ثریا اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھیں۔ ثریا نےابتدائی تعلیم ممبئی کےنیو گرلس ہائی اسکول سے مکمل کی۔ اس کے ساتھ ہی وہ گھر پر ہی قرآن اور فارسی کی تعلیم بھی حاصل کیا کرتی تھیں۔
EPAPER
Updated: June 15, 2025, 10:47 AM IST | Mumbai
ثریا اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھیں۔ ثریا نےابتدائی تعلیم ممبئی کےنیو گرلس ہائی اسکول سے مکمل کی۔ اس کے ساتھ ہی وہ گھر پر ہی قرآن اور فارسی کی تعلیم بھی حاصل کیا کرتی تھیں۔
بالی ووڈمیں ثریا کو ایسی گلوکارہ اور اداکارہ کے طور پریاد کیا جاتا ہے جنہوں نےاپنی شاندار اداکاری اور جادوئی آواز سےتقریباً۴؍ دہائیوں تک فلمی مداحوں کو اپنا دیوانہ بنائے رکھا۔ ۱۵؍ جون ۱۹۲۹ءکوپنجاب کے گوجرانوالہ شہر میں ایک درمیانے طبقے کے خاندان میں پیدا ہونےوالی ثریا کا رجحان بچپن سے ہی موسیقی کی طرف تھا اور وہ پلے بیک سنگر بننا چاہتی تھی۔ تاہم انہوں نےکسی استاد سے موسیقی کی تعلیم نہیں لی تھی لیکن موسیقی پر ان کی اچھی گرفت تھی۔
ثریا اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھیں۔ ثریا نےابتدائی تعلیم ممبئی کےنیو گرلس ہائی اسکول سے مکمل کی۔ اس کے ساتھ ہی وہ گھر پر ہی قرآن اور فارسی کی تعلیم بھی حاصل کیا کرتی تھیں۔ بطور چائلڈ اسٹار ۱۹۳۸ء ان کی پہلی فلم ’’ اس نے سوچا تھا‘‘ ریلیز ہوئی۔ ثریا کو اپنا سب سےپہلا بڑا کام اپنےچچا ظہور کی مدد سے ملا جو ان دنوں فلم انڈسٹری میں بطور ولن اپنی شناخت بنا چکے تھے۔ ۱۹۴۱ءمیں اسکول کی چھٹيوں کے دوران ایک بار ثریا موہن اسٹوڈیو میں فلم تاج محل کی شوٹنگ دیکھنےگئیں۔ وہاں ان کی ملاقات فلم کے ڈائریکٹر نانو بھائی وکیل سے ہوئی جنہیں ثریا میں فلم انڈسٹری کا ایک ابھرتا ہوا ستارہ دکھائی دیا۔ انہوں نے ثریا کو فلم کے کردار ممتاز محل کیلئے منتخب کر لیا۔
آکاشوانی کے ایک پروگرام کے دوران موسیقی کےشہنشاہ نوشاد نےجب ثریا کو گاتے ہوئےسناتب وہ ان کے گانے کے انداز سے بہت متاثر ہوئے۔ نوشادکی موسیقی میں پہلی بار كاردار صاحب کی فلم شاردا میں ثریا کو گانے کا موقع ملا۔ اس درمیان ثریا کو۱۹۴۶ءمیں محبوب خان کی ’انمول گھڑی‘ میں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ اگرچہ ثریا اس فلم میں معاون ہیروئن کے طورپرنظر آئیں، لیکن فلم کے ایک گانے ’سوچا تھا کیا، کیا ہو گیا‘سےوہ بطور پلے بیک سنگر سامعین کے درمیان اپنی شناخت بنانے میں کافی حد تک کامیاب رہیں۔
۵۰ءکی دہائی میں ثریا کے فلمی کریئرمیں بے مثال تبدیلی آئی۔ وہ اپنی حریف اداکارہ نرگس اور کامنی کوشل سے بھی آگے نکل گئی۔ اس کابنیادی سبب یہ تھا کہ ثریا اداکاری کے ساتھ ساتھ گانے بھی گاتی تھیں۔ پیارکی جیت، بڑی بہن اور دل لگی(۱۹۵۰ء)جیسی فلموں کی کامیابی کےبعد ثریا شہرت کی بلنديوں پر جا پہنچیں۔ ثریا کے فلمی کریئرمیں ان کی جوڑی فلم اداکار دیو آنند کےساتھ خوب جمی۔ ثریا اور دیو آنند کی جوڑی والی فلموں میں شاعر، افسر، نیلے اور دو ستارے جیسی فلمیں شامل ہیں۔
۱۹۵۴ءمیں آئی فلم مرزا غالب اور وارث کی کامیابی سےثریا ایک بار پھرفلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانےمیں کامیاب ہو گئیں۔ فلم مرزا غالب کو صدر جمہوریہ کے گولڈمیڈل ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔ فلم دیکھتے وقت اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اتنےجذباتی ہو گئے کہ انہوں نے ثریا کو کہا تم نے مرزا غالب کی روح کو زندہ کر دیا۔ ۱۹۶۳ءمیں آئی فلم رستم سہراب کی کارکردگی کے بعد ثریا نےخود کو فلم انڈسٹری سے الگ کر لیا۔ تقریباً ۳؍ دہائی تک اپنی جادو بھری آواز اور اداکاری سےمداحوں کا دل جیتنے والی ثریا نے ۳۱؍ جنوری ۲۰۰۰۴ءکو اس دنیا کو الوداع کہہ دیا۔