احترام کا جذبہ تھا اور تنگ نظری ان کو چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔ وہ قدیم ہندوستان کی تہذیب کے علمبردار تھے مگر نئی تہذیب کی بھی مخالفت نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کسی پر اپنے خیالات تھوپنے کی کوشش کرتے تھے۔ انہوں نے زندگی کے آخری دور تک اپنی فلموں کا اسکرپٹ اُردو میں ہی لیا۔ و ہ اردو زبان کے دلدادہ تھے۔
راج کپور جب فلموں میں آئے، اُس وقت پرتھوی راج کا عروج کا زمانہ تھا اور وہ فلم والوں اور فلم بینوں سے اپنے فن کا لوہا منوا چکے تھے مگر اتنی حیثیت کا مالک ہونے کے باجود انہوں نے راج کپور کیلئے کسی سے کوئی سفارش نہیں کی۔ انہوں نے صاف الفاظ میں راج کپور سے کہا کہ ’’اگر تم اس لائن میں آنا چاہتے ہو تو بڑے شوق سے آئو مگر یہ مت سمجھنا کہ تم اداکار پرتھوی راج کے بیٹے ہو۔ اپنا راستہ خود تلاش کرو۔ تمہاری محنت، لگن اور ایمانداری خود تمہاری پہچان بنا دے گی۔ میرا آشیروارد ہی تمہارے ساتھ ہے۔ ‘‘ یہی وجہ ہے کہ جب راج کپور نے فلم لائن میں داخلہ لیا تو بمبئی ٹاکیز میں کلیپر بوائے کی حیثیت سے کام شروع کیا اور بعد میں وہ ہندوستان کا ایک بڑا اداکار، فلمساز اور ہدایتکار بن کر لوگوں کے سامنے اُبھرا اور غیرممالک میں بھی غیرمعمولی شہرت حاصل کی۔
ایک بار کا واقعہ ہے کہ جیمنی والوں کی فلم ’زندگی‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ جیمنی اسٹوڈیو میں ہدایتکار واسن صاحب نے پرتھوی راج کے مکان کا بہت بڑا سیٹ لگا رکھا تھا جو ایک بہت بڑے رئیس اور جاگیردار کا کردار اس فلم میں ادا کر رہے تھے۔ بہت بڑا ہال تھا، ہال کو پار کرکے سیڑھیاں تھیں اور سیڑھیاں چڑھ کر راجندر کمار کا بیڈروم تھا جو اس فلم میں پرتھوی راج کے اکلوتے نوجوان بیٹے کا کردار ادا کر رہے تھے۔ سین یہ تھا کہ راجندر کمار کا ایکسیڈینٹ ہو چکا ہے اور وہ بیہوشی کی حالت میں پڑا ہے۔ پاپاجی اس کو پاگلوں کی طرح تلاش کرتے ہیں اور جب وہ مل جاتا ہے تو اس کو گود میں اُٹھاکر ہال میں سے ہوتے ہوئے، سیڑھیاں چڑھ کر اس کے کمرے تک لے جاتے ہیں۔ اُن دِنوں پرتھوی جی کے پیر میں کچھ تکلیف بھی تھی۔ ہدایتکار واسن نے کہا کہ ’’پاپاجی، یہ شاٹ بہت لمبا ہے اور تکلیف دہ بھی اور آپ کے پائوں میں تکلیف بھی ہے، لہٰذا میں یہ شاٹ ڈپلی کیٹ سے کرائے لیتا ہوں۔ ‘‘
پرتھوی راج نے صاف انکار کر دیا، بولے... ’’نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ بیٹا میرا ہے، لہٰذا میں ہی اسے گود میں لے کر اوپر جائوں گا۔ اگر ایسا نہیں کر سکا تو اس کے بعد کے سین میں باپ کا جذبہ کہاں سے لائوں گا۔ ‘‘ اور پھر یہ لمبا اور تکلیف دہ شاٹ انہوں نے خود ہی کیا۔ یہ تھی ان کی کام کے سلسلے میں لگن، محنت اور ایمانداری کی ایک مثال۔
ملک کی آزادی کے بعد بھڑکے ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات پورے ملک میں پھیل گئے۔ پرتھوی راج کے تھیٹر میں کئی مسلم اداکار بھی کام کرتے تھے۔ فسادیوں نے ایک دن پرتھوی تھیٹر کو گھیر لیا اور کہا کہ مسلم اداکاروں کو ان کے حوالے کر دیا جائے۔ تب پرتھوی راج بے دھڑک فسادیوں کے سامنے آگئے اور اپنی گھن گرج والی آواز میں کہا کہ ہندو ہو یا مسلمان، میرے ساتھ کام کرنے والا ہر شخص پہلے انسان ہے اور میری اولاد ہے۔ ان میں سے کسی تک پہنچنے کیلئے تمہیں پہلے مجھے قتل کرنا ہوگا۔ پرتھوی راج کی باتیں سن کر وہ لوگ ان کے پیر چھوکر واپس چلے گئے۔
ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران ان کو فلم کی ہیروئن کا ہاتھ چومنا تھا۔ وہ تذبذب میں پڑگئے۔ پھر اچانک انہوں نے اداکارانہ طور پر کمر کی طرف جھک کر اپنا ہی ہاتھ چوم لیا۔ ناظرین کو ایسا لگا جیسے انہوں نے ہیروئن کا ہاتھ چوما ہے۔
پرتھوی راج کپور ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ محفلوں میں ان کا اپنا ہی الگ رنگ ہوتا تھا۔ ادب، موسیقی، ڈراما، مذہب، شاعری، غرض ہر موضوع میں ان کی دلچسپی تھی۔ ڈاکٹر علامہ اقبالؔ کا ’شکوہ‘ اور’جوابِ شکوہ‘ اُن کو از بر تھا۔
۲۹؍مئی۱۹۷۲ء کو پرتھوی راج کپور کا انتقال بمبئی میں ہوا۔ انتقال کے بعد اُن کی فلمی خدمات کے اعتراف میں حکومت کی طرف سے۱۹۷۱ء کے ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ سے سرفراز کیا گیا، جو اُن کے بڑے بیٹے راج کپور نے حاصل کیا۔ بعد از مرگ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پرتھوی راج کپور پہلے ہندوستانی اداکار تھے۔