Inquilab Logo

اسٹائلش اداکار فیروزخان کاشاہانہ اندازان کے مداحوں کے بیچ کشش کاسبب تھا

Updated: September 25, 2021, 1:13 PM IST | Agency | Mumbai

بالی ووڈ کے اسٹائلش اداکار فیروز خان نےخود کو محض اداکاری تک محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے فلمیں پروڈیوس بھی کیں اور ہدایت کاری کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوا لیا۔ فیروز خان کی پیدائش ۲۵؍ ستمبر ۱۹۳۹ءکو بنگلور میں ہوئی تھی۔ فیروز خان کے آباء و اجداد کا تعلق افغانستان سے تھا۔

He also stood out for his style in the last film Welcome. Picture:INN
آخری فلم ویلکم میں بھی وہ اپنے انداز کیلئے نمایاں رہے۔ تصویر: آئی این این

بالی ووڈ کے اسٹائلش اداکار فیروز خان نےخود کو محض اداکاری تک محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے فلمیں پروڈیوس بھی کیں اور ہدایت کاری کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوا لیا۔ فیروز خان کی پیدائش ۲۵؍ ستمبر ۱۹۳۹ءکو بنگلور میں ہوئی تھی۔ فیروز خان کے آباء و اجداد کا تعلق افغانستان سے تھا۔ ان کے والدپٹھان اور والدہ کا تعلق ایرانی نسل سے تھا۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی خوش قسمتی رہی ہے کہ یہاں متعدد ایسے فن کارپیدا ہوئے جنہوں نےپردۂ سیمیں پر اپنی فنی صلاحیتوں اور ہمہ جہت اداکاری کی بدولت فلم انڈسٹری میں وہ مقام حاصل کیا جو انہیں مقبولیت اور شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔ بلاشبہ فیروز خان بھی ایک ایسے ہی فن کار تھے جنہوں نے اپنی ہمہ جہت اداکاری کی بدولت لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچی۔  فیروز خان صرف ایک اداکار ہی نہیں تھے بلکہ ان کی اپنی الگ شناخت تھی‘ منفرد اسلوب تھا، جو انہیں دیگر فن کاروں سے ممتاز کرتا ہے اور اس انفرادیت کو انہوں نے تاحیات برقرار رکھا۔ فلم انڈسٹری میں ان کی شناخت ایک اسٹائل آئیکون کے طور پر تھی۔ ان کی منفرد اداکاری اور شاہانہ اندازہمیشہ لوگوں کے لئے باعث کشش رہا۔ وہ نہایت نفاست پسند انسان تھے۔ خوب صورت ملبوسات،قیمتی گاڑیوں، عمدہ نسل کے گھوڑوں سے انہیں بے پناہ لگاؤ تھا، جس کا دیدار ان کی ہر فلم میں کیا جاسکتا ہے۔فیروز خان نے اپنے کریئر کی ابتدا ثانوی درجے کی فلموں سے کی۔۱۹۶۰ءمیں انہوں نے ’دیدی‘ نامی فلم میں بطور معاون اداکارکام کیا۔بعد ازاں کئی برسوں تک وہ بی اورسی گر یڈ فلموں میں کام کرتے رہے۔  ۱۹۶۵ءمیں ریلیز ہونے والی فلم ’اونچے لوگ‘ ان کے کریئر کا سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس فلم میں ان کی اداکاری کو کافی سراہا گیا اورکامیابی ان کے قدم چومنے لگی۔ اس کے بعد انہوں نے سپرہٹ فلم’ آرزو‘میں بطور معاون اداکاربہترین کام کرکے خوب شہرت کمائی۔ ۱۹۶۹ءمیں فیروز خان کو’آدمی اور انسان‘ میں بہترین اداکاری کے لئے فلم فیئرایوارڈ سے نوازا گیا۔ حالاں کہ اس وقت فیروز خان نے فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت توقائم کرلی تھی لیکن بہت کم ہدایت کار و فلمساز انہیں فلموں میں لیڈ رول کیلئے منتخب کرتے تھے۔ اس کا فیروز خان کو کہیں نہ کہیں قلق ضرور تھا، اس لئے انہوں نے اپنی مدد آپ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے خود کو اداکاری تک ہی محدود نہ رکھ کر فلم سازی اور ہدایت کاری کے میدان میں قدم رکھ دیا اور کامیاب بھی رہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اداکار سے زیادہ ہدایت کار اور فلم ساز تھے تو غلط نہ ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی شخصیت کو ذہن میں رکھ کر اسکرپٹ لکھی جاتی تھی اور وہ اپنی فلموں میں دل کھول کر پیسہ خرچ کرتے تھے۔ ۱۹۷۵ءمیں انہوں نے فلم ’دھرماتما‘ بنائی۔ یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی اور ان کی شہرت و مقبولیت کا سبب بنی۔اس فلم میں فیروز خان نے بطور ہدایت کار اور اداکار اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس فلم میں افغانستان کے قدرتی مناظر کو بہترین انداز میں پیش کیا گیا تھا۔  ۱۹۸۰ءمیں ریلیزشہرہ آفاق فلم ’قربانی‘ اس قدرہٹ ثابت ہوئی کہ اس فلم کی ہدایت کاری کے بعد ان کا شمار صف اول کے ہدایت کاروں میں ہونے لگا۔ اس فلم میں ایک نئی تکنیک سے متعارف کرایا گیا تھا یعنی قربانی بالی ووڈ کی ایسی اولین فلم تھی جس میں ہالی ووڈ کی طرز پر گلاس کا استعمال کیا گیا۔ اس فلم میں فیروز خان کے علاوہ سپر اسٹار ونود کھنہ، زینت امان اور امجد خان جیسے فنکار موجود تھے۔ اس فلم میں پاکستانی گلوکارہ نازیہ حسن کو انڈین فلم انڈسٹری میں متعارف کرانے والے فیروز خان ہی تھے۔ نازیہ حسن نے اس فلم میں ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے‘ گاکر لوگوں کو حیرت انگیز مسرت کا احساس کروایااور ہر خاص وعام کے لبوں پر یہ گانا مچلتا رہا۔ فلم کے زیادہ تر مناظر بیرون ملک میں فلمائے گئے تھے۔ فیروز خان کی ایک اور فلم ’جاں باز‘ اداکاری، تکنیک، فوٹوگرافی گو کہ ہرزاویہ سے بہترین فلم تھی۔اس پر بھی فیروز خان نے دل کھول کر پیسہ خرچ کیا۔ یہ فلم ۱۹۸۶ءمیں ریلیز ہوئی۔بعدازاں۱۹۸۸ءمیں ’دیاوان‘۱۹۹۲ءمیں ’یلغار، ۱۹۹۸ءمیںپریم اگن، ۲۰۰۳ءمیں جانشین اور۲۰۰۵ء میں ایک کھلاڑی ایک حسینہ‘ بنائی۔ پریم اگن، جانشین اور ایک کھلاڑی ایک حسینہ میں انہوں نے اپنے بیٹے اداکار فردین خان کو متعارف کرایا۔ انہوں نے کامیڈی فلم ’ویلکم‘میں کام کیا جو ان کی آخری فلم تھی۔ وہ پھیپھڑوں کے سرطان جیسے عارضہ میں مبتلا ہوگئے اورمستقل بیمار رہنے لگے۔ فیرو خان کو۲۰۰۰ءمیں فلم فیئر کے لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ پردہ سیمیں اور ذاتی زندگی میں اپنے منفرد اسلوب، اپنی آن بان اور شان کے ساتھ چمکنے والا یہ ستارہ ۲۷؍ اپریل ۲۰۰۹ء کو اس جہان فانی سے کوچ کرگیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK