مشہور شاعر اور گیت کار شکیل احمد، ۳؍ اگست ۱۹۱۶ءکواتر پردیش کے بدایوں قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجدمیں خطیب وپیش امام تھے۔
EPAPER
Updated: August 03, 2025, 10:42 AM IST | Mumbai
مشہور شاعر اور گیت کار شکیل احمد، ۳؍ اگست ۱۹۱۶ءکواتر پردیش کے بدایوں قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجدمیں خطیب وپیش امام تھے۔
مشہور شاعر اور گیت کار شکیل احمد، ۳؍ اگست ۱۹۱۶ءکواتر پردیش کے بدایوں قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجدمیں خطیب وپیش امام تھے اس لیے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔ اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعدمسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے ڈگری حاصل کرنے کےبعد اعلیٰ تعلیم کیلئے شکیل۱۹۳۲ءمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ شکیل نےعلی مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو انہوں نے انٹر کالج، انٹر یونیورسٹی مشاعروں میں حصہ لینا شروع کیا اور مسلسل ان مشاعروں کو اپنے نام کیا۔ شکیل احمدعلی گڑھ سےبی اے کی ڈگری حاصل کرنےکےبعد ۱۹۴۲ءمیں دہلی میں سینٹرل گورنمنٹ میں محکمۂ سپلائی میں کلرک کی حیثیت سے نوکری کی۔ شکیل دہلی میں تقریباً۱۹۴۶ءتک مقیم رہے۔ فروری ۱۹۴۶ء میں ایک مشاعرے کے سلسلے میں ان کابمبئی آنا ہواجہاں ان کی ملاقات مشہورفلم سازکاردار سےہوئی۔ اس دوران انہوں نے مختلف مشاعروں میں حصہ لیا جہاں ان کے کلام کی عزت افزائی کی گئی۔ اے آر کاردارکےاصرارپرشکیل نے مستقل طورپربمبئی کو ہی اپنی رہائش گاہ بنالیا۔ انہوں نے۱۹۴۰ءمیں سلمیٰ سے شادی کی جو ان کی دور کی رشتہ دار تھیں اوربچپن سےہی جوائنٹ فیملی میں ان کے ساتھ رہتی تھیں۔
علی گڑھ میں قیام کے دوران جگرمرادآبادی سے ملاقات ہوئی۔ ان کی وساطت سےفلمی دنیا میں داخل ہوئےاور سو سے زائد فلموں کے لیے اردو، ہندی اورپوربی زبانوں میں گیت لکھے، جو بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ ان میں مغل اعظم کے گیت سر فہرست ہیں۔
شکیل بدایونی نے نوشاد، روی، ہیمنت کمار، ایس ڈی برمن اور سی رام چندرجیسےممتاز موسیقاروں کی دھُنوں کیلئے نغمے لکھے۔ ان کے گیتوں کو محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، مکیش، شمشاد بیگم، ثریا، مہندر کپور، طلعت محمود، روی شنکر شرما، گیتا دت اور ہردئے ناتھ منگیشکر جیسے صفِ اول کے گلوکاروں نے اپنی آواز میں پیش کیا۔
شکیل بدایونی نےدلاری(۱۹۴۹ء)،دیدار (۱۹۵۱ء)، مدر انڈیا (۱۹۴۷ء)،چودہویں کا چاند (۱۹۶۰ء)، مغل اعظم (۱۹۶۰ء)، گنگا جمنا (۱۹۶۱ء)،صاحب بی بی اور غلام (۱۹۶۲ء)، میرے محبوب (۱۹۶۳ء)، دو بدن (۱۹۶۶ء)جیسی سپر ہٹ فلموں میں اپنے نغموں سے دھوم مچا دی۔ شکیل بدایوں کو۱۹۶۱ءمیں ریلیز ہوئی فلم چودھویں کا چاند کے نغمے’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو‘ کیلئے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے بعد۱۹۶۲ءمیں فلم گھرانہ کےگانےحسن والے تیرا جواب نہیں کیلئےپھربہترین نغمہ نگار کا ایوارڈدیاگیا۔ ۱۹۶۳ءمیں سسپنس سےبھرپورفلم بیس سال بعدکےنغمہ کہیں دیپ جلے کہیں دل کیلئےانہیں ایک مرتبہ پھر بہترین نغمہ نگار کے طور پر منتخب کیا گیا۔
فلمی گیتوں کے علاوہ شاعری کے پانچ مجموعے غم فردوس، صنم و حرم، رعنائیاں، رنگینیاں، شبستاں کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ ان کی کلیات بھی ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گئی تھی، تاہم ۱۹۶۹ءمیں لکھی گئی آپ بیتی ۲۰۱۴ءمیں شائع ہوئی۔ شکیل بدایوں کا محض ۵۳؍برس کی عمرمیں ۲۰؍اپریل ۱۹۷۱ءکوممبئی میں انتقال ہوا اوریہیں دفن ہوئے۔ مگر قبرستان انتظامیہ نے اور دوسری بہت سی اہم شخصیات کی طرح ۲۰۱۰ءمیں ان کی قبر کا نام و نشان تک مٹا دیا۔