ممبئی کانگریس کی صدراور رکن پارلیمان ورشاگائیکواڑ نے پریس کانفرنس کی، الزام لگایا کہ ملاڈ میں ۸؍ لاکھ ۷۱؍ ہزار مربع فٹ زمین پر ۵ ؍ ہزار کروڑ روپے کا پی اے پی گھوٹالہ ہوا ہے، جس میں مہایوتی حکومت ملوث ہے، اس معاملے کی اعلیٰ سطحی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا
             
            
                                    
                
                                
                پریس کانفرنس میں ورشا گائیکواڑ، اشرف اعظمی ، محسن حیدربھی نظر آرہے ہیں۔ تصویر: آئی این این                 
             
                         ممبئی کانگریس کی صدر و رکن پارلیمان روشا گائیکواڑ نے پیر کو ممبئی میں کانگریس دفتر میں منعقدہ پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی کی مہایوتی حکومت نے ملاڈ (ایسٹ) میںسنجے گاندھی نیشنل پارک کے قریب پہاڑی علاقے میں  ۸؍ لاکھ ۷۱؍ ہزار مربع فٹ زمین پر  ۵ ؍ ہزار کروڑ روپے کا گھوٹالہ کیاہے۔ یہ گھوٹالہ ممبئی کی تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا گھوٹالہ ہے۔ انہوںنے مزید کہا کہ مہا یوتی حکومت ممبئی اپنے ’’چہیتے کانٹریکٹرز‘‘ کو فائدہ پہنچانے کیلئے یہ گھوٹالہ کیا ہے۔ اس پریس کانفرنس میں سابق کارپوریٹر اشرف اعظمی ،محسن حیدر ور دیگر موجود تھے۔انہوںنے مطالبہ کیا ہے کہ اس پروجیکٹ کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے اور اس کی اعلیٰ سطحی انکوائری کرائی جائے اور متعلقہ افسران کے خلاف مجرمانہ کارروائی کی جائے۔
اس گھوٹالے کے متعلق رکن پارلیمنٹ ورشا گائیکواڑ نے مزید کہا کہ ’’پچھلے کچھ دنوں سے ہم ممبئی میں بی جے پی مہاوتی حکومت کے بڑے گھوٹالوں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ آج ہم ملاڈ پی اے پی گھوٹالے کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ اس گھوٹالے میں، فرنویس حکومت نے ماحولیات کے قوانین اور ممبئی ڈیولپمنٹ کنٹرول ریگولیشنز کی دفعات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے پیارے بلڈر دوست کو ناجائز فائدہ پہنچایا ہے۔ اس گھوٹالے میں، پلاٹ کو ’نو ڈیولپمنٹ زون(این ڈی زیڈ)‘ کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے، جو سنجے گاندھی نیشنل پارک سے متصل ہے۔ حکومت اور بی ایم سی نے کاغذی کارروائی، دوبارہ درجہ بندی اور ملی بھگت سے اس بلڈر دوست کے لیے سونے کی کان بنائی ہے۔ یہ چہیتا بلڈر ڈی بی ریئلٹی ہے، جس نے اب اپنا نام بدل کر ویلور اسٹیٹ پرائیویٹ لمیٹڈ رکھ لیا ہے۔‘‘  ورشا گائیکواڑ نے کہاکہ ممبئی کا نیا ترقیاتی منصوبہ(ڈی سی پی آر ۲۰۳۴)۸؍ مئی ۲۰۱۸ءکو منظور کیا گیا تھا۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق، اس پلاٹ کو اس پلان میں’’نو ڈیولپمنٹ زون(این ڈی زیڈ)‘‘ کے طور پر نشان زد کیا گیا تھا۔ اس پلاٹ تک رسائی کی کوئی سڑک نہیں ہے، اور یہ ایک اونچے، نشیبی، پہاڑی علاقے میں واقع ہے، جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ مزید یہ کہ ڈی سی پی آر ۲۰۳۴  کے مطابق، یہ پلاٹ ممکنہ طور پر سنجے گاندھی نیشنل پارک کے ماحولیاتی طور پر حساس علاقے میں آتا ہے۔
این ڈی زیڈکو رہائشی زون میں تبدیل کیا گیا
ورشا گائیکواڑ نے کہا کہ ’’ فرنویس حکومت نے۱۲؍ مئی۲۰۲۳ءکو ایک ہی حکم کے ساتھ ایک چمتکارکیا۔ جو زمین نو ڈیولپمنٹ زون تھی اسے رہائشی زون( آر زون)کے طور پر درجہ بندی کیا گیا اور اس جادوئی تبدیلی کے بعد، اس پلاٹ کو ’’پولیس ہاؤسنگ‘‘ کے طور پر محفوظ کر دیا گیا۔ یہ زمین پہاڑی علاقے میں ہے، ماحولیات کے لحاظ سے حساس ہے اور یہاں تک سڑک کی رسائی نہیں ہے، پھر بھی اچانک اسے رہائشی علاقے کے طور پر دکھایا گیا جس میں پولیس ہاؤسنگ کے لیے ریزرویشن ہے۔ 
پولیس ہاؤسنگ اور پی اے پی کے نام پر لوٹ !
ورشا گائیکواڑ نے بتایا کہ ’’پولیس ہاؤسنگ کی ریزرویشن صرف ایک آسان خامی تھی جسے بلڈرز استعمال کرتے تھے۔ پولیس ہاؤسنگ کیلئے  ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی۔ اسکے بجائے، ۲۰؍ جون ۲۰۲۳ء کو ڈی بی رئیلٹی نے پی اے پی کے لیے بی ایم سی کی طرف سے پیش کئے گئے ٹینڈر میں حصہ لیا اور میونسپل کارپوریشن کو اس پلاٹ پر رہائش ریزرویشن پالیسی کے تحت۱۳؍ ہزار ۳۷۴؍ پی اے پی تعمیر کرنے کی تجویز دی۔ اس کے بدلے میں زمین کا ٹی ڈی آر، تعمیراتی ٹی ڈی آر اور کریڈٹ نوٹ حاصل کرنا تھا اور اسے رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں بیچ کر ہزاروں کروڑ کا منافع کمانے کی سازش ہے۔