Inquilab Logo

اداکاری کی خواہش پر ڈرامے کے ایک ہدایتکار نے سنجیوکمار کو جھڑک دیا تھا

Updated: February 21, 2021, 5:27 PM IST | Anees Amrohi | Mumbai

انہوں نے اپنے کریئر کا آغازاسٹیج سے کیا جہاںان کا کام تھا سین شروع ہونے سے پہلے پردہ اٹھا نا اور سین ختم ہونے پر پردہ گرا نا۔ اسی دوران ایک گجراتی ڈرامہ اسٹیج پر پیش کیا جا رہا تھا کہ اس کا ایک اہم اداکار وہاں نہیں پہنچ سکا۔ سنجیو کمار نےہدایتکار سے خواہش ظاہر کی کہ اگر وہ اجازت دیں تو اس غیرحاضر اداکار کا کردار وہ خود ادا کر دیں مگر اس ہدایتکار نے ان کو جھڑک دیا

Sanjeev Kumar .Picture:INN
سنجیوکمار۔تصویر :آئی این این

کبھی کبھی وقت کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی مہلت ہی نہیں دیتی اور جب کچھ لمحوں کیلئے ذرا سی مہلت ملتی ہے اور ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ارے! یہ تو ایک دور گزر گیا، ایک یُگ بیت گیا۔ کچھ لوگ اپنے آپ میں ہی ایک پورا دَور ہوتے ہیں مگر وہ جب ہمارے درمیان ہوتے ہیں تو ہمیں اس بات کا احساس کم ہی ہوتا ہے کہ ہم ایک دور کے ساتھ، ایک یگ کے ساتھ رہ رہے ہیں..... اور جب وہ ہمارے درمیان نہیں رہتے تو ہمیں ایک ڈر، ایک خوف کا احساس ہوتا ہے کہ کتنے چپکے سے، کتنے دھیمے سے ایک پورا دور ہمارے درمیان سے کھسک گیا، رخصت ہو گیا۔ایسی ہی ایک شخصیت ہماری فلمی دنیا سے اچانک غائب ہو گئی۔ ابھی کل کی سی بات لگتی ہے کہ ایک آواز کی گونج سارے ہندوستان میں سنائی دیتی تھی۔ ’شعلے‘ کے ٹھاکر کی گرجدار آواز...... ’’گبّر سے کہنا، رام گڑھ والوں نے اس کے کتّوں کے آگے ہڈی ڈالنا بند کر دیا ہے۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی ’آندھی‘ فلم کی وہ نرم اور محبت کے جذبے سے سرشار آواز..... ’’اس بار اماوس کچھ زیادہ ہی لمبی ہو گئی ہے۔‘‘ یہ تضاد بلکہ ایک عظیم فنکار کی اداکارانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے..... اور وہ عظیم فنکار تھا سنجیو کمار۔ ہاں یہ کل ہی کی بات لگتی ہے کہ سنجیو کمار اپنی بے پناہ اداکارانہ صلاحیتوں کے ساتھ ہندوستانی پردۂ فلم پر نمودار ہوا تھا اور پھر پورن ماسی کے چاند کی طرح پورے فلم آکاش پر چھا گیاتھا مگر اماوس ہی کی ایک کالی رات نے اس چاند کو ہم سے چھین لیا..... ۶؍ نومبر ۱۹۸۵ء کی اماوس کتنی ظالم ثابت ہوئی تھی۔
 ۹؍جولائی ۱۹۳۷ء کو گجرات کے سورت شہر میں ہری زری والا کا جنم ایک ایسے  خاندان میں ہوا، جو یوں تو متوسط تھا مگر اس خاندان کی بہت دھاک تھی۔عام بچوں کی طرح ان کی بھی تعلیم ہوئی اور اسی تعلیمی دور میں ہی ہری زری والا کو اسٹیج کا شوق پیدا ہو گیا لہٰذا اپنی اداکاری کے جوہر کو عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے انہوں نے کئی اسٹیج پروگراموں میں حصّہ لیا مگر یہ بھی اتنا آسان نہیں تھا۔ سب سے پہلے ہری زری والا کی حیثیت اسٹیج پر صرف یہ تھی کہ سین شروع ہونے سے پہلے پردہ اٹھا دیا اور سین ختم ہونے پر پردہ گرا دیا۔ اسی دوران ایک گجراتی ڈرامہ اسٹیج پر پیش کیا جا رہا تھا کہ اس کا ایک اہم اداکار وہاں نہیں پہنچ سکا۔ ہری زری والا نے ڈرامے کے ہدایتکار سے خواہش ظاہر کی کہ اگر وہ اجازت دیں تو اس غیرحاضر اداکار کا کردار وہ خود ادا کر دیں مگر اس ہدایتکار نے ان کو جھڑک دیا۔ اس وقت اس ہدایت کار کو کیا معلوم تھا کہ وہ مستقبل کے ایک عظیم فنکار کو جھڑک رہا ہے۔ اپنی اس پہلی ناکامی پر ہری زری والا کافی روئے تھے مگر وہیں سے ایک عزم، ایک حوصلہ ان کے اندر پیدا ہو گیا، ایک تحریک ملی اس نوجوان کو۔ پھر ایک مستقل جدوجہد کے بعد انہوں نے گجراتی اور ہندی ڈراموں میں اپنا ایک مقام بنا کر فلموں کیلئے جدوجہد شروع کر دی اور کئی فلموں میں جونیئر آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد سب سے پہلے ہومی واڈیا کی فلم ’نشان‘ میں ہم نے اس نوجوان کو ہیرو کی حیثیت سے سنجیو کمار کے نام سے پہچانا۔
 فلم ’سنگھرش‘ کے اس پنڈت گھرانے کے نوجوان بھائی کو لوگ بھولے نہیں تھے کہ فلم ’کھلونا‘ میں ایک پاگل کا کردار ادا کرکے سنجیو کمار نے سب کو چونکا دیا۔ اپنی بے پناہ اداکارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے سنجیو کمار نے ثابت کر دیا کہ بہترین اداکار ہونے کیلئے کسی کا بھی اسٹار ہونا ضروری نہیں ہے۔ اداکار اور اسٹار دو مختلف زاوئیے ہیں لہٰذا فلم ’کوشش‘ اور’دستک‘ میں بہترین اداکاری کیلئے ان کو نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا اور گلزار جیسے باصلاحیت ہدایتکار نے اُن کو اپنی فلموں کے بہترین کرداروں میں پیش کیا۔’موسم، آندھی، کوشش، پریچے، انگور اور نمکین‘ وغیرہ اِس کی مثالیں ہیں۔
 ۱۹۷۴ء میں جب میں نے کمال امروہوی سے امروہہ کے ان کے گھر کے آنگن میں انٹرویو کرتے ہوئے معلوم کیا کہ آپ کا پسندیدہ اداکار کون ہے؟ تو ان کا برجستہ جواب تھا ’’اداکاری کے لحاظ سے اشوک کمار اور ان کے بعد سنجیو کمار‘‘ حالانکہ کمال امروہوی نے اپنی کسی بھی فلم میں سنجیو کمار کو ہیرو نہیں لیا مگر وہ ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کے قائل تھے۔
 سنجیو کمار نے اپنی ۴۷؍ سالہ زندگی کے دن بڑی جدوجہد میں گزارے تھے۔ والد کی موت کے بعد تو یہ جدوجہد اپنی تمام تر ذمہ داریوں کے ساتھ کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی۔ دس بہن بھائیوں کی ذمہ داری کچھ کم تو نہیں ہوتی مگر قدرت کی مہربانیاں بھی ساتھ تھیں اور ماں کی دُعائیں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب سنجیو کمار کی کامیابیوں کا دور شروع ہوا تو ان کو پیچھے مڑ کر دیکھنے کا بھی وقت نہیں ملا۔ وہ اپنی ماں سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور ماں کو ہمیشہ ساتھ ہی رکھتے تھے لیکن اس دنیا میں کوئی ہمیشہ رہنے کیلئے نہیں آتا۔  سنجیو کمار کی ماں کا بھی کچھ دنوں بعد انتقال ہوگیا۔ اس حادثے نے سنجیو کمار کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔  اس واقعے کے کچھ ہی دنوں بعد اپنے چھوٹے بھائی کی اچانک موت سے وہ بالکل بکھر گئے تھے اور ایک دم تنہا ہوگئے تھے اور یہی تنہائی  ان کی زندگی کا سب سے بڑا مرض ثابت ہوئی۔ وہ دل کے عارضہ میں مبتلا ہو گئے۔
  نیویارک میں اپنے دل کا علاج کرا کر واپس ہندوستان آئے تھے اور ان کی صحت یابی کی خوشی میں فلمساز وہدایتکار آرکےنیر نے ہوٹل سن اینڈ سینڈ میں ایک شاندار پارٹی کی تھی۔اس میں لوگوں نے دیکھا تھا کہ وہ موت سے پنجہ لڑا کر اور موت کو شکست دے کر کتنے خوش تھے۔ ہاں یہ ضرور ہوا تھا کہ اسی پنجے بازی کے چکر میں ان کا ساٹھ پونڈ وزن کم ہو گیا تھا اور یہ اندازہ لگانا مشکل ہو رہا تھا کہ یہ وہی سنجیو کمار ہیں جنہوں نے ’ترشول‘ میں امیتابھ بچن کے باپ کا کرادار ادا کیا ہے۔
 سنجیو کمار کی اداکاری میں گرودت کا اثر کافی تھا اور وہ اس بات کو مانتے بھی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ گرودت کے انتقال کے بعد مرحوم کے آصف کے سامنے ’محبت اور خدا‘ کے ہیرو کا مسئلہ آیا تو انہوںنے بلا جھجھک سنجیو کمار کا انتخاب کر لیا....اور کتنی عجیب بات ہے کہ پالی ہل کے اسی بنگلہ میں گرودت نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی تھی۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ کےآصف نے ’محبت اور خدا‘ شروع کی تھی تو گرودت اس کے ہیرو تھے۔ فلم تھوڑی ہی بنی تھی کہ گرودت کا انتقال ہو گیا اور سنجیو کمار اس عظیم فلم کے ہیرو منتخب ہوئے۔ اس کے فوراً بعد ہی فلم کے کیمرہ مین کا انتقال ہو گیا اور اس کے بعد اس خواب کی تعبیر دیکھنے والے کےآصف خود اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ کافی دنوں کے انتظار کے بعد جب فلم کو پھر سے بنانے کا ارادہ کیا تو کےآصف مرحوم کی دونوں بیوائوں میں جھگڑا ہو گیا اور فلم رُک گئی۔ کافی عرصہ بعد فلم ’تیری مہربانیاں‘ کے فلمساز کےسی بوکاڈیا نے سارے معاملات طے کرنے کے بعد اس فلم پر کام کرنا شروع کیا تو سنجیو کمار ہارٹ اٹیک کا شکار ہو گئے اور جب موت کے منہ سے واپس آکر سنجیو کمار نے اس فلم کی تھوڑی سی ڈبنگ شروع کی ہی تھی کہ موت کے ظالم ہاتھوں نے ہم سے اُس عظیم فنکار کو چھین لیا۔ کیا یہ سب اتفاقات تھے یا قدرت کو ان اتفاقات کے پیچھے کچھ اور ہی منظور تھا؟
 سنجیو کمار کی والدہ کی خواہش تھی کہ وہ اپنی زندگی میں سنجیو کمار کی بیوی کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھ لیں مگر ان کی یہ خواہش ان کی زندگی میں تو کیا، سنجیو کمار کی زندگی میں بھی پوری نہ ہو سکی۔ ابھی سنجیو کمار پندرہ سال کے ہی تھے کہ ایک لڑکی سے ان کی منگنی کردی گئی مگر چھ ماہ بعد ہی یہ رشتہ ٹوٹ گیا۔ فلمی دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد سنجیو کمار نے ہیما مالینی سے پہلا پیار کیا مگر بات شادی تک نہیں پہنچ سکی۔ اس کے بعد جے شری ٹی، نیتا مہتا، شوبھنا سنگھ اور سلکشنا پنڈت سے ان کے رومانس کی خبریں آتی رہیں مگر شادی ان کی قسمت میں نہیں تھی۔ اسلئے وہ شادی کے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
 سنجیو کمار اپنے آپ میں نہایت ہی ملنسار، خلیق اور مخلص قسم کے انسان تھے۔ انہوں نے خود اپنی زندگی میں بہت سی مصیبتوں کا سامنا کیا مگر دوسروں کے دکھ دردمیں ہمیشہ کام آئے اور ایک مثالی انسان ہونے کا ثبوت دیا۔ انہوں نے زندگی میں کبھی کسی کا بُرا نہیں چاہا اور وقت پڑنے پر ہمیشہ لوگوں کی مدد کی۔
 ایک بار فلم ’چہرے پہ چہرہ‘ کی آئوٹ ڈور شوٹنگ کیلئے یونٹ کے تمام لوگ گوا جا چکے تھے۔ عین وقت پر فنانسر نے دھوکہ دے دیا اور کہا کہ تم گوا جائو اور میں وہیں پیسہ لے کر آتا ہوں۔ اس بات سے مایوس ہوکر فلمساز نے شوٹنگ کینسل کرنے کا پروگرام بنایا مگر جب یہی بات سنجیو کمار کو معلوم ہوئی تو انہوں نے پروڈیوسر سے کہا کہ تم گوا جائو، شوٹنگ شیڈیول کینسل نہیں ہوگا۔ یہ شیڈیول لگ بھگ ۶؍ لاکھ روپوں کا تھا۔ پروڈیوسر کے پاس دو لاکھ روپے تھے، وہ لے کر پروڈیوسر چلا گیا۔ اگلے روز سنجیو کمار ڈھائی لاکھ روپے لے کر گوا پہنچ گئے اور کہا کہ آرٹسٹوں کی قسطیں دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ساڑھے چار لاکھ میں شوٹنگ مکمل کر لو۔ اس طرح اس فلم کے میک اپ کے سلسلے میں لندن جانے کی بات آئی تو سنجیو کمار نے اس سفر کا خرچہ خود اپنے ذمہ لے لیا۔اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں مگر سنجیو کمار جیسے کتنے ہیں فلم انڈسٹری میں؟  سنجیو کمار کی پہچان اسٹار کے طور پر کبھی نہیں رہی بلکہ شروع ہی سے  ان کو ایک بہترین ایکٹر، ایک سمجھدار اداکار کے طور پر پہچانا گیا۔ ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کی بِنا پر ہی لوگوں نے انہیں دلیپ کمار کے برابر کا اداکار مانا ہے۔ انہوں نے ایک فلم ’نیا دن نئی رات‘ میں نو مختلف قسم کے کردار ادا کرکے فلم بینوں پر یہ ثابت کر دیا تھا کہ ان میں اداکاری کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔انہیں دو مرتبہ نیشنل فلم ایوارڈ  (فلم دستک اور کوشش) اور کئی مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ مل چکے ہیں، اس کے باوجود انہیں جاننے والے کہتےہیں کہ انہوں نے کبھی گھنڈ نہیں کیا۔ سنجیو کمار اب نہیں ہیں مگر جن کرداروں کو انہوں نے اپنی اداکاری سے زندگی بخشی ہے وہ ایک لمبے عرصے تک سنجیو کمار کی یاد کو لوگوں کے دلوں سے بھلانے نہیں دیںگے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK