ہندوستانی سنیماکی تاریخ میں اگر کسی ایک نام نے خاموشی، وقار اور فکری گہرائی کے ساتھ فلم کو تفریح کے خول سے نکال کر سماج کا آئینہ بنایا ہے تو وہ نام شیام بینیگل کا ہے۔
سماج کو آئینہ دکھانے والےہدایت کار شیام بینیگل۔ تصویر: آئی این این
ہندوستانی سنیماکی تاریخ میں اگر کسی ایک نام نے خاموشی، وقار اور فکری گہرائی کے ساتھ فلم کو تفریح کے خول سے نکال کر سماج کا آئینہ بنایا ہے تو وہ نام شیام بینیگل کا ہے۔ وہ فلم ساز جنہوں نے نہ شور مچایا، نہ ستاروں کے سہارے کامیابی خریدی، بلکہ کہانی، کردار اور سچائی کو اپنا ہتھیاربنایا۔ان کی زندگی اور فلمیں، دونوں، ہندوستان کے بدلتے سماجی و سیاسی شعور کی دستاویز ہیں۔
شیام بینیگل ۱۴؍دسمبر۱۹۳۴ءکوحیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان کاتعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جہاں ادب، فن اور دانش کی روایت پہلے سے موجود تھی۔ان کے والد سریدھربینیگل فوٹوگرافی کے شعبہ سے وابستہ تھے،یہی وجہ تھی کہ شیام بینیگل کا رشتہ کیمرے سے بچپن ہی میں جڑ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے۱۲؍ برس کی عمر میں ہی کیمرہ تھام لیا تھا، گویا تقدیر نے ان کے ہاتھ میں پہلے ہی ان کا اوزار دے دیا تھا۔انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے معاشیات میں تعلیم حاصل کی، مگر دل کا جھکاؤ ہمیشہ کہانی اور تصویر کی طرف رہا۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان نئےخواب دیکھ رہا تھا، آزادی کے بعد کا جوش، مایوسیاں، طبقاتی کشمکش اور شناخت کا سوال، یہ سب عناصر بعد میں بینیگل کے سینما کا بنیادی موضوع بنے۔
شیام بینیگل نے اپنے کریئر کا آغاز اشتہاری فلموں سے کیا۔ اس دنیا نے انہیں مختصر وقت میں بات کہنے، علامتوں میں کہانی سنانے اور بصری نظم و ضبط سکھایا۔ یہی تربیت بعد میں ان کے فلمی اسلوب میں جھلکتی ہےغیر ضروری مناظر نہیں، کوئی فضول مکالمہ نہیں، ہر فریم ایک مقصد رکھتا ہے۔۱۹۷۰ءکی دہائی میں جب کمرشل سینما رقص و موسیقی اور سطحی رومان میں الجھا ہوا تھا، شیام بینیگل نے متوازی سینما کو ایک مضبوط، سنجیدہ اور باوقار سمت دی۔ ان کی پہلی نمایاں فلم ’انکور‘(۱۹۷۴ء)تھی، جس نے ہندوستانی سینما کو چونکا دیا۔ یہ فلم جاگیرداری نظام، ذات پات اور طاقت کے غلط استعمال پر ایک تلخ مگر سچی نگاہ تھی۔ شبانہ اعظمی اور اننت ناگ نے ایسے کردار نبھائے جو آج بھی یاد رکھے جاتےہیں۔
شیام بینیگل کی فلموں میں عورت محض پس منظر کا حصہ نہیں، بلکہ سماج سے ٹکر لینے والی ایک باشعور ہستی ہے۔’نشانت‘ (۱۹۷۵ء)، ’منڈی‘ (۱۹۸۳ء)،’بھومیکا‘ (۱۹۷۷ء)اور’ممو‘ (۱۹۹۴ء)جیسی فلموںمیںعورت کی جدوجہد، اس کی خاموش بغاوت اور اس کی خود مختاری کو غیر جذباتی مگر گہرے انداز میں پیش کیا گیا۔خاص طور پر بھومیکا ایک اداکارہ کی زندگی کے ذریعے عورت کی ذاتی اور سماجی قید کو بے نقاب کرتی ہے۔ اس فلم میں سمرن کو محض ہمدردی نہیں، بلکہ وقار دیا گیا ہے،یہی بینیگل کا کمال ہے۔اسی طرح شیام بینیگل نےتاریخ کوافسانہ نہیں بنایا بلکہ سوال بنایا۔’منتھن‘ (۱۹۷۶ء)ہندوستانی کوآپریٹو تحریک اور امول انقلاب پرمبنی ایک ایسی فلم تھی جو عوامی تعاون سے بنی یہ خود اپنے آپ میں ایک علامت تھی۔
شیام بینیگل کو ۱۸؍نیشنل فلم ایوارڈز، ایک فلم فیئر اور متعدد بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔انہیں۱۹۷۶ءمیں پدم شری اور ۱۹۹۱ءمیں پدم بھوشن جیسے سرکاری اعزاز بھی ملے۔۲۰۱۸ءمیںممبئی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول(ایم آئی ایف ایف)میںانہیں وی۔ شانتا رام لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا، جو فیچر اور دستاویزی دونوں شعبوں میں ان کی غیر معمولی خدمات کا اعتراف تھا۔سماجی شعور بیدار کرنے والا یہ ہدایت کار ۲۳؍دسمبر ۲۰۲۴ء کو اس دنیا سے کوچ کرگیا۔